Islam Times:
2025-11-10@18:14:56 GMT

قاتل کا اعتراف

اشاعت کی تاریخ: 10th, November 2025 GMT

قاتل کا اعتراف

اسلام ٹائمز: ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔ تحریر: علی رضا حقیقت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر حملے کا اعتراف ایک بار پھر ایران کی سرزمین پر غیرقانونی جارحیت میں امریکہ کا کردار واضح کر دیتا ہے۔ ٹرمپ نے یہ اعتراف میڈیا کیمروں کے سامنے کسی پردہ پوشی کے بغیر کیا ہے اور اب مزید کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ امریکی صدر نے چند دن پہلے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 13 جون کے دن ایران پر انجام پانے والے اسرائیلی حملے میں امریکہ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ یہ بات اس نے ایسے وقت کہی جب وائٹ ہاوس میں وسطی ایشیائی ممالک کے سربراہان اس کے دیے گئے عشائیے میں موجود تھے۔ ٹرمپ نے اسی طرح یہ دعوی بھی کیا کہ ایران نے امریکہ کی شدید پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ اس موضوع پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے اوول آفس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا: "جب اسرائیل ایران پر حملہ کر رہا تھا تو اس کا مکمل کنٹرول میرے ہاتھ میں تھا۔" ٹرمپ نے ایران پر اسرائیل کے حملے کو "انتہائی طاقتور" قرار دیا اور دعوی کیا کہ پہلے حملے میں پہنچنے والا نقصان بعد والے حملوں کی نسبت سب سے زیادہ تھا۔ امریکی صدر نے مزید دعوے کرتے ہوئے کہا: "سچی بات کروں، ایران نے پابندیاں ختم کرنے کی درخواست کی ہے۔ ایران امریکہ کی جانب سے شدید پابندیوں سے روبرو ہے جن کے باعث اسے بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔" ٹرمپ نے مزید کہا: "میں دوبارہ اس موضوع پر گفت و شنود کے لیے تیار ہوں اور دیکھوں گا کہ کیا کر سکتا ہوں۔ گفتگو کا دروازہ کھلا ہے۔" اس کا یہ موقف کچھ عرصہ قبل ایران پر اسرائیل کی فوجی جارحیت سے متعلق موقف سے مختلف ہے۔
 
ایران پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز سے اگلے ہی دن ڈونلڈ ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے دوران اس میں امریکہ کے کردار کی نفی کی تھی اور کہا تھا کہ اسے بس اس حملے کا پتہ تھا۔ ابھی امریکی صدر نے جس حقیقت کا اعتراف کیا ہے وہ کسی کے لیے نئی بات نہیں ہے لیکن سرکاری سطح پر اس حملے میں پوری طرح ملوث ہونے کا اعلان دراصل ٹرمپ کے اناڑی پن کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی گذشتہ مدت صدارت میں بھی اور ابھی صدر بننے کے بعد بھی ایران سے متعلق ایسے بہت سے موقف اپنائے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عالمی سیاست کی پیچیدگیوں سے ناواقف ہے۔ شاید ٹرمپ یہ سمجھتا ہے کہ ایک خودمختار ملک پر غیرقانونی حملے کی ذمہ داری قبول کر کے وہ طاقت کا اظہار کر رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ایک واضح اعتراف جرم ہے اور دنیا کی نظر میں یہ اقدام تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے۔
 
البتہ ٹرمپ اب تک بارہا اعلانیہ طور پر اس بات کا اظہار کر چکا ہے کہ اسے بین الاقوامی قوانین کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ دوسری طرف جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہ حقیقت مزید کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ 13 جون کی فوجی جارحیت کا نتیجہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے سوائے شکست اور ناکامی کے کچھ ظاہر نہیں ہوا۔ ٹرمپ کا دعوی ہے کہ اس جنگ میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہیں اور اس کی میزائل طاقت کو بھی شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ لیکن اب تقریباً 5 ماہ گزر جانے کے بعد بہت سے حقائق منظرعام پر آ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے سوا کوئی بھی اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ حتی غاصب صیہونی رژیم کا وزیراعظم بھی بارہا اس تشویش کا اظہار کر چکا ہے کہ ایران اب بھی جوہری طاقت ہے اور ایٹم بم بنانے کی صلاحیت محض چند ماہ موخر ہو گئی ہے۔
 
مزید برآں، ایران پر اسرائیلی امریکی جارحیت کا دوسرا مقصد اس ملک کو شدید سیاسی اور سماجی بحران سے روبرو کرنا تھا۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی اپنے شیطانی وسوسوں کے ذریعے ٹرمپ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ جنگ کی صورت میں ایران کا سیاسی نظام مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حملے کے وقت ٹرمپ نے کینیڈا میں جی 7 سربراہی اجلاس ادھورا چھوڑ کر جلد ہی واشنگٹن واپسی اختیار کی تھی۔ اسی دوران ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر یہ پیغام بھی دیا تھا کہ تہران خالی ہو گیا ہے اور ایرانیوں کو مخاطب قرار دے کر لکھا تھا: "غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دو۔" یہ پیغام تاریخ میں امریکہ کے ایران دشمن صدر کی شکست کے ثبوت کے طور پر محفوظ رہے گا۔ اگر ٹرمپ سیاست کی پیچیدگیوں سے ذرہ برابر آشنائی رکھتا تو وہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل کے روزانہ انٹرویوز کا مطالعہ کرتا۔
 
رافائل گروسی چونکہ ایک ماہر سفارتکار ہے لہذا اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام کے بارے میں ابہام پر مبنی پالیسی اختیار کرنے نے مغرب کو کس مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ ایران کے پاس 60 فیصد افزودہ یورینیم کا 400 کلو کا ذخیرہ پایا جاتا تھا جس کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں کہ وہ امریکی حملے میں ختم ہوا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف خود امریکی ماہرین اور تھنک ٹینکس اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ایران نے جنگ کے دوران پہنچنے والے نقصان کا تیزی سے ازالہ کیا ہے اور اب وہ دن رات میزائل تیار کرنے میں مصروف ہے۔ اسی طرح ایران نے چین اور روس کی مدد سے اپنا فضائی دفاعی نظام بھی پہلے سے کئی گنا زیادہ طاقتور بنا ڈالا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس کے مطابق چین سے حاصل ہونے والے میزائل ڈیفنس سسٹم کی بدولت اس وقت ایران کا فضائی دفاعی نظام گذشتہ سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران پر اسرائیل امریکی صدر نے بین الاقوامی کا اظہار کر میں امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتراف امریکہ کے کہ ایران ایران نے حملے میں نہیں ہے اس حملے ہے لیکن اور اب میں یہ کیا ہے کے لیے ہے اور چکا ہے

پڑھیں:

ڈپریشن ایک خاموش قاتل

ڈپریشن ایک خاموش قاتل، حضرت انسان نے بلاشبہ اپنی محنت و لگن سے ترقی کے کئی ناقابل یقین سنگ میل عبورکر لیے ہیں۔ روبوٹ بنانے سے لے کر چاند پر قدم رکھنے تک کے سارے مراحل طے ہو چکے ہیں۔ مگر بقول شاعر مشرق علامہ اقبال۔

 ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

اپنے افکارکی دنیا میں سفرکر نہ سکا

 بنی نوع انسان نے دنیاوی سہولیات اور جسمانی آسائشات کا تو ڈھیر لگا دیا لیکن اس کی ذہنی اور روحانی تشنگی آج اپنی انتہا پر ہے، اسی محرومی نے ڈپریشن نامی عفریت کو جنم دیا، جو آج کل اتنا عام ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر دوسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ 

جدید تحقیقات کے مطابق ڈپریشن دو طرح کا ہوتا ہے، ایک وہ جو دماغی خلیوں میں کچھ کیمیائی مادوں کی بے ترتیبی کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کو صرف اور صرف دواؤں سے ہی اورکچھ بدترین کیسز میں بجلی کے جھٹکوں سے ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے جب کہ دوسری قسم وہ ہے جس کو ہم مایوسی کی انتہا کہہ سکتے ہیں اور اس میں انسان کے حالات، صحبت اور دیگر عوامل بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔

نوے کی دہائی تک ہمارے معاشرے میں نفسا نفسی اور آسائشات کی دوڑ میں اندھا دھند بھاگنے کا رواج نہیں تھا۔ زندگی نسبتا سادہ تھی، چیزوں سے زیادہ انسانوں کی اہمیت تھی اور امن و سکون بھی تھا مگر اکیسویں صدی کی آمد گویا ایک طوفان بلاخیز تھی جس نے انسانی زندگیوں کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔

ایک کے بعد ایک ایجادکردہ سہولت اور ان کو حاصل کرنے کے لیے پیسہ حاصل کرنے کی ایک دوڑ شروع ہوگئی جو فی زمانہ اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ گھرگھر موبائل فون اور پھر سوشل میڈیا پہنچا توگویا کوئی طلسم کدہ ہی کھل گیا، جہاں سب کچھ بہت مہنگا، خوبصورت مگر مکمل ہے۔

رہی سہی کسر بلاگرز نے پوری کی ہے جو اپنے نت نئے ملبوسات، مہنگے گھر، غیر ملکی دورے اور بہت آئیڈیل فیملی دکھا کر دوسروں کو محرومی اور احساس کمتری میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ناظرکو یہی لگتا ہے کہ بس اس کے پاس ہی کچھ نہیں ہے، باقی سب تو بہت خوش اور مطمئن ہیں۔

دوسروں کی نعمت کو دیکھ کر خود کو محروم سمجھنا کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر پہلے یہ ہوتا تھا کہ وہ چیزکچھ وقت آنکھوں کے سامنے رہی اور پھر ہٹ گئی تو انسان اس کیفیت سے جلد باہرآجاتا تھا مگر اب تو 24 گھنٹے موبائل فون ہاتھ میں ہے اورکچھ کو اپنی زندگیاں، نعمتیں اور انتہائی ذاتی پہلو تک دکھانے کا بہت شوق ہے اورکچھ کو ان سب کو دیکھنے کا اور یہ جانے بغیرکہ اس میں سچ کتنا ہے اور جھوٹ کتنا شامل ہے خود کو ڈپریشن کا مریض بنا لینے کا شوق ہے۔

ڈپریشن کی دوسری وجہ تنہائی ہے، ہم بچپن سے پڑھتے سنتے آئے ہیں کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے وہ تنہا نہیں رہ سکتا۔ اللہ نے انسان کو جوڑے کی شکل میں پیدا کیا اور پھر مزید رشتوں نے جنم لیا، ان رشتوں کا مقصد انسانی نسل کو بڑھانا بھی تھا اور ساتھ ساتھ اسے ذہنی، جسمانی، مالی تحفظ اور سہارا دینا بھی تھا، دن بھرکا تھکا ہارا انسان جب گھر پہنچتا تھا تو بھرا پرا گھر اس کی ساری تھکن ختم کردیتا تھا۔

گھر میں موجود افراد کے علاوہ محلے دار پھر رشتے دار دوست احباب سے ملنا جلنا، گویا ایک کتھارسس تھا مگر پھر وقت بدلا پہلے مشترکہ خاندانی نظام پرائیویسی کے نام پر ٹوٹا، پھر محلے داروں سے بھی تعلقات ختم ہوئے۔ رشتے داروں سے بھی شادی یا فوتگی پر ملاقات ہونے لگی اور اپنے خول میں بند انسان ریشم کا وہ کیڑا بن گیا، جو اپنی ہی پیدا کردہ ریشم میں لپٹ کر دم توڑ دیتا ہے۔

سہولیات اور آسائشات کی دوڑ میں بھاگتے ہانپتے انسان کو اب یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ رہنے والے شریک حیات، اولاد، ماں باپ یا بہن بھائی پرکیا گزر رہی ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ سننے کے لیے وقت ہی نہیں اور جو ہے بھی، وہ بھی موبائل فون کی نذر ہو جاتا ہے، ایسے میں اپنے اندرونی خلفشار اور درد سے لڑتے کب انسان ڈپریشن اور پھر موت کا شکار ہوتا ہے۔

یہ اس وقت پتہ چلتا ہے جب کوئی اپنے آفس پہنچ کر خود کشی کا پیغام بھیج کر خود کو ہلاک کر لیتا ہے یا کوئی کسی تنہا فلیٹ میں دم توڑ دیتا ہے۔ ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ بے مقصد زندگی بھی ہے، جب انسان کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا یا وہ خود بھی کچھ نہیں کرنا چاہتا، تو جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے، تو اس کے دماغ میں منفی سوچیں جنم لیتی ہیں۔

انسان کو لگتا ہے نہ اس کے پاس جینے کا کوئی مقصد ہے نہ وہ کسی کی ضرورت ہے وہ کچھ کرنا بھی چاہتا ہے تو پہلے ہی ذہن منفی خیالات کی آماجگاہ ہونے کے باعث بے دلی سے ہی کرتا ہے اور جیسا کہ اب تو تحقیق سے بھی ثابت ہے کہ جیسے کہ آپ کی سوچ ہوگی، ویسا ہی نتیجہ نکلے گا تو پھر ایسا انسان زیادہ تر ناکامی کا ہی منہ دیکھتا ہے۔

یہ ناکامی اس کو مزید ڈپریشن میں لے جانے کا سبب بنتی ہے، ڈپریشن کی جو بھی وجہ یا وجوہات ہوں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس کا سدباب کیا جائے اور اس میں سب سے زیادہ بہترین حل یہ ہے کہ دین کی سمجھ حاصل کی جائے جب انسان دین کی روح تک پہنچتا ہے تو اس کو نہ صرف دنیا میں جینے کا اصل طریقہ اور مقصد سمجھ آتا ہے بلکہ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری بھی اس پر عیاں ہوتی ہے جب اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کا رب اس کے لیے بہتر فیصلہ کرتا ہے اور اس کے معاملات سنبھال لے گا تو وہ ہر حال میں پرسکون رہتا ہے۔

اس کے علاوہ ایسے لوگوں کی صحبت اپنانا بھی بہت ضروری ہے، جو منفی سوچ کے حامل نہ ہو جن سے آپ دل کی کوئی بھی بات کریں تو وہ آپ کو جج کیے بغیر مثبت اور بہترین مشورہ دے سکیں۔

مثبت سوچ اور مثبت صحبت یقینا ڈپریشن کوکم کرنے میں بہت زیادہ مددگار ہے، اگر ہم ایک صحت مند اور متوازن معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں ڈپریشن کی اس بیماری کو قابوکرنا ہوگا، جو بہت تیزی سے ہماری نسل نو کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران آئندہ جنگ میں بیک وقت 2 ہزار میزائل فائر کریگا، امریکی میڈیا کا انتباہ
  • غزہ پر حملے کی قانونی حیثیت کیا ہے، اسرائیلی فوج کے وکلا سر پکڑ کے بیٹھ گئے
  • ٹرمپ نے جنوبی افریقہ میں ہونیوالے جی 20 اجلاس کا بائیکاٹ کردیا
  • امریکی سینیٹ نے حکومتی بندش ختم کرنے کے بل کو مسترد کر دیا
  • جنوبی افریقا میں جی 20اجلاس منعقد ہونا افسوسناک ہے‘ٹرمپ
  • ڈپریشن ایک خاموش قاتل
  • امریکی ایٹمی دھمکیوں اور بڑھکوں پر چین کا سخت ردِعمل
  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے ایٹمی مرکز پر حملے کا خفیہ منصوبہ کیا تھا؟ سابق سی آئی اے افسر کا انکشاف