دنیا کا سب سے مہنگا ویزا کس ملک نے جاری کر رکھا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بین الاقوامی سفر کا شوق اپنی جگہ پرانتہائی دلکش تجربہ ہے، مگر اس کا سب سے پیچیدہ اور صبر آزما مرحلہ اکثر ویزے کے حصول سے وابستہ ہوتا ہے۔ کاغذی کارروائی، مختلف شرائط اور طویل انتظار کے بعد جب مہر لگتی ہے تو مسافر کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ تاہم، دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جس کا ویزا محض کاغذی مراحل کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بھاری فیس کے باعث شہرت رکھتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ یہ امریکا ہے، نہ برطانیہ، بلکہ ایک چھوٹا سا ہمالیائی ملک “بھوٹان”ہے۔
رپورٹس کے مطابق بھوٹان کا وزٹ ویزا دنیا کا سب سے مہنگا ویزا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح یہاں صرف ایک مرتبہ فیس ادا کرنے کا نظام نہیں، بلکہ بھوٹان نے اپنے ویزا کو “سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ فیس (SDF)” کے ماڈل سے منسلک کر رکھا ہے۔ اس فیس کے تحت ہر سیاح کو فی رات 100 امریکی ڈالر ادا کرنا لازمی ہے۔ یعنی جتنا طویل قیام، اتنا زیادہ خرچ گویا قدرتی خوبصورتی دیکھنے کی قیمت بھی خاصی بھاری ہے۔
بھوٹان کے اس منفرد نظام کے پیچھے ایک واضح فلسفہ کارفرما ہے۔ حکومت کی پالیسی ہے کہ ملک میں آنے والے سیاحوں کی تعداد کم ہو لیکن وہ اپنے قیام کے دوران اعلیٰ اخلاقی و ثقافتی اقدار کے ساتھ مقامی ماحول، جنگلات اور روایات کا احترام کریں۔ یہی سوچ بھوٹان کو دیگر سیاحتی ممالک سے ممتاز بناتی ہے، جہاں منفعت سے زیادہ ماحول اور ثقافت کے تحفظ کو ترجیح دی جاتی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ بھوٹان نے اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے شہریوں کے لیے اس قاعدے میں نرمی رکھی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی باشندوں کو ویزے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی؛ وہ صرف اپنا قومی شناختی کارڈ دکھا کر داخل ہو سکتے ہیں۔ البتہ ان سے 100 ڈالر کے بجائے 1200 بھارتی روپے بطور فیس وصول کیے جاتے ہیں، جو بھوٹان کے دیگر بین الاقوامی نرخوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
یوں بھوٹان، جو اپنے پرسکون مناظر، روحانی فضا اور ماحول دوستی کے لیے مشہور ہے، دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش مگر مہنگا ترین خواب بن چکا ہے — ایک ایسا ملک جو اپنی سرحدوں کے اندر آنے والے ہر مسافر سے یہ قیمت وصول کرتا ہے کہ وہ صرف زمین نہیں، بلکہ فطرت کی اصل قدر کو محسوس کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
جے ایس او محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک اور مشن کے طور پر کام کرے، علامہ ساجد نقوی
جے ایس او کنونشن سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے ایس یو سی سربراہ نے کہا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جے ایس او ایک امتیازی اور معتبر طلبہ تنظیم کے طور پر سامنے آئے، جو نوجوانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے سرگرم ہو۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے جے ایس او پاکستان کے کنونشن سے ٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے مجلسِ نظارت، مرکزی کابینہ اور تمام شرکاء کو خراجِ تحسین پیش کیا اور تنظیمی کاوشوں کو سراہا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جے ایس او ایک با مقصد طلبہ تنظیم ہے جس کے دستور میں واضح اہداف و مقاصد موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ جے ایس او محض ایک تنظیم نہیں بلکہ ایک تحریک اور مشن کے طور پر کام کرے، تاکہ طلبہ برادری میں فکری، اخلاقی اور تعلیمی بیداری پیدا ہو۔ علامہ ساجد نقوی نے زور دیا کہ جے ایس او کے کارکنان اپنے مشن کو وسعت دیں، طلبہ کے مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جے ایس او ایک امتیازی اور معتبر طلبہ تنظیم کے طور پر سامنے آئے، جو نوجوانوں کی اصلاح و فلاح کے لیے سرگرم ہو۔ علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ ماضی میں جے ایس او کی کارکردگی اطمینان بخش رہی ہے، تاہم اب وقت آگیا ہے کہ اس معیار کو مزید بلند کیا جائے، آئندہ کنونشن میں تنظیمی جدوجہد کو ایک نئے مرحلے میں داخل ہونا چاہیئے تاکہ جے ایس او کو ایک نمایاں مقام حاصل ہو جسے طلبہ برادری فخر سے تسلیم کرے۔ انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو اس مشن کو خلوصِ نیت، نظم و ضبط اور جذبۂ خدمت کے ساتھ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔