ایران کیخلاف حکمت عملی کی ناکامی کی وجوہات اور اسباب پر امریکی تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ریاستیں عمومی طور پر اپنی سماجی و تاریخی یادداشت کو اس لیے تشکیل دیتی ہیں تاکہ فرد کو ملت سے مربوط رکھا جائے اور قومی شناخت کو ایسی روایات کے ذریعے مضبوط کیا جائے جو احساسِ تعلق کو تقویت دیتی ہیں۔ لکھاری ایران کی ’’سیکورٹی سے متعلق سوچ‘‘ کا سب سے برجستہ عنصر ’’غیر ملکی مداخلت کا تجربہ‘‘ بتاتی ہیں۔ خصوصی رپورٹ:
ایک ایرانی نژاد پینٹاگون افسر نے امریکہ کی ایران کے خلاف موجودہ حکمتِ عملی کے بارے میں امریکی عہدیداروں کو نصیحت کرتے ہوئے اپنے دس سالہ تحقیقی منصوبے کے بعض عملی نکات مغرب نواز مجلہ ’’سیاست نامه‘‘ میں شائع کیے ہیں۔ اس امریکی فوجی افسر کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں وسیع تحقیقی کوششیں اس لیے کی جا رہی ہیں کہ تہران کی فکری ساخت اور منطق کو سمجھا جا سکے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جو اس چیلنج کا بہتر مقابلہ کر سکیں۔ وہ اپنے دس سالہ منصوبے کو ایران کے اقدامات کا مؤثر جواب تلاش کرنے اور اس کی ممکنہ ردعمل کی پیشبینی پر مبنی قرار دیتی ہیں۔
وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ اس تحقیق میں اس نے یورپ، امریکہ، ایران اور اسرائیل کے اہلکاروں و ماہرین سے گفتگو کی ہے، یہ افسر امریکی وزیر دفاع کی مشیر بھی رہ چکی ہیں۔ لکھتی ہیں کہ ایک بنیادی سوال امریکی اور یورپی عسکری منصوبہ سازوں کے ذہنوں کو مشغول کیے ہوئے ہے کہ ایرانی کیا سوچتے ہیں؟ ان کا اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے؟ اور وہ امریکی اقدامات کا جواب کس صورت میں دے سکتے ہیں؟ اپنے مضمون کے مقدمے میں وہ یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ انقلابِ اسلامی کے چار دہائی بعد بھی ’’تندرو چہرے‘‘ سرکاری میڈیا سے ایرانیوں کو مغرب کی ’’زورگویی‘‘ کے مقابلے پر ابھارتے ہیں۔
اس کے بقول ایران کی موجودہ پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایران کی تزویراتی سوچ دراصل ایسے تاریخی و اجتماعی حافظے سے جنم لیتی ہے جو اس کے نظریاتی سانچے کا بنیادی جزء ہے۔ اس کے مطابق ریاستیں عمومی طور پر اپنی سماجی و تاریخی یادداشت کو اس لیے تشکیل دیتی ہیں تاکہ فرد کو ملت سے مربوط رکھا جائے اور قومی شناخت کو ایسی روایات کے ذریعے مضبوط کیا جائے جو احساسِ تعلق کو تقویت دیتی ہیں۔ وہ ایران کی ’’سیکورٹی سے متعلق سوچ‘‘ کا سب سے برجستہ عنصر ’’غیر ملکی مداخلت کا تجربہ‘‘ بتاتی ہیں۔
یہ کہتی ہیں کہ ان کا مقصد ان مفاہیم اور اعتقادات سے پردہ اٹھانا ہے جو ایرانی عسکری منصوبہ سازوں کے مدنظر ہوتے ہیں۔ وہ سوال اٹھاتی ہیں کہ ایران عسکری خود کفالت پر اتنا زور کیوں دیتا ہے، کیوں میزائل بناتا اور ذخیرہ کرتا ہے، اور کیوں ان کا مسلسل آزمائشی عمل جاری رکھتا ہے۔ وہ ایران پر ’’درپردہ کاروائیوں‘‘ اور ’’علاقائی مداخلت‘‘ کے الزامات دہراتی ہیں۔ انقلابِ اسلامی کو وہ ’’ایسا سخت موسم‘‘ قرار دیتی ہیں جس نے ڈھائی ہزار سالہ سلطنت کا خاتمہ کیا، اور شاہ کے دور کی فوج کو ’’جدید طاقت‘‘ کہتا ہے، جسے امریکہ جیسی سپر پاور کا سہارا حاصل تھا، مگر ’’۱۹۷۹-۱۹۷۸‘‘ کی سردیوں نے سب ختم کر دیا۔
یہ افسر پھر صدام کے ایران پر حملے کی توجیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ عراق کے اندازے منطقی دکھائی دیتے تھے اور امریکہ و یورپ کی بے پناہ حمایت کا کوئی ذکر کیے بغیر صرف اتنا کہتا ہے کہ صدام نے ایرانیوں اور کردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے۔ آرین طباطبایی، جو بائیڈن دور میں وزیر جنگ کی مشیر تھی، اپنے مضمون میں بار بار یہ مؤقف دہراتی ہے کہ ایران کی ’’تاریخ‘‘، ’’روایت‘‘ اور ’’دفاعی تزویرات‘‘ باہمی طور پر جڑے ہوئے عناصر ہیں اور امریکی و یورپی عسکری منصوبہ سازوں کو ایران کے اقدامات کا مؤثر جواب دینے کے لیے انہی تین نکات کو سمجھنا ہوگا۔
وہ اپنی تحقیق کا اہم ترین نتیجہ یہ بتاتی ہے کہ ’’جنگوں اور مذاکرات‘‘ کے گرد بننے والی روایتیں ایرانی عوام کی عمومی ذہنیت کو شکل دیتی ہیں، اور یہ کہ ’’حکومتیں اس کو راسخ کرتی ہیں‘‘۔ متن کے مختلف حصے، جو اس کے پینٹاگون کے لیے تیار کردہ دس سالہ غیر محرمانہ پروجیکٹ کا خلاصہ معلوم ہوتے ہیں، اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکی اسٹریٹجک مشیروں کے نزدیک ایران کا تاریخی حافظہ، اس کی جنگی و سیاسی روایات، اور اس کی دفاعی حکمتِ عملی ایک مربوط نظام بناتے ہیں جسے سمجھنے کے بغیر ایران کی سمت کو بدلنا ممکن نہیں۔
طباطبایی بالواسطہ طور پر امریکی وزارت جنگ کے اپنے اعلیٰ حکام کو یہ مشورہ دیتی ہے کہ اگر وہ ’’جمهوری اسلامی سے مربوط چیلنجز‘‘ کا بہتر جواب چاہتے ہیں تو انہیں ’’جنگ و مذاکرات کی روایت‘‘ پر کنٹرول یا اثر اندازی کے امکان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے مطابق جب تک ایرانی عوام کے تاریخی تجربے، جنگوں اور مذاکرات کے بارے میں بدگمانی کے ساتھ روایت ہوتی رہے گی، ’’سازگار منصوبہ بندی‘‘ ممکن نہیں ہوگی۔ اس کے نظریے کے مطابق اگر ایرانیوں کے لیے جنگ اور مذاکرات کی ایسی متبادل روایتیں بنائی جائیں جو ان کے عمومی برداشت کو بدل دیں، تو ممکن ہے کہ ایران کی دفاعی حکمتِ عملی میں بنیادی عناصر جیسے ’’میزائل سازی و ذخیره سازی‘‘ بھی غیرضروری محسوس ہونے لگیں۔
اس کے بقول یوں ’’جمهوری اسلامی سے مربوط چیلنجز‘‘ کا مقابلہ مغرب کے لیے آسان ہو جائے۔ اس امریکی افسر کے مضمون پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہوتا ہے کہ مغربی حلقوں میں گزشتہ مہینوں کے دوران ’’اسنپ بک‘‘ کی ناکامی اور ایٹمی مذاکرات کے رسوا کن نتائج کو ڈھانپنے کے لیے جو بیانیاتی سرگرمی جاری ہے، اس کی جڑ اسی اسٹریٹجک فکر میں پیوست ہے۔ طباطبایی، مغرب نواز حلقوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ایران کی جنگی و سیاسی تاریخ کی ایسی روایت نہیں بننے دینی چاہیے جو عوامی نقطہ نظر کو مغرب کے بارے میں مزید بدگمان بنائے، کیونکہ اس کے بقول ایسا رویہ ’’قومی مفاد‘‘ کے حصول کی کوششوں میں رکاوٹ بنتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہ ایران کی ہے کہ ایران دیتی ہیں کے لیے اور اس ہیں کہ
پڑھیں:
امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن ختم، سینیٹ اور ایوان نمائندگان نے تاریخی بل منظور کر لیا
عارضی فنڈنگ بل کی منظوری سے یکم اکتوبر سے جاری طویل ترین شٹ ڈاؤن ختم ہوگیا، جس کے باعث لاکھوں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں سے محروم ہونا پڑا اور متعدد وفاقی اداروں کی سرگرمیاں مفلوج ہوگئی تھیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی تاریخ کا سب سے طویل سرکاری شٹ ڈاؤن آخرکار ختم ہوگیا ہے۔ سینیٹ کے بعد ایوان نمائندگان نے بھی حکومتی اخراجات سے متعلق بل منظور کرلیا، جس کے بعد حکومتی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہو جائیں گی۔ امریکی میڈیا کے مطابق ایوان نمائندگان میں 6 ڈیموکریٹس سمیت 222 ارکان نے بل کی حمایت میں ووٹ دیا، جبکہ 2 ریپبلکن سمیت 209 ارکان نے مخالفت کی۔ بل اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔ عارضی فنڈنگ بل کی منظوری سے یکم اکتوبر سے جاری طویل ترین شٹ ڈاؤن ختم ہوگیا، جس کے باعث لاکھوں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں سے محروم ہونا پڑا اور متعدد وفاقی اداروں کی سرگرمیاں مفلوج ہوگئی تھیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق اس بل کے تحت حکومت کے لیے 30 جنوری تک فنڈز فراہم کیے جا سکیں گے، تاکہ مالی سرگرمیاں بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہیں۔ بل کا مقصد غذائی امدادی اسکیموں کی بحالی، تنخواہوں کی ادائیگی اور ائیر ٹریفک کنٹرول نظام کی مکمل بحالی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ اقدام امریکی قانون سازوں کی جانب سے طویل مالی بحران کے خاتمے کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔