امریکا کی نئی ویزا پالیسی: کیا اب ذیابیطس اور موٹاپے کے شکار افراد کو امریکی ویزا نہیں ملے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
امریکا نے پاکستان کے لیے اپنی ویزا پالیسی میں متعدد تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں، جن کا مقصد سیکیورٹی جانچ کو مزید سخت بنانا اور درخواستوں کے عمل کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔
نئی پالیسی میں جہاں سوشل میڈیا، صحت اور مالی شفافیت سے متعلق سخت اقدامات شامل کیے گئے ہیں، وہیں بعض پاکستانی درخواست دہندگان کے لیے انٹرویو چھوٹ اور آن لائن اپوائنٹمنٹ کے نظام میں آسانیاں بھی فراہم کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی ویزا اور گرین کارڈ کے قواعد مزید سخت کردیے گئے
سوشل میڈیا کی جانچ اب لازم قرارامریکی قونصلیٹ کراچی اور لاہور کی جانب سے جاری تازہ ہدایات کے مطابق اب پاکستان سے غیر ہجرتی ویزوں خصوصاً تعلیم (ایف)، تربیت (ایم) اور تبادلہ پروگرام (جے) ویزوں کے لیے درخواست دینے والوں کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو پبلک رکھنا ہوگا۔
اس کا مقصد قونصلیٹ افسران کو درخواست دہندگان کی آن لائن سرگرمیوں اور شناخت کی تصدیق میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ حکام کے مطابق اگر کوئی امیدوار غلط یا نامکمل معلومات فراہم کرتا ہے، یا اپنے اکاؤنٹس کو نجی رکھتا ہے، تو اس کی درخواست مسترد ہو سکتی ہے۔
یہ اقدام سیکیورٹی کے سخت معیار اور جعلی دستاویزات کے خلاف عالمی امریکی پالیسی کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم بعض ماہرین کے نزدیک اس سے شہریوں کی ذاتی رازداری کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
آن لائن اپوائنٹمنٹ نظام میں بہتری:فروری 2025 سے امریکا نے اپنے آن لائن ویزا اپوائنٹمنٹ سسٹم میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔ اس نئے نظام کے تحت تمام درخواست دہندگان کو نیا پروفائل بنانا ہوگا، جبکہ وہی ای میل ایڈریس استعمال کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جس سے پہلے فیس ادا کی گئی تھی یا اپوائنٹمنٹ بک کی گئی تھی۔
امریکی سفارت خانہ اسلام آباد اور قونصلیٹ جنرل کراچی کے مطابق اس تبدیلی کا مقصد درخواستوں کے عمل کو ’زیادہ شفاف، تیز اور منظم‘ بنانا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستانی شہریوں کو سہولت ملے گی اور غلطیوں یا تاخیر کے امکانات کم ہوں گے۔
انٹرویو چھوٹ کی پالیسی میں نرمی:نئی پالیسی میں ایک اہم ریلیف بی 1 یا بی 2 (تجارتی اور سیاحتی) ویزوں کے لیے دیا گیا ہے۔ امریکی مشن پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ ایسے شہری جن کے ویزے کی مدت ختم ہوئے 48 ماہ سے کم عرصہ گزرا ہے، وہ اب بغیر انٹرویو کے ویزے کی تجدید کے اہل ہو سکتے ہیں۔
یہ سہولت ان پاکستانیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی جن کے سابقہ ویزے درست طریقے سے استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم سفارت خانہ نے واضح کیا ہے کہ ہر کیس کا انفرادی جائزہ لیا جائے گا اور اگر ضرورت محسوس ہو تو درخواست دہندہ کو انٹرویو کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے۔
صحت اور دائمی بیماریوں سے متعلق نئی رہنمائی:امریکا کے محکمہ خارجہ نے حالیہ ہدایات میں صحت سے متعلق معلومات کو بھی ویزا جائزے کا حصہ بنایا ہے۔
ذرائع کے مطابق نئی رہنمائی میں قونصلیٹ افسران کو کہا گیا ہے کہ وہ ایسے درخواست دہندگان کے کیسز پر خصوصی توجہ دیں جو ذیابیطس (Diabetes)، موٹاپے (Obesity) یا کسی اور دائمی بیماری میں مبتلا ہیں۔
سرکاری ضابطہ (9 FAM 302.
تاہم امریکی سفارت خانے اسلام آباد کی ویب سائٹ پر ایسی کوئی مخصوص ہدایت پاکستانی شہریوں کے لیے جاری نہیں کی گئی۔ اب تک یہ رہنمائی عمومی نوعیت کی ہے اور زیادہ تر امیگرنٹ یا طویل قیام والے ویزوں پر لاگو ہوتی ہے، نہ کہ سیاحتی یا مختصر قیام والے ویزوں پر ایسی پابندی کا ذکر ہے۔
واضح رہے کہ یہ رول میڈیکل معائنہ (کلاس B کنڈیشنز) کے نتائج پر مبنی ہوتا ہے، جہاں سنگین صحت کے مسائل کو self-sufficiency پر اثرات کی بنیاد پر جائزہ لیا جاتا ہے۔ تاہم یہ تبدیلیاں ابھی تک داخلی کیبل کی شکل میں ہیں اور سرکاری ویب سائٹ پر شائع نہیں ہوئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہدایات عمومی نوعیت کی ہیں اور بنیادی طور پر امیگرنٹ یا طویل قیام والے ویزوں (جیسے گرین کارڈ) پر لاگو ہوتی ہیں، نہ کہ سیاحتی (B-1/B-2) یا مختصر قیام والے ویزوں پر۔ محکمہ خارجہ کی جانب سے بھی ایسی کوئی خصوصی ہدایات نہ تو ویب سائٹ پر دستیاب ہیں اور نہ ہی کسی سرکاری بیان میں ان کا اعلان کیا گیا۔
’پاکستان جیسے ممالک میں ذیابیطس اور موٹاپے کی شرح عالمی اوسط سے کہیں زیادہ‘البتہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مختلف میڈیا رپورٹس پر یہ خبر تیزی سے پھیل رہی ہے کہ ذیابیطس اور موٹاپے کے شکار افراد کے لیے امریکا کا ویزا حاصل کرنا اب ناممکن ہو گیا ہے۔ جو عوام میں مزید تشویش پیدا کررہا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ذیابیطس اور موٹاپے کی شرح عالمی اوسط سے کہیں زیادہ ہے، یہ خبر تشویش کا باعث بن رہی ہے۔
پاکستان میں ان تبدیلیوں پر ملا جلا ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کی سخت جانچ اور صحت کے معیار کی شمولیت امریکی ویزا کے عمل کو مزید سخت کر دے گی۔ دوسری جانب انٹرویو چھوٹ اور آن لائن سسٹم میں بہتری پاکستانی شہریوں کے لیے سہولت پیدا کرے گی۔
مزید پڑھیں: امریکی ویزا کے لیے سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال: ’پرائیویسی ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘
صحت کے ماہرین کا خیال ہے کہ ذیابیطس یا موٹاپے جیسی بیماریوں کو ویزا پالیسی میں شامل کرنا ایک حساس معاملہ ہے، کیونکہ یہ بیماریاں دنیا بھر میں عام ہیں اور زیادہ تر افراد ان کے ساتھ نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا صحت کے مسائل نئی تبدیلیاں وی نیوز ویزا پالیسیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا صحت کے مسائل نئی تبدیلیاں وی نیوز ویزا پالیسی ذیابیطس اور موٹاپے درخواست دہندگان قیام والے ویزوں ویزا پالیسی امریکی ویزا سوشل میڈیا پالیسی میں کے مطابق ہیں اور آن لائن صحت کے کی گئی کے لیے
پڑھیں:
ٹرمپ کا اپنے مؤقف پر یوٹرن، غیر ملکی طلبہ امریکا کیلئے اچھے ہیں
اِن کا کہنا تھا کہ غیر ملکی طلبہ فیس کی مد میں مقامی طلبہ کے مقابلے میں دُگنی رقم ادا کرتے ہیں، اس لیے یہ نظام امریکی یونیورسٹیوں کے لیے مالی طور پر بہت اہم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سابقہ "میک امریکا گریٹ اگین" پالیسی کے برعکس ایک نیا مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی طلبہ امریکی تعلیمی اداروں اور معیشت کے لیے فائدہ مند ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والے طلبہ امریکی جامعات کے مالی ڈھانچے کو مضبوط رکھتے ہیں، اِن کے بغیر درجنوں تعلیمی ادارے بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں، اگر غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں بڑی کمی کی گئی تو امریکی یونیورسٹیوں کا آدھا نظام تباہ ہو جائے گا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا میں چین سمیت مختلف ممالک کے طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور اگر ان کی تعداد محدود کر دی گئی تو ناصرف تعلیمی اداروں بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ اِن کا کہنا تھا کہ غیر ملکی طلبہ فیس کی مد میں مقامی طلبہ کے مقابلے میں دُگنی رقم ادا کرتے ہیں، اس لیے یہ نظام امریکی یونیورسٹیوں کے لیے مالی طور پر بہت اہم ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کا یہ نیا مؤقف اِن کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے متضاد ہے۔ رواں سال جنوری میں دوسری مدتِ صدارت سنبھالنے کے بعد اِن کی انتظامیہ نے ہزاروں غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کیے، متعدد طلبہ کو گرفتار کیا جو pro-Palestine سرگرمیوں میں شریک تھے اور ویزا درخواستوں کے تقاضے مزید سخت کر دیے۔ انتظامیہ نے ہارورڈ اور اسٹینفورڈ سمیت کئی بڑے امریکی تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا، ان پر غیر ملکی طلبہ کے اندراج کے حوالے سے قواعد کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا۔ہارورڈ یونیورسٹی نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے بعد عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو غیر ملکی طلبہ پر پابندی عائد کرنے سے روک دیا تاہم حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔