لاہوری ہائیکورٹ کا شہر میں درخت کاٹنے پر حکمِ امتناع
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ نے شہر میں درخت نہ کاٹنے کا حکم جاری کردیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب لاہور ہائیکورٹ نے انتظامیہ سے ایک نجی بیکری کے باہر سے درخت کاٹنے کی تفصیلات طلب کیں۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ سرکاری وکیل درخت نہ کاٹنے کے حکم پر عملدرآمد کروائے۔
موٹر وے پولیس نے بتایا کہ ای پی اے کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے جبکہ موٹر وے پر گاڑیوں کی چینکنگ کے لیے پوائنٹس مقرر کردیے ہیں۔
مزید براں موٹر وے پر چیکنگ پوائنٹس پر گاڑیوں کا معائنہ کیا جائے گا۔ عدالت میں موٹر وے پر عملے کی ڈیوٹیوں کا روسٹر بھی پیش کیا گیا۔ پی ایچ اے کے وکیل کے مطابق غالب مارکیٹ میں پارک کی تعمیر بھی روک دی گی ہے۔
عدالت نے پارک پر تعمیر سے متعلق معاہدہ سمیت دیگر دستاویزات طلب کرلی ہیں جبکہ جسٹس شاہد کریم نے گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: موٹر وے
پڑھیں:
سینیٹری پیڈز پر بھاری ٹیکس کے خلاف لاہور کے بعد سندھ ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر
سینیٹری نیپکن پر بھاری ٹیکسز عائد کیے جانے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کردی گئی۔
سندھ ہائی کورٹ نے فریقین کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی خصوصی نوٹس جاری کردیے جبکہ لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے دائر درخواست کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کر لیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سینیٹری پیڈز پر ٹیکس چیلنج، لاہور ہائیکورٹ میں رِٹ قابلِ سماعت قرار
سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں درخواست گزار علیشاہ شبیر نے موقف اپنایا ہے کہ سینیٹری نیپکن خواتین کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے، اس لیے سینیٹری نیپکن کو بنیادی ضروریات کی اشیاء میں شامل کرنے کی ہدایت کی جائے۔ سینیٹری نیپکن کے خام مال کو بھی 8ویں شیڈول کے تحت رکھا جانا چاہیے تاکہ اس کا فائدہ اصل میں صارفین تک پہنچ سکے۔
بنیادی اشیائے صرف نہ ہونے کے باعث ان پر زیادہ شرح سے سیلز ٹیکس عائد ہوتا ہے، بنیادی اشیائے صرف کو عوام کی پہنچ سے دور رکھنا آئین میں دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانت کی خلاف ورزی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں ماہ نور عمر کی جانب سے درخواست دائر کی ہے اس درخواست میں انہوں نے موقف اپنایا ہے کہ یہ پبلک انٹرسٹ لٹیگیشن ہے، یہ ٹیکس نہ صرف خواتین کو ان کی حیاتیاتی ضرورت پر جرمانہ کرتا ہے بلکہ لاکھوں لڑکیوں کی تعلیم اور صحت کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: خواتین میں بڑھتے سروائیکل کینسر کی وجوہات کیا ہیں؟
درخواست کے مطابق 2023 کی مردم شماری میں پاکستان کی خواتین آبادی کل کا 48.51 فیصد یعنی تقریباً 117 ملین ہے، جو 2033 تک 151 ملین تک پہنچ جائے گی۔ ان میں سے 62 ملین خواتین ماہواری کی عمر میں ہیں، مگر صرف 12 فیصد کمرشل سینیٹری پیڈز استعمال کرتی ہیں، باقی 88 فیصد کو کپڑا، راکھ یا اخبار جیسے غیر محفوظ متبادل استعمال کرنے پڑتے ہیں، جو پیشاب کی نالی کے انفیکشن، تولیدی مسائل اور طویل مدتی صحت کے خطرات کا باعث بنتے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ میں وکیل درخواست گزار فرحت اللہ یاسین نے اپنے دلائل میں کہا ہے کہ بنیادی اشیائے صرف کی کیٹیگری میں شامل نہ ہونے کے باعث اس پر زیادہ ٹیکسز اور ڈیوٹیز عائد ہیں، انہیں سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990 کے چھٹے شیڈول میں شامل کیا جائے تاکہ انہیں سیلز ٹیکس سے استثنی دیا جاسکے، آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 کے تحت صحت اور زندگی کا ہر شہری کو حق ہے ۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان میں خواتین بانجھ پن کا شکار کیوں ہورہی ہیں؟
اس وقت مقامی پیڈز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس، درآمد شدہ پر 25 فیصد کسٹم ڈیوٹی سمیت 18 فیصد سیلز ٹیکس، اور خام مال یعنی سپر ایبزربینٹ پولیمر (SAP) پیپر پر 25 فیصد ٹیکس لگتا ہے، جو پیڈ کی لاگت کا 26 فیصد حصہ ہے۔ جس سے 10 پیڈز کا پیکٹ 450 روپے تک پہنچ جاتا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں درج مقدمات میں عدالتوں نے فریقین سے جواب طلب کر رکھے ہیں لیکن ساتھ ہی درخواست گزار علیشاہ شبیر اور ماہ نور عمر پر امید دیکھائی دیتی ہیں اس حوالے سے تمام تر نظریں حکومت کے جواب پر مروکوز ہیں جو کہ آئندہ سماعتوں میں دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سندھ ہائیکورٹ سینیٹری پیڈز لاہور ہائیکورٹ