ٹرمپ کی H-1B ویزا حمایت پر اپنی ہی جماعت میں مخالفت کی لہر
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی جماعت کے ’میک امریکا گریٹ اگین‘ حامیوں کی جانب سے اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے پارٹی کے ایک متنازع مسئلے ایچ ون بی ویزا (H-1B) پر دوبارہ بحث چھیڑ دی۔
یہ ویزا امریکی کمپنیوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اعلیٰ مہارت رکھنے والے غیر ملکی کارکنان کو زیادہ سے زیادہ 6 سال کے لیے ملازمت دے سکیں۔
یہ بھی پڑھیں:
یہ مسئلہ اس وقت دوبارہ زیرِ بحث آیا جب صدر ٹرمپ نے فوکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی ہنرمندوں کو امریکا لانا ضروری ہے تاکہ ملک میں ٹیلنٹ آ سکے۔
Trump just said H-1B visas are important to "bring in talent" and "You can't take people off an unemployment line and say I'm gonna put you into a factory where we're gonna make missiles".
Since unemployment affects two thirds of MAGA, many MAGA are annoyed with the orange turd. pic.twitter.com/iYzgttZF5q
— MAGAtard ???????????????? ???????? ???????? ???????? (@RealMAGAtard) November 12, 2025
اینکر کے اس مؤقف کے جواب میں کہ امریکا میں پہلے ہی باصلاحیت لوگ موجود ہیں، ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ مخصوص صلاحیتیں نہیں ہیں۔
’نہیں، آپ کے پاس نہیں! آپ کے پاس کچھ مخصوص صلاحیتیں نہیں ہیں، اور لوگوں کو سیکھنا پڑتا ہے، آپ بےروزگاروں کو فیکٹری میں نہیں لگا سکتے جہاں میزائل بن رہے ہوں۔‘
مزید پڑھیں:
ٹرمپ نے یہ بھی دفاع کیا کہ 600,000 چینی طلبا کو امریکی یونیورسٹیوں میں داخلے کی اجازت دینے کی حمایت انہوں نے اس لیے کی تاکہ امریکی تعلیمی ادارے کاروبار سے باہر نہ ہو جائیں۔
ایچ ون بی پروگرام کے حامی اسے امریکی مسابقت برقرار رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں، جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے غیر ملکی کارکن امریکیوں کی ملازمتیں چھین لیتے ہیں۔
ریپبلکن رکنِ کانگریس مارجوری ٹیلر گرین نے ٹرمپ کے مؤقف پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’امریکا فرسٹ‘ اور ’صرف امریکا‘ پر یقین رکھتی ہیں۔
’میں امریکی عوام پر ایمان رکھتی ہوں، وہ ذہین، محنتی اور باصلاحیت ہیں، میں غیر ملکی مزدوروں کے حق میں نہیں ہوں جو ایچ ون بی کے ذریعے امریکیوں کی جگہ لیں۔‘
مزید پڑھیں:
فلوریڈا کے ریپبلکن رہنما انتھونی سباتینی نے خبردار کیا کہ یہ پالیسی 2026 کے مڈٹرم انتخابات میں ریپبلکنز کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
’یہ پاگل پن ہے، ہم مڈٹرم انتخابات بری طرح ہار جائیں گے۔‘
دوسری جانب، وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ستمبر میں ٹرمپ انتظامیہ نے کمپنیوں پر ایچ ون بی ویزا کے لیے سالانہ 100,000 ڈالر فیس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ نظام میں شفافیت لائی جا سکے۔
مزید پڑھیں:
ترجمان ٹیلر راجرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ امریکی کارکنوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہی ہے تاکہ ایچ ون بی صرف اعلیٰ ہنرمند افراد کے لیے استعمال ہو، نہ کہ کم اجرت والے کارکن جو امریکیوں کی جگہ لیں۔
ایچ ون بی ویزا ہمیشہ سے ٹرمپ کے حلقے میں ایک متنازع معاملہ رہا ہے، دسمبر 2024 میں ٹرمپ نے اسے ’زبردست پروگرام‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایچ ون بی کے حامی ہیں۔
ایلون مسک نے، جو خود جنوبی افریقہ سے ایچ ون بی ویزا پر امریکا آئے تھے، ٹرمپ کے مؤقف کی حمایت کی۔
’میں اور وہ لوگ جنہوں نے اسپیس ایکس، ٹیسلا اور دیگر کمپنیوں کو بنایا، سب ایچ ون بی کی بدولت امریکا میں ہیں۔‘
تاہم، اسٹیو بینن جیسے پرانے میگا رہنماؤں نے پروگرام کو فریب قرار دیا اور مسک کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا۔
مزید پڑھیں:
’ٹیک کمپنیاں ایچ ون بی سسٹم کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں، عوام غصے میں ہیں، میں ذاتی طور پر مسک کو وائٹ ہاؤس سے باہر کرنے کو اپنا مشن بناؤں گا۔‘
ادھر بائیں بازو کے رہنما بھی اس پروگرام کے ناقد ہیں۔ سینیٹر برنی سینڈرز نے کہاکہ ایچ ون بی ویزے کا مقصد ’بہترین اور باصلاحیت‘ کو بھرتی کرنا نہیں، بلکہ امریکیوں کی اچھی تنخواہ والی نوکریاں سستے غیر ملکی مزدوروں سے بدلنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
H-1B ایچ ون بی ایلون مسک برنی سینڈر ٹرمپ جنوبی افریقہ ڈونلڈ ٹرمپ میک امریکا گریٹ اگین وائٹ ہاؤس ویزاذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایچ ون بی ایلون مسک جنوبی افریقہ ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس ویزا ایچ ون بی ویزا امریکیوں کی مزید پڑھیں غیر ملکی کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
’غیرملکی طلبہ امریکا کیلئے اچھے ہیں،‘ ٹرمپ کا اپنے مؤقف پر یوٹرن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سابقہ ’میک امریکا گریٹ اگین‘ پالیسی کے برعکس ایک نیا مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ملکی طلبہ امریکی تعلیمی اداروں اور معیشت کے لیے فائدہ مند ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ بیرونِ ملک سے آنے والے طلبہ امریکی جامعات کے مالی ڈھانچے کو مضبوط رکھتے ہیں، اِن کے بغیر درجنوں تعلیمی ادارے بند ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں، اگر غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں بڑی کمی کی گئی تو ’امریکی یونیورسٹیوں کا آدھا نظام تباہ ہو جائے گا۔‘
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا میں چین سمیت مختلف ممالک کے طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور اگر ان کی تعداد محدود کر دی گئی تو ناصرف تعلیمی اداروں بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔
اِن کا کہنا تھا کہ غیر ملکی طلبہ فیس کی مد میں مقامی طلبہ کے مقابلے میں دُگنی رقم ادا کرتے ہیں، اس لیے یہ نظام امریکی یونیورسٹیوں کے لیے مالی طور پر بہت اہم ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے تعلیمی اداروں کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں، اگرچہ یہ فیصلہ ان کے لیے سیاسی طور پر آسان نہیں لیکن وہ اسے کاروباری نقطۂ نظر سے بہتر سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیاں
واضح رہے کہ ٹرمپ کا یہ نیا مؤقف اِن کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے متضاد ہے۔
رواں سال جنوری میں دوسری مدتِ صدارت سنبھالنے کے بعد اِن کی انتظامیہ نے ہزاروں غیر ملکی طلبہ کے ویزے منسوخ کیے، متعدد طلبہ کو گرفتار کیا جو pro-Palestine سرگرمیوں میں شریک تھے اور ویزا درخواستوں کے تقاضے مزید سخت کر دیے۔
انتظامیہ نے ہارورڈ اور اسٹینفورڈ سمیت کئی بڑے امریکی تعلیمی اداروں کو بھی نشانہ بنایا، ان پر غیر ملکی طلبہ کے اندراج کے حوالے سے قواعد کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے بعد عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو غیر ملکی طلبہ پر پابندی عائد کرنے سے روک دیا تاہم حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔