القاعدہ کا بہانہ، بھارت بھر میں بنگلہ دیشی اور مقامی مسلم آبادیوں کو نشانہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
بھارت میں حکام نے القاعدہ سے مبینہ تعلق کے نام پر 5ریاستوں میں بنگلہ دیشی مہاجرین اور مقامی مسلمانوں کے خلاف بیک وقت چھاپے مارے، جس سے متعدد علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) نے مغربی بنگال، تریپورہ، میگھالیہ، ہریانہ، اور گجرات میں 10 مقامات پر کارروائیاں کیں۔ ان چھاپوں کے دوران ڈیجیٹل ڈیوائسز اور دستاویزات قبضے میں لی گئیں۔
اگرچہ کارروائی کو ’انسدادِ دہشتگردی آپریشن‘ کے طور پر پیش کیا گیا، تاہم مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ چھاپوں سے عام زندگی متاثر ہوئی اور بے گناہ افراد کو ہراساں کیا گیا، جن کا مبینہ مشتبہ افراد سے کوئی تعلق نہیں۔
مقدمے کی تفصیلیہ کیس 2023 میں درج کیا گیا تھا، جس میں 4 بنگلہ دیشی شہریوں پر بھارت میں داخلے اور مبینہ طور پر القاعدہ سے روابط رکھنے کا الزام ہے۔
NIA کے مطابق ملزمان فنڈ ریزنگ اور شدت پسندی کے فروغ میں ملوث تھے۔
تاہم ماہرین اور مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے الزامات کو اکثر ’ہندو قوم پرست حکومت‘ کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا مؤقفتجزیہ کاروں کے مطابق بھارت میں ’القاعدہ‘ یا ’دہشتگردی‘ کے نام پر چلائی جانے والی کئی کارروائیاں دراصل بنگلہ دیشی نژاد مزدوروں اور مقامی مسلم برادریوں کو دبانے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
ان کے بقول، یہ بیانیہ سیاستی اور سماجی تعصب کو بڑھا رہا ہے اور اقلیتی طبقات کے خلاف خوف اور بداعتمادی پیدا کر رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بنگلہ دیشی
پڑھیں:
بھارت: زہریلا کھانسی کا شربت پینے سے درجنوں بچوں کی ہلاکت، دواؤں کی حفاظت پر سنگین سوالات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارت میں زہریلا کھانسی کا شربت پینے سے درجنوں بچوں کی ہلاکت نے ایک بار پھر ترقی پذیر ممالک میں ادویات کے معیار اور حفاظتی اقدامات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق بھارت کی ریاستوں مدھیہ پردیش اور راجستھان میں زہریلا کھانسی کا شربت پینے سے کم از کم 24 بچے جاں بحق ہوگئے، جس کے بعد ایک بار پھر ترقی پذیر ممالک میں دواؤں کے معیار اور حفاظتی اقدامات پر سنجیدہ سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ نیا نہیں، 2022 میں گیمبیا، ازبکستان، انڈونیشیا اور کیمرون میں بھی آلودہ شربت پینے سے 300 سے زائد بچوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
رپورٹس کے مطابق متاثرہ بچوں میں بخار، قے، پیشاب کی بندش اور گردوں کے انفیکشن جیسی علامات ظاہر ہوئیں، لیبارٹری تجزیے سے معلوم ہوا کہ شربت میں ڈائیتھائلین گلائکول (Diethylene Glycol) نامی زہریلا کیمیکل شامل تھا، جو دراصل انڈسٹریل سالوینٹس اور اینٹی فریز میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کی معمولی مقدار بھی مہلک ثابت ہو سکتی ہے، خصوصاً بچوں کے لیے۔
صحتِ عامہ کے ماہر دنیش ٹھاکر کے مطابق یہ کیمیکل ناقص گلیسرین کے ذریعے دواؤں میں شامل ہو جاتا ہے، جبکہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ایسے واقعات عموماً ان فیکٹریوں میں ہوتے ہیں جہاں صفائی، تربیت اور کوالٹی کنٹرول کے اصولوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
بھارتی حکومت نے واقعے کے بعد تمام ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ دو سال سے کم عمر بچوں کو کھانسی یا نزلے کی کوئی دوا نہ دی جائے، جبکہ وزارتِ صحت نے 19 فیکٹریوں پر چھاپے مار کر ان کے حفاظتی نظام کا جائزہ لیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سانحے کی ذمہ داری ادویہ ساز کمپنیوں اور حکومتی اداروں دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ پروفیسر ونسٹن مورگن کے مطابق فیکٹری مالکان پر لازم ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی جانچ یقینی بنائیں، اور حکومت کو سختی سے اپنے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کرانا چاہیے۔
تاریخی طور پر بھی ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں — 1937 میں امریکہ میں آلودہ دوا سے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جبکہ بھارت میں 1972 سے اب تک نو مرتبہ ایسے سانحات پیش آ چکے ہیں جن میں 300 سے زیادہ بچے زندگی سے محروم ہو گئے۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے کھانسی کے شربت طبی طور پر مؤثر ثابت نہیں ہوئے، بلکہ ان میں شامل بعض اجزاء نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب تک دوا سازی کے عمل میں شفافیت، معیاری جانچ اور نگرانی کا سخت نظام قائم نہیں ہوتا، اس طرح کے المناک سانحات دوبارہ جنم لیتے رہیں گے — اور ان کی قیمت معصوم جانوں سے ادا کی جاتی رہے گی۔