چشم نم پھر سے ظل عاطفت کو ڈھونڈے ہے
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251113-03-7
راقم کوہساروں کی سر زمین پر ایک تربیتی کیمپ میں ذمے داری نبھا رہا تھا، ایک دن مغرب کی نماز کے قریب اک مہمان سر پر ایک بھاری بیگ اٹھائے کیمپ میں داخل ہوا۔ کھانا اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد مہمان میرے کیمپ میں آیا۔ اس نے بیگ میرے سامنے کھولا جو گرم جرابوں اور جیکٹ سے بھرا ہوا تھا کہا کہ یہ ہدیہ ساتھیوں کے لیے قبول فرمائیں اور ساتھ ہی چمڑے کے موزے نکال کر مجھے دیے کہ یہ آپ کے لیے ہیں۔ اور ساتھ ہی اپنا تعارف کروایا کہ میں میانوالی سے آیا ہوں، میرا نام محمد فاروق ہے۔ یہ میرا پہلا تعارف تھا اس شخص کے ساتھ کہ جس نے پھر 1989 سے لے کر 2025 تک تا دم مرگ کبھی ’’کنڈ‘‘ خالی نہ ہونے دی۔ ملک محمد فاروق سید ابوالاعلی مودودیؒ کے تربیت یافتہ کارکنان خاص ملک خضر حیات کے فرزند ارجمند ہیں۔ وہ مولانا کے بے لوث خدمت گار رہے ہیں۔ ملک محمد فاروق بتایا کرتے تھے کہ ابا جان اکثر مجھے بھی مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کے پاس لے جایا کرتے تھے، وہ بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ مولانا مودودی میری کمر پر تھپکی مار کر کہا کرتے تھے خضر صاحب آپ کا بیٹا اللہ کا مجاہد بنے گا۔
ملک محمد فاروق بھائی پہلے میانوالی اور پھر سرگودھا و خوشاب میں ائر کنڈیشن ریفریجریٹر کی ورکشاپ چلاتے تھے، اپنے فن میں ماہر تھے، اللہ تعالیٰ نے بلا کی ذہانت دے رکھی تھی پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلہ ائر کنڈیشن، ریفریجریٹر کا ہو یا پھر دنیاوی مسائل کا چٹکیوں میں بہترین حل پیش کر دیتے تھے۔ ان کی ورکشاپس ان کی میزبانی اور حسن اخلاق سے تحریکی ساتھیوں کی بیٹھک بن جایا کرتیں۔ ان سے کام سیکھ کر ان کے شاگردوں نے اپنے ہنر میں بڑا نام پیدا کیا۔ جب بھی ان کے سایہ شفقت میں تربیت شدگان سے ملاقات ہوتی ہے بڑے عزت و وقار سے وہ اپنے استاد محترم ہمارے بھائی ملک محمد فاروق کا نام لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی شخصیت بخشی کہ بچے، جوان، بوڑھے، مزدور، کسان، بزنس مین، ککھ پتی یا لکھ پتی جو بھی ان سے ایک بار ملتا ان کا دیوانا ہو جاتا۔ زندگی کی دوڑ میں کئی نامی گرامی آج کی ہستیاں زمانہ طالب علمی میں جب وہ کسمپرسی کی حالت میں تھے، بسلسلہ روزگار و تعلیم رہنے کے لیے ٹھکانا نہیں رکھتے تھے تو، ملک محمد فاروق کی آغوش ان کے لیے ظل عاطفت ہوتی۔ ان میں سے اکثریت کو میں نے ان کے جنازہ میں ایسے سسکتے ہوئے دیکھا کہ جیسے ان کا بڑا بھائی چل بسا ہو۔ ویسے مہمان نوازی میں ان کے پورے خاندان کا کوئی جواب نہیں، ان کے والد محترم ملک خضر حیات اعوان مرحوم جب تک حیات رہے جماعت کے کسی بڑے سے بڑے رہنما یا ہم جیسے ادنیٰ کارکنان کو رات بسر کرنی ہوتی تو ملک صاحب کے گھر کے علاوہ کسی اور طرف نظر ہی نہ اٹھتی۔ ملک محمد فاروق کے چھوٹے بھائی ملک محمد طاہر، ان کے بیٹے ملک عمر فاروق، ملک محمد حمزہ سعودیہ میں ہوتے ہیں ان کی رہاش گاہیں وہاں بھی دوست احباب کی میزبانی کے لیے ہر پل تیار رہتی ہیں۔ ملک محمد طاہر کا ڈیرہ تو خدمت کے لیے پورے سعودیہ میں مشہور ہے۔
سب بھانجے، بھتیجوں، بھتیجیوں و بھانجیوں سے خاص انسیت و محبت رکھتے تھے مگر ملک محمد حاثر سے بہت حد تک بے تکلف تھے۔ ایک بار ہم ملک محمد فاروق کے ڈیرے پر گئے اور ان سے اسرار کیا کہ ’’جھنڈا والا‘‘ کا مشہور گوشت کھلائیں کہتے ہیں، میرے بھانجے ملک محمد حاثر نے مجھے کل ہی سمجھایا ہے کہ ماموں اب 2015 ہے سب فضول خرچیاں ختم لہٰذا اب آپ لوگ بھی موجیں کریں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ’’جھنڈا والا‘‘ گوشت منگوا چکے تھے پر ہمیں خوب تنگ کیا۔ اس کے بعد جب بھی ہم ’’جھنڈا والا‘‘ کا نام لیتے آگے سے 2015 سننے کو ملتا۔
ان کے بہنوئی ملک مصدق ان کے بھتیجے ملک محمد حمیس و ملک محمد عفان ان کی وفات کے بعد آج بھی مہمانوں کو ملک خضر اور ملک محمد فاروق کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے۔ ملک خضر حیات اعوان مرحوم و ملک محمد فاروق مرحوم ان کے اہل خانہ جس اپنائیت، محبت، خلوص کے ساتھ وہ حق میزبانی ادا کرتے اس کی مثال شاید ہی آج کے اس نفسی نفسی دور میں ملتی ہو۔ ملک محمد فاروق نے جب کوہساروں کا رخ کیا تو پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازیوں مجاہدوں، زخمیوں وشہداء کے پشتیبان بن گئے۔ اپنا کاروبار اپنا گھر بار سب کچھ ان کے لیے وقف کردیا۔ کئی زخمیوں جو بستر سے اٹھ تک نہ سکتے تھے ان کی تیمار داری اس طرح کی کہ شاید ان کے والدین بھی ایسے نہ کر سکتے۔ ان کے پاخانے تک خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ نوجوانوں نے وزیر اعلیٰ میاں محمد نواز شریف کی گاڑی کو پنجاب یونیورسٹی پل پر روک لیا، وزیر اعلیٰ کے گارڈز اور طلبہ کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی، گارڈز نے کچھ طلبہ کو گرفت میں لے لیا ان کو پولیس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے خود بھی قابو آ گئے اور پھر کئی ماہ تک جیل بھی کاٹی۔ جیل اس شان سے کاٹی کہ معروف ٹرانسپورٹر ملک فاروق بندھیال بھی اس وقت جیل میں تھا اس کی ملاقات کا ذریعہ ملک محمد فاروق بنا کرتے تھے۔
شعبہ نوجوانان جماعت اسلامی پنجاب میں ذمے داریاں نبھائیں۔ شہداء فاونڈیشن کے تحت البدر چائے کے کاروبار کی ذمے داریاں قاری عبدالعلیم المعروف ابا میاں کے بے حد اسرار پر سنبھالیں۔ اور بڑے احسن طریقہ سے چلاتے رہے۔ ان سے پہلے کے کچھ حسابات کی لکھائی پڑھائی غیر کاروباری انداز سے کی گئی تھی، جس کو سدھارنے کی ذمے داری انہوں نے میری لگائی۔ میں نے شرط لگائی کہ اگر حساب کتاب درست ہو گیا تو آپ کو البدر چائے کے تمام عملے کو مزدوروں سمیت اچھرہ میں حال ہی میں کھلنے والے ایک فور اسٹار وی آئی پی ہوٹل میں کھانا کھلانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا قبول ہے۔ میں نے ادارہ مطبوعات طلبہ کے آڈیٹر برادر صلاح الدین کی مدد سے انتہائی الجھا ہوا حساب کتاب مکمل کاروباری انداز میں مرتب کروا دیا۔ تو بڑی خوشی سے ہمیں مزدوروں سمیت اس ہوٹل پر لے گئے۔ یقین مانیں لیوی لگے کام کرنے والے بوسیدہ کپڑوں میں مزدور جب ہمارے ساتھ وی آئی پی ہوٹل میں بیٹھے تو ان کی آنکھوں کی چمک ہی کچھ اور تھی۔ انتظامیہ ہوٹل سمیت سب گاہک بھی حیران تھے کہ یہ کیسے مالک ہیں مزدوروں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلا رہے ہیں۔ ایک دفعہ لاہور میں نیو ائر والی رات شعبہ نوجوانان کے جوانوں اور پولیس میں شدید جھڑپ ہو گئی، اس رات کئی ساتھی زخمی بھی ہوئے اور ایک ساتھی شہید بھی ہوا۔ بیش تر ساتھی لاہور کے راستوں سے واقف نہیں تھے، ملک صاحب ان کے لیے مسیحا ثابت ہوئے اور بہت سارے ساتھیوں کو پولیس سے بچانے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ راستے میں پولیس سے جھڑپ کے دوران پولیس سے بندوقیں بھی چھین لائے۔ جو ہم نے کئی ماہ بعد ذمے داران جماعت کے بے حد اسرار پر واپس کیں۔
ملک محمد فاروق نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اپنے آبائی گائوں پنڈی وہیر ضلع خوشاب میں اپنا زمیندارہ سنبھال لیا، وہاں بھی چھوٹے بڑے سب کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ہر کسی کی خوشی غمی میں شرکت کے ساتھ لوگوں کے دکھوں کا مداوا عبادت اور بلا حریص کرتے، ان کے گائوں کے دوست انہیں نم آنکھوں سے ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔
میری زندگی میں بھی ان کے کئی احسانات ہیں۔ میری خوشیوں سے زیادہ میرے دکھوں کے ساتھی تھے۔ میری ملازمت، کاروبار، زمیندارہ، اسکول حتیٰ کہ بچوں کی تعلیم و تربیت و شادی بیاہ کے معاملات میں نہ صرف مخلصانہ مشورے دیتے بلکہ آگے بڑھ کر عملی جامعہ پہنانے تک چین سے نہ بیٹھتے۔ مجھ پر اک بار اک ناجائز مقدمہ ہو گیا، جب تک وہ ختم نہ ہوا چین سے نہ بیٹھے۔ اسی مقدمے کے سلسلے میں اک بار ڈی پی او سے ملاقات کے لیے ہم اکٹھے گئے تو دیکھا کہ وہاں گیٹ پر اندر بلاوے کے انتظار میں ہمارے ضلع کی بہت بڑی قد آور تحریکی شخصیت اسٹول پر بیٹھی ہوئی ہے۔ کہنے لگے ایسے تو ہم نے نہیں ملنا فوراً وائرلیس آپریٹر کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ڈی پی او کی فلاں صاحب سے بات کرواو، جب ڈی پی او کی بات ہو گئی تو چند لمحوں بعد ہی اردلی میرا نام پکارنا شروع ہو گیا، یوں ہم بڑی شان سے ڈی پی او صاحب سے ملے جبکہ وہ شخصیت تا حال اسٹول پر اندر بلاوے کی منتظر ہی رہی۔ اسی طرح میں پی اے ایف اسپتال میں بیماری کی حالت میں تین چار یوم سے داخل تھا، ڈاکٹر و عملہ پورے پروٹوکول کے ساتھ علاج میں مگن تھے۔ مگر میری حالت بدستور بگڑتی جا رہی تھی۔ ملک صاحب کو پتا چلا تو فوراً اسپتال پہنچے میری حالت دیکھتے ہی وسیم باری بھائی کو کہتے ابھی ڈسچارج کرواو اور سیدھے شفاء انٹرنیشنل اسپتال، اسلام آباد لے گئے، جہاں انہوں نے فوری طور پر اصل بیماری ڈھونڈ کر آپریشن کر ڈالا تو مجھے سکون ملا۔ ان کا ہر اک ملنے والا یہ سمجھتا تھا، سمجھتا ہے اور سمجھتا رہے گا کہ میں ان کے سب سے قریب تھا۔ اسی طرح میرا قیاس نہیں یقین ہے اور دعویٰ بھی کہ بہاولنگر سے برادر محترم محمد حسین ضیاء، راقم، انور صاحب (نیل والے) اور ملک عاطف ڈھڈی سے وہ باقی دوستوں کی نسبت زیادہ رغبت رکھتے تھے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملک محمد فاروق کرتے تھے ڈی پی او کے ساتھ ملک خضر کے لیے
پڑھیں:
کیمیکل انجینئرنگ کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی انتقال کرگئے
سٹی42:کیمیکل انجینئرنگ کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد علی انتقال کر گئے۔
مرحوم کا انتقال ڈینگی بخار کے باعث ہوا۔
ڈاکٹر محمد علی کی نماز جنازہ آج بعد از عصر چار بجے جوگنگ ٹریک، پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس میں ادا کی جائے گی۔