امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
ڈاکٹر سلیم خان
اسرائیل کو بجا طور پر امریکہ کی 51ویں ناجائز ریاست سمجھا جاتا ہے لیکن ایک خیال یہ بھی ہے ساری دنیا بشمول امریکہ یہودیوں کے سرمایہ دارانہ چنگل میں ہے ۔ امریکہ کی حد تک تو یہودی سرمایہ داروں کی بابت یہ عام خیال ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر پتاّ بھی نہیں ہلتا اور عصرِ حاضر میں انتخابات پیسے کا کھیل ہے اس لیے حکمراں نہ صرف ان کی مرضی سے منتخب ہوتے ہیں بلکہ انہیں کی تابعداری کرتے ہیں مگر ظہران ممدانی، آفتاب پوریوال اور غزالہ ہاشمی کی جیت نے وہ طلسم توڑ دیا۔ تل ابیب کے بعد نیویارک شہر میں رہنے والی سب سے بڑی یہودی آبادی کے پاس دولت کی افراط ہے ۔ میڈیا مٹھی میں ہیں۔ امریکی سیاستدانوں کے ساتھ خفیہ سازش کرنے میں وہ ماہر ہیں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ظہران ممدانی کو یہودی مخالف قرار دیتے ہیں ۔ آر ایس ایس نے سنا ہے امریکہ اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلی ہیں مگر یکے بعد دیگرے ہنود اور یہود کی حالیہ شکست نے ساری خوش فہمیاں دور کردیں ۔ امریکہ میں یہودی و ہندو سیاستدانوں کا اپنا کوئی تشخص نہیں ہے وہ تقریباً عیسائی بن گئے ہیں لیکن ظہران ، آفتاب اور غزالہ کا معاملہ منفرد و مختلف ہے ۔
کھیل کی دنیا میں مسلسل تین کامیابیوں کو ہیٹ ٹرک کہتے ہیں ۔ امریکہ کی سرزمین پر انتخابی کھیل میں یہ چمتکار ہوگیا ۔ نیویارک کے ظہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھوبی پچھاڑ دیا تو ان کے نائب جی ڈی وینس کو سوتیلے بھائی کو آفتاب پوریوال نے سنسناٹی میں چِت کیا ۔ ان دونوں کے علاوہ غزالہ ہاشمی نے ورجینیا کے اندر لیفٹننٹ گورنر کا انتخاب جیت کر پہلی مرتبہ کسی مسلم خاتون نے اس اہم عہدے پر فتح کا پرچم لہرا دیا۔ ٹرمپ کی مخالفت نے نیویارک کے انتخاب کو غیر معمولی مقبولیت عطا کردی مگر 909 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنسناٹی میں بھی اسی طرح کی کہانی دوہرائی گئی جہاں نائب صدر کے سوتیلے بھائی کو ڈیموکریٹ امیدوار اور ہندوستانی نژاد سکھ آفتاب پوریوال نے دھول چٹا دی ۔ موصوف نے سنسناٹی کے میئر کی حیثیت سے دوسری مرتبہ کامیابی درج کرائی لیکن اس بار ان کے مقابلے میں جے ڈی وانس کے سوتیلے بھائی کوری بوومن تھے ۔ ان کو کامیاب کرنے کی خاطر نائب صدر نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر کامیابی سے محروم رہے ۔ ایک بارسوخ امیدوارکوہرا کر پھر سے کامیاب ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر کے لوگ ان کارکردگی سے مطمئن اور خوش ہیں کیونکہ امریکہ ووٹ چرائے نہیں جاتے ۔
آفتاب پوریوال کی پیدائش اوہائیو میں تارک وطن والدین کے ہاں ہوئی۔ ان کے والد دیویندر سنگھ پوریوال ہندوستان کے پنجاب صوبے سے امریکہ منتقل ہوئے تھے جبکہ ان کی والدہ ڈرینکو تبت سے تعلق رکھنے والی مہاجر تھیں۔ انہوں نے اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور ایک اداکار کے طور پر آزاد فلم،”بلو کار” میں چھوٹا سا کردار بھی ادا کیا۔ اس کے بعد وائٹ اینڈ کیس کے وکیل کے طور پر یونیورسٹی آف سنسناٹی کالج آف لا سے جیورس ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اینٹی ٹرسٹ مقدمات پر کئی سال کام کیا۔آگے چل کر وہ امریکہ کے محکمہ انصاف میں بطور اسپیشل اسسٹنٹ یو ایس اٹارنی شامل ہوئے ۔انہوں نے مساوی معاشی ترقی، نیز عوامی حفاظت، سستی رہائش، اور ماحولیات میں جامع اصلاحات اور بہتری کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا اور2022ء میں سنسناٹی کے میئر کا انتخاب جیت کر پہلے ایشیائی نژاد امریکی کو میئر کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے 6 ماہ بعد آل پارٹی میونسپل پرائمری میں انہوں نے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے ایک تاریخ رقم کی ۔موصوف ایک وکیل اور سیاست دان ہیں جو جنوری 2022ء سے اس عہدے پر اپنی گراں قدرخدمات انجام دے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا ہائی پروفائل امیدواروں کے علاوہ ایک نسبتاً گمنام ریاستی قانون ساز غزالہ ہاشمی نے بھی ورجینیا میں لیفٹننٹ گورنر کا انتخاب جیت کر ایک بڑا کارنامہ انجام دے دیا ۔ حیدرآباد میں جنم لے کر امریکہ جانے والی غزالہ ہاشمی کا یہ سیاسی عروج نہایت تیز رفتار ہے ۔موصوفہ ورجینیا صوبے میں لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے پر فائز ہونے والی ریاست کی پہلی جنوبی ایشیائی اور امریکی مسلم خاتون ہیں ۔ انہوں نے ریپبلکن مصنف اور معروف قدامت پسند ریڈیو میزبان جان ریڈ کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ پوری مہم کے دوران انہیں سبقت حاصل رہی اگرچہ آخری مرحلے میں فرق کچھ کم ہو گیا تھا۔ غزالہ ہاشمی کا 7 لاکھ47 ہزار773 یعنی 53.
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
ظہران ممدانی کی جیت اس لیے اہم ہے کہ اکریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود ایک میئر کو ہرانے کی خاطر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر پڑے ۔ اس کے بعد جب عوام کی مدد سے ظہران نے انہیں ناک آوٹ کردیا تب بھی انہوں نے کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم کرکے انہیں مبارکباد نہیں دی بلکہ اکڑ کر بولے نیویارک اب آزاد نہیں رہا۔ سچ تو یہ ہے ظہران نے نیویارک کو ٹرمپ جیسے مغرور سرمایہ دار کے چنگل سے آزاد کروادیا۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کردیا کہ یہودی سرمایہ اور سازش انتخاب جیتنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ ٹرمپ کا اقتدار اور میڈیا کا اشتہار بھی عوام کی سونامی کو روک نہیں سکتا ۔ یہ پیغام ٹرمپ اور ان جیسے یاہو یا مودی کے لیے بھی ایک تازیانۂ عبرت ہے کہ اب ان کی چوری چکاری کے دن پورے ہوگئے ہیں اور بہت جلد پاپ کا گھڑا بیچ چوراہے پر پھوٹنے والا ہے ۔ظہران ممدانی کی فتح کے بعدٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم سوشلسٹ کے بجائے ایک کمیونسٹ کو میئر بنادیا ۔ سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری ہار گئی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سوشلسٹ جیتین یا کمیونسٹ کامیاب ہوں ؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممدانی کی فتح کو’کمیونزم کی جیت’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے سامنے اب دو راستے ہیں۔ کمیونزم یا کامن سنس۔ ٹرمپ کو چاہیے تھا کہ وہ کمیونزم کے مقابلے متبادل کے طور پر سرمایہ داری کا نام لیتے لیکن ایسا کرنے میں خود ان کو شرم آتی ہے اس لیے کامن سینس کی آڑ میں چھپنے کی سعی کرڈالی ۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی صدر کا کامن سینس سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اس حقیقت پر عالمی اتفاق رائے ہے اگر آج خبط الحواس لوگوں کا کوئی عالمی مسابقہ منعقد ہوتو دنیا کا کوئی بڑا بڑا سے رہنما ان کے قریب نہیں پھٹک سکتا ۔ مودی اور یاہو بھی ان کے آگے پانی بھرتے ہیں اس لیے وہ انہیں بڑی آسانی سے ہرا دیں گے ۔ ظہران ممدانی نے کامیابی کے بعد اپنے فاتحانہ خطاب میں کہا کہ :”جب میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں تو مجھے جواہر لال نہرو کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں، تاریخ میں کبھی کبھار ایسا لمحہ آتا ہے جب ہم قدیم سے نکل کر جدید کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، جب ایک دور ختم ہوتا ہے اور جب ایک طویل عرصے تک دبائی گئی قوم کی روح اپنی آواز پاتی ہے ”۔
پنڈت نہرو نے ہندوستان کی آزادی کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے 1947ئکے تاریخی خطاب میں جو کہا تھا اس کا انطباق کرتے ہوئے وہ بولے :”آج رات ہم قدیم (زمانے ) سے نکل کر جدید(دور) میں داخل ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اب ہمیں واضح اور پُرعزم انداز میں بولنا ہوگا کہ یہ نیا زمانہ کس کیلئے کیا لائے گا؟ اس دور میں نیویارک کے لوگ اپنے رہنماوں سے حیلہ بہانہ و اندیشے چھوڑ کر بہادری کے ساتھ مستقبل کاخواب دیکھنے کی توقع کریں گے ”۔ اپنے خوابوں کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ بولے :”اس خواب کے مرکز میں مہنگائی اور روزمرہ زندگی کے اخراجات کے بحران سے نمٹنے کا ایک انتہائی جامع اور بلند عزم ایجنڈا ہوگا”۔ ممدانی نے اپنی تقریر میں دیسی تڑکا لگاتے ہوئے اس کا اختتام2004ء کی ہندی فلم ”دھوم ”کے مشہور گانے ”دھوم مچالے ” پرکیا ۔ ظہران ممدانی کے خوابوں نے ٹرمپ اور مودی جیسے لوگوں کی تو نیند اڑادی ہے مگر یہ مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے امیدوں کے روشن چراغ ہیں۔ ساحر نے یہی کہا تھا
آو کے کوئی خواب بنیں کل کے واسطے ،
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل ،
تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کا انتخاب جیت کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزالہ ہاشمی مسلم خاتون انہوں نے کہا تھا اس لیے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
امریکہ، انتخابات میں مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب
اسلام ٹائمز: کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نهاد عوض کے مطابق غزہ جنگ اور اس کے دوران منظرِ عام پر آنے والی قتل و محاصرے کی تصاویر جو امریکہ کی براہِ راست اسرائیلی حمایت سے منسلک تھیں، انہوں نے امریکی مسلم رائے عامہ کو سیاسی سطح پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق بہت سے مسلمانوں نے صرف فلسطین کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ واشنگٹن کی پالیسی ترجیحات کے خلاف احتجاج کے طور پر سیاست میں قدم رکھا، جہاں امریکی مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسامہ ابو ارشید کا خیال ہے کہ مقامی اور ریاستی سطح پر یہ کامیابیاں مستقبل میں کانگریس اور وفاقی مناصب تک رسائی کے لیے ایک کلیدی قدم ثابت ہوں گی۔ خصوصی رپورٹ:
چند دہائیاں پہلے تک امریکہ کی سیاست میں مسلمانوں کی موجودگی محض علامتی سمجھی جاتی تھی، لیکن حالیہ انتخابات نے ثابت کیا کہ ایک نئی نسل کے مسلم سیاست دان اب ایسی طاقت بن کر ابھرے ہیں جو منظم سیاسی سرگرمی، عوامی اعتماد، اور عالمی حالات، خصوصاً غزہ جنگ کے ردِعمل کی بنیاد پر عدم نمائندگی کی دیواروں کو توڑ کر اثرورسوخ کے حقیقی مناصب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
ایک تاریخی موڑ
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکہ کے حالیہ انتخابات میں متعدد مسلم امیدواروں کی کامیابی، ملک کی سیاسی و سماجی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق امریکی سیاسی ڈھانچے میں مسلمانوں کی موجودگی اب اس سطح تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ نہ صرف داخلی پالیسی سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں بلکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعتیں اپنے اندرونی اختلافات اور بڑھتی ہوئی تقسیم کا سامنا کر رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں اور مبصرین نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ یہ کامیابیاں اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی مسلمان سیاست کے حاشیے سے نکل کر مرکزی دھارے میں داخل ہو چکے ہیں۔ اب ان کی شرکت محض علامتی نہیں بلکہ طاقت اور نمائندگی کی حقیقی صورت اختیار کر چکی ہے۔ یہ پیش رفت مسلمانوں کے لیے فعال شہری حیثیت کو مضبوط کرتی ہے اور انہیں ایسے سیاسی و سماجی اوزار فراہم کرتی ہے جن سے وہ اپنے حقوق کا دفاع اور نئے نظریات و زاویے پیش کر سکیں۔ الجزیرہ نے لکھا کہ مسلم امیدواروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ان کی کامیابیوں کا سب سے اہم سبب رہا۔
اس اضافے نے انتخابی کامیابی کے امکانات کو بڑھایا، بالخصوص ایسے ماحول میں جہاں اسلامی تنظیموں نے منظم حمایت اور وسائل مہیا کیے۔ یہ تمام عوامل مل کر امریکی مسلم برادری کے لیے وفاقی سطح پر مزید کامیابیوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں، اگرچہ انہیں اب بھی کئی چیلنجز اور بعض اوقات مخالفتوں کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، یہ پیش رفت گزشتہ ہفتے کے انتخابات کے دوران سامنے آئی جب امریکہ کی مختلف ریاستوں سے 76 مسلمان امیدوار میدان میں اترے اور 38 امیدوار کامیاب ہو کر میئر، ریاستی اسمبلیوں کے اراکین اور ڈپٹی گورنر جیسے مناصب تک پہنچے۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے مطابق یہ نتائج تاریخی ریکارڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کامیابیوں میں سب سے نمایاں واقعہ زهران ممدانی کا نیویارک کے میئر کے طور پر انتخاب ہے، یہ اس شہر کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کوئی مسلمان اس منصب تک پہنچا ہے۔ نیویارک خصوصاً معیشت اور میڈیا کے میدان میں امریکہ کا سب سے بڑا اور اثر انگیز شہر ہے۔ اسی طرح غزاله ہاشمی ریاست ورجینیا کی ڈپٹی گورنر منتخب ہوئیں۔ کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے ان نتائج کو ایک بے مثال ریکارڈ اور امریکی مسلم برادری کے عروج کی علامت قرار دیا۔
اسباب اور پس منظر:
الجزیرہ کے مطابق امریکہ میں مسلمانوں کی انتخابی کامیابیوں میں نمایاں اضافہ ایک ایسے سیاسی، تنظیمی اور سماجی عوامل کے مجموعے کا نتیجہ ہے جنہوں نے امریکی سیاسی نظام میں ان کی بے مثال موجودگی کے لیے زمین ہموار کی۔ یہ عوامل ایک جانب امریکہ میں مسلم برادریوں کی منظم و منصوبہ بند سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ہیں، اور دوسری جانب ان کا تعلق امریکی معاشرے کی اندرونی تبدیلیوں اور ریپبلکن و ڈیموکریٹ جماعتوں کے اندر بڑھتی ہوئی خلیج سے ہے۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نهاد عوض نے اس پیش رفت کو مسلم برادری کے اندر ایک مؤثر ادارہ جاتی ڈھانچے کے قیام کا نتیجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق یہ ڈھانچہ مالیاتی کمیٹیوں، سیاسی لابیز، تربیتی و بااختیاری اداروں پر مشتمل ہے جو اب محض اخلاقی حمایت تک محدود نہیں رہے، بلکہ مسلم امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے پیشہ ورانہ وسائل فراہم کرتے ہیں، جن میں اسٹریٹجک منصوبہ بندی، مالی وسائل کا انتظام، اور میڈیا میسجنگ شامل ہے۔ یہ پیغامات مذہبی و شناختی موضوعات کے ساتھ ساتھ امریکی ووٹر کے حقیقی مسائل جیسے روزگار، صحت اور تعلیم پر بھی مرکوز ہوتے ہیں۔
عوض کے بقول غزہ جنگ اور اس کے دوران منظرِ عام پر آنے والی قتل و محاصرے کی تصاویر جو امریکہ کی براہِ راست اسرائیلی حمایت سے منسلک تھیں، انہوں نے امریکی مسلم رائے عامہ کو سیاسی سطح پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق بہت سے مسلمانوں نے صرف فلسطین کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ واشنگٹن کی پالیسی ترجیحات کے خلاف احتجاج کے طور پر سیاست میں قدم رکھا، جہاں امریکی مفادات کے بجائے اسرائیلی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اسامہ ابو ارشید کا خیال ہے کہ یہ پیش رفت دراصل امریکی شناخت کے مستقبل پر جاری بڑے مکالمے کا حصہ ہے۔
ان کے مطابق آیا دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ ایک کثیرالثقافتی اور مساوات پر مبنی معاشرہ بنے گا یا ایک بند، نسل پرستانہ معاشرہ کی سمت بڑھے گا، دباؤ، امتیازی قوانین اور منفی میڈیا مہمات کے باوجود اس مکالمے میں مسلمانوں کی شمولیت ان کی مطابقت پذیری اور اثراندازی کا ثبوت ہے، یہ احساس صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رہا بلکہ امریکی نوجوانوں، ترقی پسند ڈیموکریٹس اور بعض ریپبلکن شخصیات نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا ہے اور فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ امریکی امور کے ماہر محمد علاء غانم کے مطابق مقامی اور ریاستی سطح پر یہ کامیابیاں مستقبل میں کانگریس اور وفاقی مناصب تک رسائی کے لیے ایک کلیدی قدم ثابت ہوں گی۔