لاہورمیں اسموگ کے خأتمے کے لیے کرول جنگل میں دس ہزار پودوں کی شجرکاری
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
لاہورمیں اسموگ کے خأتمے کے لیے محکمہ فارسٹ نے کمیونٹی پارٹنرشپ کے ساتھ کرول جنگل میں دس ہزار پودے لگادیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یہ پودے محکمہ جنگلات کی 14 ایکڑ پرمحیط برسوں سے بنجرپڑی خألی زمین پر عوامی شمولیت سے لگائے گٸے ہیں۔
کرول جنگل میں محکمہ فارسٹ کی اسپیشل ٹیموں نے شجرکاری کی۔ لاہور کے اے کیواٸی میں مستقل بنیادوں پر بہتری کے لیے پاکپتن کے ایک ماحول دوست شہری نے لاہور میں 10 ہزار پودوں کا تحفہ دیا جو کرول جنگل میں فارسٹ کے محکمے نے لگائے۔
سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے اس شہری کو “گرین ایمبسڈر” کا لقب دیا۔ شہری کا یہ عمل نہ صرف ماحولیاتی خدمت بلکہ قومی، سماجی اور مذہبی فریضہ بھی ہے۔
عوام سموگ اور فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے گھروں اور علاقوں میں خود شجرکاری کرنے لگے ہیں جبکہ شجرکاری مہم سائنسی، سماجی اور مذہبی جذبے کے امتزاج کے ساتھ تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ کرول جنگل میں محکمہ جنگلات، اسکول کے طلبہ، رضاکاروں اور عملے نے مل کر 14 ایکڑ رقبے پر شجرکاری کی، مقامی انواع جیسے پیپل، نیم اور جامن کے درخت لگائے گئے۔
واضح رہے کہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے آکسیجن خارج کرتے ہیں، فضائی آلودگی اور سموگ کے ذرات کو قدرتی طور پر کم کرتے ہیں۔ درخت فضا کو ٹھنڈا رکھنے، بارش کے نظام کو بہتر بنانے اور زمینی کٹاؤ کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
مزید برآں درخت لگانا سنتِ نبوی ﷺ ہے اور یہ صدقۂ جاریہ کا بہترین ذریعہ ہے جس کا اجر نسلوں تک جاری رہتا ہے۔
سینئر صوباٸی وزیر مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ شجرکاری مہم نہ صرف ماحولیاتی تحفظ بلکہ عوامی صحت، سماجی یکجہتی اور مذہبی اقدار کے فروغ کی بہترین مثال بن چکی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرول جنگل میں کے لیے
پڑھیں:
موسمی تبدیلیوں سے متعلق تحقیق کو فروغ دینا ہوگا، ڈاکٹر الطاف سیال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت) سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا ہے کہ تدریسی اداروں اور محققین کو موسمی تبدیلیوں سے ہم آہنگ تحقیق کو فروغ دینا ہوگا کیونکہ بدلتے ہوئے موسمی حالات میں روزانہ نئے چیلنجز سامنے آ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ تحقیق کا محور وقت، ماحول اور پودوں کو درپیش خطرات کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ زراعت کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔وہ سندھ زرعی یونیورسٹی کے شعبہ پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس (PBG) میں بائیوانفارمیٹکس، سیکوینس ریٹریول، جن شناخت اور فائلو جینیٹک تجزیہ کے موضوع پر منعقدہ ایک روزہ ہینڈز آن تربیتی سیشن کی اختتامی تقریب سے خطاب کر رہے تھے انھوں نے کہا کہ آج کے دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا امتزاج بالخصوص کمپیوٹر سائنس اور جینیاتی تحقیق کا ملاپ، ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ پودوں کے جینز کس طرح کام کرتے ہیں نئی خصوصیات کیسے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے مقابلے کے قابل بنانے والے جینز کون سے ہیں انہوں نے کہا کہ سندھ زرعی یونیورسٹی اس جدت کو تحقیق، تعلیم اور عملی تربیت کے ذریعے فروغ دے رہی ہے تاکہ نوجوان سائنس دان عالمی معیار کی تحقیق اور جدید آلات سے واقف ہو سکیں پروگرام کی منتظم اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شبانہ میمن نے بتایا کہ یہ تربیت جدید حیاتیاتی تحقیق کے ایک اہم اور ابھرتے ہوئے میدان، بائیوانفارمیٹکس سے متعلق ہیجس میں کمپیوٹر کی مدد سے پودوں اور جانداروں کے جینز کی معلومات حاصل کی جاتی ہیں ان کی پہچان کی جاتی ہے اور ان کے باہمی تعلقات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔