سوڈان اور گریٹر اسرائیل کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: سوڈان کے بارے میں ایک اور بات یہ ہے کہ حال ہی میں شائع ہونیوالی لبنانی "الاحد" رپورٹ میں دارفور میں ریپڈ ری ایکشن فورسز کے تشدد کا غزہ میں اسرائیلی نسل پرست فوج کے رویئے سے موازنہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سوڈان میں پیشرفت ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جسے "گریٹر اسرائیل پروجیکٹ" کہا جاتا ہے۔ مصنف کے مطابق، سوڈانی ملیشیا کے کمانڈروں اور لیبیا کے حفتر اور امارات جیسے علاقائی کھلاڑیوں کے درمیان رابطے، صہیونی حکام کے ساتھ انکی ملاقاتیں اور اسکے ساتھ ساتھ بالواسطہ امریکی حمایت، یہ سب سوڈان کی مرکزی اتھارٹی کو کمزور کرنے اور اسے تقسیم کرنے کی گہری سازش ہے۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
اقوام متحدہ میں خواتین کے ادارے نے اعلان کیا ہے کہ سوڈانی شہر الفاشر پر ریپڈ ری ایکشن فورسز کے قبضے کے بعد وہاں سے فرار ہونے والی خواتین نے شہر میں منظم طریقے سے قتل، عصمت دری اور اپنے بچوں کی گمشدگی کی اطلاع دی ہے۔ تنظیم نے سوڈان میں خواتین کی تباہ کن صورتحال کے بارے میں بھی ہولناک خبر دی ہے۔ اسی دوران دارفور کے گورنر نے اعلان کیا کہ ریپڈ ایکشن فورسز میں 85 فیصد غیر ملکی ہیں۔ افریقی براعظم کے قلب میں، جہاں صحارا کی خشک ہوائیں خاموش لوگوں کے درد کی چیخوں میں گھل مل جاتی ہیں، سوڈان ایک ایسی انسانی تباہی کا منظر بن پیش کر رہا ہے، جس نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ اقوام متحدہ، مقامی حکام اور دیگر سرکاری رپورٹس کے مطابق ملک میں جاری بحران نہ صرف جغرافیائی سرحدوں کو عبور کرچکا ہے بلکہ اس نے پیچیدہ جہتوں کا بھی انکشاف کیا ہے۔ منظم تشدد، غیر ملکی مداخلت اور عام شہریوں کی لامتناہی تکالیف، اگرچہ اس صورت حال کی جڑیں داخلی تنازعات میں پیوست ہیں، لیکن غیر ملکی عناصر کی مداخلت سے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں اور اب یہ مسئلہ بین الاقوامی المیہ بن چکا ہے، جس پر عالمی برادری کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
عورتیں اور مظلوم بچے
سوڈان میں انسانی المیہ بدستور جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے شعبہ خواتین نے منگل کے روز اعلان کیا کہ سوڈانی شہر الفاشر سے فرار ہونے والی خواتین نے شہر پر ریپڈ ایکشن فورسز کے قبضے کے بعد منظم طریقے سے قتل، عصمت دری اور اپنے بچوں کی گمشدگیوں کی گواہی دی ہے۔ ISNA کے مطابق، عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ریپڈ ایکشن فورسز کی طرف سے الفاشر پر قبضے کے بعد گولیوں اور ڈرون حملوں کے ذریعے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ "الفاشر سے فرار ہونے والی خواتین نے اپنے بچوں کے قتل، عصمت دری اور گمشدگیوں کا مشاہدہ کیا ہے، ایسے سانحات جن کا تجربہ کسی بھی انسان کو نہیں ہونا چاہیئے،" مشرقی اور جنوبی افریقہ کے لیے اقوام متحدہ کی خواتین کی علاقائی ڈائریکٹر نے کہا کہ جنسی تشدد بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے بہت زیادہ ثبوت ہیں کہ عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔
شدید قحط کا سامنا کرنے والے دارفور میں تقریباً 11 ملین خواتین اور لڑکیاں شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے خواتین کے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ خواتین کو خوراک کی تلاش کے دوران عصمت دری اور جنسی تشدد کا بھی خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 26 اکتوبر سے تقریباً 82,000 افراد الفاشر اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے نقل مکانی کرچکے ہیں، جبکہ تقریباً 200,000 شہر کے اندر پھنسے ہوئے ہیں، جو کہ شہر کے مکمل سقوط سے پہلے 18 ماہ تک محاصرے میں تھے۔ اقوام متحدہ کی مشرقی اور جنوبی افریقہ کی خواتین کی علاقائی ڈائریکٹر انا مطافاتی نے جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا ہے کہ بین الاقوامی برادری کارروائی میں ایک دن بھی تاخیر کرتی ہے، تو عورتیں بمباری میں بچوں کو جنم دیں گی، بچے بھوک سے مریں گے، یا عورت انصاف تک رسائی کے بغیر غائب کر دی جائے گی۔"
سوڈان کی خانہ جنگی میں غیر سوڈانی کرائے کے فوجی!
دارفور کے گورنر آرکو مناوی نے المیادین کا بتایا ہے کہ "جسے ریپڈ ری ایکشن فورسز کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں 85 فیصد سے زیادہ غیر ملکی عناصر ہیں۔ جو ظلم و جور کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افواج کا تعلق پڑوسی ممالک سے ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے، جس کا شاید بہت سے لوگوں کو علم نہ ہو،" موجودہ سکیورٹی بحران کی بنیادی وجہ غیر ملکی جنگجو ملیشیا پر انحصار ہے۔ اس سے ملک کے مستقبل اور اتحاد کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ دارفور کے گورنر کا یہ تبصرہ ریپڈ ری ایکشن فورسز کی صفوں میں چاڈ، نائجر اور وسطی افریقی جمہوریہ سے کرائے کے فوجیوں کی شمولیت کی بڑھتی ہوئی اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کی پچھلی رپورٹس سے بھی ہوتی ہے، جن میں سوڈان کی مغربی سرحدوں پر ریپڈ ایکشن فورسز کی جانب سے جاری دراندازیوں کی تفصیل دی گئی تھی۔ اس دراندازی کی حمایت چند علاقائی ممالک نے کی تھی۔ یقیناً یہ بات بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ کولمبیا کی ملیشیا بھی اس جرم میں ملوث ہے۔ یہ کرائے کے فوجی، جو پیسوں کے لیے اس جنگ میں داخل ہوئے، سوڈان کو ریپڈ ری ایکشن فورسز کی طرف سے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس ملٹی نیشنل گروپ کا سپانسر متحدہ عرب امارت ہے، جو ان وحشیوں کی مدد کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔
سوڈان "گریٹر اسرائیل" منصوبے کا نیا شکار
سوڈان کے بارے میں ایک اور بات یہ ہے کہ حال ہی میں شائع ہونے والی لبنانی "الاحد" رپورٹ میں دارفور میں ریپڈ ری ایکشن فورسز کے تشدد کا غزہ میں اسرائیلی نسل پرست فوج کے رویئے سے موازنہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سوڈان میں پیش رفت ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے، جسے "گریٹر اسرائیل پروجیکٹ" کہا جاتا ہے۔ مصنف کے مطابق، سوڈانی ملیشیا کے کمانڈروں اور لیبیا کے حفتر اور امارات جیسے علاقائی کھلاڑیوں کے درمیان رابطے، صہیونی حکام کے ساتھ ان کی ملاقاتیں اور اسکے ساتھ ساتھ بالواسطہ امریکی حمایت، یہ سب سوڈان کی مرکزی اتھارٹی کو کمزور کرنے اور اسے تقسیم کرنے کی گہری سازش ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریپڈ ایکشن فورسز ایکشن فورسز کی گریٹر اسرائیل عصمت دری اور اقوام متحدہ سوڈان میں ہونے والی خواتین نے غیر ملکی سوڈان کی کہ سوڈان کے مطابق میں ایک کے ساتھ کے بعد کیا ہے اور اس
پڑھیں:
میں نے ہار نہیں مانی
محترمہ شین فرخ گنتی کی ان چند خواتین میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی مرضی سے شعبہ صحافت کا انتخاب کیا۔ صحافت کے تمام اتار چڑھاؤ برداشت کیے مگر زندگی کی آخر رمق تک صحافت سے منسلک رہیں۔ ش، فرخ ایک صحافی کے علاوہ ایک ترقی پسند ادیبہ بھی تھیں۔ ش فرخ پنجاب میں پیدا ہوئیں۔
انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے جغرافیہ کے مضمون میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ شین نے پہلے شعبہ تدریس کو اختیار کیا۔ انھیں ساہیوال کے گرلز کالج میں لیکچرار کی ملازمت مل گئی۔ شین فرخ کا تعلق اگرچہ ایک قدامت پرست خاندان سے تھا مگر ان کے والد ایک روشن خیال انسان تھے۔ وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتی تھیں ، یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اس ملازمت کو خیر آباد کہا اور کراچی چلی آئیں۔
کامرس کے شعبہ میں کمرشل جغرافیہ کے مضمون کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی، یوں انھیں کراچی کے اسلامیہ کالج میں ملازمت مل گئی، مگر وہ جلد ہی اس کام سے اکتا گئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب روزنامہ مشرق کے بانی عنایت اللہ خواتین کا پہلا اخبار ’’ اخبارِ خواتین‘‘ شایع کر رہے تھے۔ اخبارِ خواتین کی پہلی ٹیم میں معروف صحافی فرہاد زیدی، مسرت جبیں اور حسن عابدی بھی شامل تھے۔ فرہاد زیدی اور مسرت جبیں کے کچھ عرصہ بعد عنایت اللہ سے اختلافات پیدا ہوئے اور پھر ترقی پسند ادیب و دانشور حسن عابدی اخبار کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ حسن عابدی کی زندگی کا بیشتر حصہ بائیں بازو کے معروف دانشور ادیب سید سبط حسن اور عظیم شاعر فیض احمد فیض کی صحبت میں گزرا تھا، یوں حسن عابدی نے اخبار خواتین کو صرف خواتین کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اخبار خواتین میں حالاتِ حاضرہ، تاریخ، سماجیات، فلم اور فن کے بارے میں خبریں، آرٹیکلز اور کالمز شایع ہوتے تھے۔
شین فرخ نے بھی اخبار خواتین میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس وقت شمیم اختر، معروف ایکٹیوسٹ انیس ہارون ، زاہدہ حنا، راشدہ حسن اور نوشابہ زبیری بھی اس ٹیم کا حصہ تھیں۔ شین فرخ ترقی کرتے کرتے اس اخبار کے ایڈیٹرکے عہدے پر فائز ہوئیں۔ جب پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت میں نیشنل پریس ٹرسٹ کو ختم کیا گیا تو اخبار خواتین بھی اس صورتحال کا شکار ہوا۔ شین فرخ کو کراچی سے شایع ہونے والے اخبار روزنامہ مشرق میں سٹی ایڈیٹر کی اسامی کی پیش کی گئی۔ شین فرخ ایک ذہین اور محنت خاتون تھیں۔
وہ کام کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتی تھیں، یوں انھوں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ وہ ایسے وقت روزنامہ مشرق کی سٹی ایڈیٹر بنیں جب کراچی شہر شدید بدامنی کا شکار تھا۔ خاص طور پر شام کی شفٹ میں کا م کرنے والے صحافیوں کو شدید دباؤ کا سامنا تھا مگر شین نے بہادری سے اسی طرح فرائض انجام دیتی رہیں جس طرح مرد صحافی انجام دیے تھے۔ انھوں نے گلشن اقبال بلاک 4 میں صحافیوں کو ملنے والے پلاٹ پر ایک گھر تعمیر کیا تھا۔ گلشن اقبال سے شاہراہ فیصل آنا اور جانا ایک مشکل ترین کام تھا۔ شین فرخ مشکل کام کرنے کی عادی تھیں، یوں وہ مشرق میں کام کرتی رہیں۔ شین فرخ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں متحرک رہیں۔
وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے مختلف عہدوں پر کئی بار منتخب ہوئیں۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں عظیم صحافی منہاج برنا کی قیادت میں پی ایف یو جے میں کام کرنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا تھا، خاص طور پر نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات میں کام کرنے والوں کے لیے حالات زیادہ خطرناک تھے مگر شین فرخ نے کبھی اس پرواہ نہیں کی۔ شین فرخ ایک ترقی پسند سوچ کی مالک تھیں۔ معروف وکیل عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر مبشر حسن، معروف دانشور آئی اے رحمن، ڈاکٹر ہارون، کرامت علی، انیس ہارون اور محمد تحسین کی طرح وہ اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کے درمیان مستقل رابطوں اور دوستی سے دونوں ممالک میں غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور یہ خطہ ترقی کی کرسکتا ہے۔
اس لیے وہ پاک انڈیا پیپلز فورم کے پلیٹ فارم پر متحرک رہیں۔ فورم کے اکابرین کی کوششوں سے دونوں ممالک کی حکومتوں نے عام آدمی کے لیے ویزے حاصل کرنے کی سہولت بہت آسان کردی۔ شین فرخ ہمیشہ سے خوب صورت افسانہ نگار کی حیثیت سے معروف تھیں۔ انھوں نے پانچ کے قریب کتابیں تحریر کیں۔ عظیم ادیب انتظار حسین نے ان کی خود نوشت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
دراصل یہ خود نوشت ایک آزاد خیال عورت کی المیہ کہانی کے طور پر زیادہ بہتر پڑھی جا سکتی ہے۔ شین کے دکھ اُس وقت شروع ہوتے ہیں جب اُسے یہ احساس ہوتا ہے کہ خاندانی بندھنوں کی زنجیروں سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔ جب وہ ان زنجیروں کو توڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
شین فرخ نے اپنی زندگی میں ہی بذریعہ وصیت اپنے گھر کو شین فرخ ٹرسٹ بنایا۔ شین نے اپنی خود نوشت میں آخری جملہ یہ لکھا تھا ’’ میں نے ہار نہیں مانی‘‘ یہی سچائی ہے۔