Express News:
2025-11-10@23:39:49 GMT

ظہران ممدانی کی فتح ٹرمپ کی شکست

اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT

آج کی دنیا کے تقریباً دو سو کے قریب ممالک میں امریکا ہی بلاشرکت غیرے عالمی سطح پر واحد سپر پاور ہے۔ امریکی صدر دنیا کا سب سے طاقتور صدر کہلاتا ہے اور عملاً اس کی ذات میں تمام اختیارات مرتکز ہیں جو اسے قوت فراہم کرتے ہیں جسے امریکی صدر نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرون ملک بھی جب اور جس وقت چاہے اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے اور پوری دنیا کے نظام پر حاوی نظر آتا ہے۔

آج کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے دور اقتدار میں اپنی طاقت و اختیارات کو پوری شد و مد کے ساتھ دنیا بھر میں استعمال کر کے اپنی حاکمیت اور عالمی بالادستی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک بھارت جنگ رکوانے سے لے کر چین و بھارت پر تجارتی ٹیرف لگانے تک اور ایران اسرائیل جنگ کے خاتمے سے لے کر فلسطین اسرائیل امن معاہدے تک کشیدگی ختم کرانے میں اہم کردار ادا کیا جس کا وہ خود بھی برملا مختلف مواقعوں پر کھلا اظہار کرتے رہتے ہیں اور پاکستان میں حکومتی سطح پر پاک بھارت جنگ رکوانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی تعریف و تحسین کی جاتی ہے اور مختلف عالمی فورم پر وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف امریکی صدر کے تنازعات کے حل میں ان کے عالمی کردار کی توصیف کرنے کے پہلو بہ پہلو امن کے نوبل انعام کے لیے امریکی صدر کی نامزدگی کا برملا تذکرہ بھی کرتے رہتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حیرت انگیز عالمی کردار اور طاقت و غیر معمولی اختیارات کے استعمال کے باوجود اپنے ہی ملک کے ایک اہم ترین شہر نیویارک میں میئر کے انتخاب میں اپنے پسندیدہ اور حمایت یافتہ امیدوار کو اپنی تمام تر ریاستی طاقت، اختیارات اور وسائل کے استعمال کے باوجود کامیاب کرانے میں ناکام رہے اور ان کے تجربے، مشاہدے اور عمر سے کئی درجے کم مخالف امیدوار ظہران ممدانی اپنی نوجوانی کے جوش، جنون، نظریات، فلسفے، جذبے اور عوامی خدمت کے وعدوں اور دعوؤں کی سچائی کی طاقت اور عوام پر اپنے یقین کی قوت اور نیویارک کے رنگ نسل، ذات، مذہب کی تفریق سے بالاتر شہریوں نے نوجوان ممدانی پر بھرپور اعتماد کرکے اس کے سر پر فتح کا تاج سجا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔

نیویارک کی میئرشپ کے انتخابات نے ثابت کر دیا کہ اصل حکمرانی ریاستی طاقت اور اختیارات و وسائل کے استعمال کی نہیں بلکہ آئین و قانون اور عوام کی حمایت کی ہوتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ امریکا ہی اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے، معصوم، بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں پر دو سال تک ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والا، ان پر آگ و آہن کی برسات کرنے والا اور غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کرکے 70 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شے اور حمایت سے غزہ میں خونی کھیل کھیلا۔ نوجوان ممدانی نے اپنی الیکشن مہم کے دوران کھل کر نیتن یاہو کے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدید مذمت اور مخالفت کی۔ اس نے اس نظریے اور فلسفے کا پرچار کیا کہ وہ یہودیوں کے خلاف نہیں بلکہ اسرائیل کی پالیسیوں کا مخالف ہے جس نے غزہ کو لہولہان کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ممدانی کو کامیاب کرانے میں نیویارک کے یہودیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور ثابت کر دیا کہ امریکا میں اسلام مخالف پروپیگنڈے اور اسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

 ایک مسلمان امریکی شہری جو یوگنڈا میں پیدا ہوا، اس کے والد بھارتی گجرات کے مسلمان شہری ہیں جب کہ والدہ دہلی کے ہندو خاندان کی خاتون ہیں نے اپنی مسلم شناخت کو سامنے رکھا اور سسٹم کے اندر رہتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طاقت، اختیارات اور وسائل کو حیران کن شکست سے دوچار کرکے ثابت کیا کہ قانون زندہ ہو، سسٹم مضبوط ہو، انصاف کی فراہمی ہو اور عدلیہ ریاستی دباؤ کے آگے سینہ سپر ہو تو کوئی طاقت سچائی اور زمینی حقائق کو بلڈوز نہیں کر سکتی۔

ممدانی سے قبل سیاہ فام مسلمان بارک اوباما بھی حیران کن طور پر کامیابی حاصل کرکے امریکا کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی جیت کے لیے گھر گھر مہم چلائی تھی جب کہ ظہران ممدانی نے آج کے دور کے سب سے طاقتور ذریعے یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا پیغام عام لوگوں تک پہنچایا، انھیں مسائل کے حل کا یقین دلایا، روٹی، کپڑا اور مکان کا دل فریب نعرہ دیا۔ یہ نعرہ پی پی پی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو دیا تھا جس کا آج تک پیپلز پارٹی فائدہ اٹھا رہی ہے لیکن بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ یہاں کونسلر کے انتخاب سے لے کر وزیر اعظم اور صدر کے انتخاب تک طاقت اختیارات اور وسائل کا استعمال کرکے نتائج کو من مانے انداز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جو عوام کی بات کرتا ہے اسے پھانسی، جلاوطنی اور جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ یہاں دھاندلی الیکشن کی اور نظریہ ضرورت انصاف کی پہچان ہے پھر بھلا پاکستان میں کوئی ممدانی کیسے جیت سکتا ہے۔ 78 سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے اور نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے اور کر دیا

پڑھیں:

قاتل کا اعتراف

اسلام ٹائمز: ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریر: علی رضا حقیقت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر حملے کا اعتراف ایک بار پھر ایران کی سرزمین پر غیرقانونی جارحیت میں امریکہ کا کردار واضح کر دیتا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعتراف میڈیا کیمروں کے سامنے کسی پردہ پوشی کے بغیر کیا ہے اور اب مزید کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکی صدر نے چند دن پہلے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 13 جون کے دن ایران پر انجام پانے والے اسرائیلی حملے میں امریکہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ بات اس نے ایسے وقت کہی جب وائٹ ہاوس میں وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان اس کے دیے گئے عشائیے میں موجود تھے۔ ٹرمپ نے اسی طرح یہ دعوی بھی کیا کہ ایران نے امریکہ کی شدید پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ اس موضوع پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے اوول آفس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا: "جب اسرائیل ایران پر حملہ کر رہا تھا تو اس کا مکمل کنٹرول میرے ہاتھ میں تھا۔" ٹرمپ نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو "انتہائی طاقتور" قرار دیا اور دعوی کیا کہ پہلے حملے میں پہنچنے والا نقصان بعد والے حملوں کی نسبت سب سے زیادہ تھا۔ امریکی صدر نے مزید دعوے کرتے ہوئے کہا: "سچی بات کروں، ایران نے پابندیاں ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔ ایران امریکہ کی جانب سے شدید پابندیوں سے روبرو ہے جن کے باعث اسے بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا: "میں دوبارہ اس موضوع پر گفت و شنود کے لیے تیار ہوں اور دیکھوں گا کہ کیا کر سکتا ہوں۔ گفتگو کا دروازہ کھلا ہے۔" اس کا یہ موقف کچھ عرصہ قبل ایران پر اسرائیل کی فوجی جارحیت سے متعلق موقف سے مختلف ہے۔
 
ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔
 
البتہ ٹرمپ اب تک بارہا اعلانیہ طور پر اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ اسے بین الاقوامی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ دوسری طرف جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ 13 جون کی فوجی جارحیت کا نتیجہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے سوائے شکست اور ناکامی کے کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ اس جنگ میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں اور اس کی میزائل طاقت کو بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ لیکن اب تقریباً 5 ماہ گزر جانے کے بعد بہت سے حقائق منظرعام پر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے سوا کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ حتی غاصب صیہونی رژیم کا وزیراعظم بھی بارہا اس تشویش کا اظہار کر چکا ہے کہ ایران اب بھی جوہری طاقت ہے اور ایٹم بم بنانے کی صلاحیت محض چند ماہ موخر ہو گئی ہے۔
 
مزید برآں، ایران پر اسرائیلی امریکی جارحیت کا دوسرا مقصد اس ملک کو شدید سیاسی اور سماجی بحران سے روبرو کرنا تھا۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی اپنے شیطانی وسوسوں کے ذریعے ٹرمپ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ جنگ کی صورت میں ایران کا سیاسی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حملے کے وقت ٹرمپ نے کینیڈا میں جی 7 سربراہی اجلاس ادھورا چھوڑ کر جلد ہی واشنگٹن واپسی اختیار کی تھی۔ اسی دوران ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر یہ پیغام بھی دیا تھا کہ تہران خالی ہو گیا ہے اور ایرانیوں کو مخاطب قرار دے کر لکھا تھا: "غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دو۔" یہ پیغام تاریخ میں امریکہ کے ایران دشمن صدر کی شکست کے ثبوت کے طور پر محفوظ رہے گا۔ اگر ٹرمپ سیاست کی پیچیدگیوں سے ذرہ برابر آشنائی رکھتا تو وہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل کے روزانہ انٹرویوز کا مطالعہ کرتا۔
 
رافائل گروسی چونکہ ایک ماہر سفارتکار ہے لہذا اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں ابہام پر مبنی پالیسی اختیار کرنے نے مغرب کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ ایران کے پاس 60 فیصد افزودہ یورینیم کا 400 کلو کا ذخیرہ پایا جاتا تھا جس کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ امریکی حملے میں ختم ہوا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف خود امریکی ماہرین اور تھنک ٹینکس اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ایران نے جنگ کے دوران پہنچنے والے نقصان کا تیزی سے ازالہ کیا ہے اور اب وہ دن رات میزائل تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اسی طرح ایران نے چین اور روس کی مدد سے اپنا فضائی دفاعی نظام بھی پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقتور بنا ڈالا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس کے مطابق چین سے حاصل ہونے والے میزائل ڈیفنس سسٹم کی بدولت اس وقت ایران کا فضائی دفاعی نظام گذشتہ سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
  • قاتل کا اعتراف
  • چھ سال تک ایک ہی نمبر سے کھیلنے والی امریکی خاتون کی قسمت جاگ اٹھی، 1.5 لاکھ ڈالر کی لاٹری جیت لی
  • زہران ممدانی نے پاکستانی خاتون کو اپنی ٹیم کا سربراہ مقرر کر دیا
  • امریکی خفیہ اداروں کے ایشیائی نژاد شہری سے ظہران ممدانی کے بارے میں سوالات، شہریوں میں خوف و ہراس
  • نیو یارک اور لندن کے مسلم میئرز کو مذہب کی بنیاد پر تنقید کا سامنا
  • غزہ کا ’ننھا ظہران ممدانی‘، سوشل میڈیا پر چھا گیا، ویڈیو وائرل  
  • ٹرمپ قابل قبول نہیں!
  • ظہران ممدانی، قصہ گو سیاستدان