Jasarat News:
2025-11-13@08:49:26 GMT

آئینۂ کشمیر!!! کشمیر پر حماقتوں اور مغالطوں کی کہانی

اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251113-03-5
بھارت پانچ اگست 2019 کے بعد سے مسئلہ کشمیر کو یک طرفہ طور پر ختم کرچکا ہے۔ ایسا نہیں کہ بھارت نے پہلی بار مسئلہ کشمیر کی حقیقت سے انکار کیا ہو۔ عرصہ دراز سے بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے کسی معنی خیز عمل کا حصہ بننے سے انکار کی مستقل پالیسی کو ’’اٹوٹ انگ‘‘ کی اصطلاح میں لپیٹ رکھا تھا مگر اٹوٹ انگ کی رٹ لگانے کے باوجود بھارتی حکمران ’’اگر مگر‘‘ کے ساتھ کشمیر پر کسی نہ کسی سمجھوتے کے عمل میں شریک رہ کر عملی طور پر کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرتے رہے ہیں۔ نریندر مودی نے اس پالیسی کی قالین ہی اْلٹ ڈالی ہے اور اب وہ کشمیر کے مسئلے کے وجود ہی سے انکاری ہو کر پاکستان کے ساتھ کسی سفارتی سرگرمی اور مذاکرات سے گریز کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ صرف کشمیر کی متنازع حیثیت سے انکار ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ کشمیریوں کا الگ وجود ثقافت اور شناخت بھی اب داؤ پر لگ چکی ہے۔ بھارت کے اس کوتاہ اندیشانہ اور یک طرفہ نکتہ نظر کے باوجود کشمیر نہ صرف ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے بلکہ اس کی متنازع حیثیت کی حقیقت بھی اپنی جگہ پر قائم ہے۔ اس حوالے سے تحقیقی علمی اور فکری کام بھی جا ری ہے۔ آزادکشمیر عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی کی تازہ تصنیف ’’آئینہ کشمیر‘‘ بھی اسی کام کا ایک تسلسل ہے۔

جسٹس سید منظور حسین گیلانی کی زندگی کا ایک اہم اور ابتدائی حصہ سری نگر میں گزرا۔ علی گڑھ سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کشمیر میں وکالت شروع کی۔ ستر کی دہائی میں ویزے پر آزادکشمیر میں مقیم اپنے والدین اور عزیزو اقارب سے ملنے آئے تو پھر یہیں کے ہو کر رہے۔ عملی زندگی کے سفر میں آزاد جموں وکشمیر عدالت عظمیٰ کے قائم قام چیف جسٹس تک جا پہنچے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ سیاسی مبصر اور کالم نگار کے طور پر بھی متحرک ہیں۔ جسٹس گیلانی کی تازہ تصنیف مسئلہ کشمیر کے تاریخی پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے حال اور مستقبل کے منظرنامے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ مصنف جب ماضی میں جھانکتے ہیں تو پاکستان کی کشمیر پالیسی پر قدم قدم پر جھول اور کمزوریاں نظر آتی ہیں جو قوت ارادی کی کمی سے پھوٹتی ہیں۔ یہ رویے صرف کشمیر کی حد تک ہی غالب نہیں بلکہ پاکستان کے کارپردازان کے یہ رویے خود پاکستان کے ساتھ اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں جس کا نتیجہ اٹھتر سال بعد بھی بے سمتی اور غیر یقینی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ کتاب میں سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، امریکا میں مقیم کشمیری راہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی، پیپلزپارٹی کے راہنما فرحت اللہ بابر، معروف صحافیوں مجیب الرحمان شامی، حبیب اکرم، سابق بیوروکریٹ افضل علی شگری، سابق سفیر ڈاکٹر شاہد حشمت اور آزاد منش کشمیری دانشور مرتضیٰ شبلی کے تبصرے بھی شامل ہیں۔ ان میں خورشید قصوری چونکہ مسئلہ کشمیر کے ایک اہم موڑ کے واقف حال اور چشم دید گواہ ہیں اس لیے ان کے تبصرے کے اندر کئی خبریں اور انکشافات موجود ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب مشرف من موہن پیس پروسیس کے تحت دونوں ممالک کشمیر پر ایک حتمی سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے کہ پاکستان میں وکلا تحریک نے سارا منظر بدل ڈالا اور یوں یہ لمحہ جسے دونوں ملکوں کی قیادت ہاتھ میں لینے کے قریب پہنچ چکی تھی بہت دور چلا گیا اور پھر لمحہ ٔ موجود کا وہ پنچھی اتنا دور نکل گیا کہ دوبارہ ہاتھ نہ آسکا۔

خورشید محمود قصوری نے اس سمجھوتے کے گیارہ نکات بیان کیے ہیں جس کو عرف عام میں مشرف کا چار نکاتی فارمولہ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام نکات اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ اس کے بعد مسئلہ کشمیر کا حتمی یا کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل محض چند گام کی دوری پر رہ جاتا ہے۔ اس پر من وعن عمل سے کشمیر حقیقت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے میدان کے بجائے دوستی کا ایک پل بنتا ہو نظر آرہا ہے۔ شاید خطے کی سیاست کو کنٹرول کرنے والی طاقتوں کو اس مرحلے پر برصغیر میں ایسا آئیڈیل ماحول درکار نہیں تھا۔ خورشید قصوری کے بیان کردہ نکات میں نواں نکتہ منقسم کشمیر کی ممکنہ خدوخال کو ظاہر کر رہا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایل او سی۔۔۔ نقشے پر ایک خط؛ بھارت کے اس موقف پر کہ سرحد تبدیل نہیں ہو سکتی پاکستان نے یہ جواب دیا کہ اس صورت میں سرحد کشمیریوں کے مابین موجود نہیں رہے گی اور یہ کہ ان کے لیے ایل او سی کے دوسری جانب سفر کرنے کی غرض سے ویز ایا پاسپورٹ ضروری نہیں ہوگا۔ اس طرح عملی طور پر ایل او سی نقشے پر ایک خط کے طور پر موجودہوگی‘‘۔

عملی طور پر معاملات خورشید قصوری کے اس بیان کردہ نکتے ہی کے تحت جاری تھے کیونکہ کشمیر کے منقسم خاندانوں کو ویزے پاسپورٹ کی پابندی سفر کی آزادی حاصل ہو چکی تھی اور کنٹرول لائن ان کے لیے حد ِ متارکہ جنگ یا محض ایک لکیر تھی جس کو عبور کرنے کے لیے انہیں محض مقامی انتظامیہ کی سفری دستاویزات درکارہوتی تھیں۔ اس سے یہ افسوسناک حقیقت بھی سامنے آتی ہے یہ سارا عمل اب رول بیک ہوچکا ہے۔ جسٹس گیلانی نے اپنی کتاب میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مختلف ادوار میں زیر گردش تجاویز کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ کتاب میں خورشید قصوری کے موقف کو بھارتی سفارت کار جتندر لانبا کی کتاب’’امن کی تلاش‘‘ کے اس اقتباس سے بھی تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاہدہ دستخطوں کے لیے تیار تھا لیکن دونوں ملکوں کے لیڈروں کی اقتدار سے محرومی کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہو سکا۔ مودی نے برسر اقتدار آنے کے بعد اس عمل کو آگے بڑھانے کی یوں کوشش کی کہ انہوں نے 2017 میں انہی جتندر لامبا کو وزیر اعظم نوازشریف کے نام ایک ذاتی خط دے کر پاکستان بھیجا اسی عرصہ کے دوران مودی کا خصوصی ایلچی اپنا جہاز لے کر نواشریف سے ملنے چلا گیا۔ جس کے بعد ایک ہی کام کے لیے دو نمائندوں کے ملنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔ جسٹس گیلانی کی کتاب میں انکشاف کیا گیا۔ یہ آمدو رفت بھی ایک معاہدے کا مسودہ لے کر جاری تھی۔ اس معاہدے کا مسودہ نریندر مودی نے بھی دیکھا تھا۔ ایس کے لانبا کے مطابق سب کچھ ختم نہیں ہوا۔ امکانات موجود ہیں اصول اور معاہدے کا مسودہ بھی موجود ہے جو دونوں اطراف جب محسوس کریں اس پروسیس کو بحال کر سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں جسٹس گیلانی پرامید ہیں کہ پاکستان میں ایک مستحکم نظام حکومت قائم ہوتے ہی حالات دوبارہ اسی نہج کی طرف جا سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ غیر مستحکم پاکستان کے ساتھ اپنے دوست بھی مطمئن نہیں دشمن کہاں ہوسکتے ہیں اس لیے پاکستان میں مفاہمت کی فضا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

عارف بہار سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: مسئلہ کشمیر کے جسٹس گیلانی پاکستان کے گیلانی کی کتاب میں کشمیر کی کے ساتھ کے بعد کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

فرقان قریشی کو ایوارڈ میں کس تلخ تجربے کا سامنا رہا؟ اداکار نے کہانی سنادی

اداکار فرقان قریشی نے ایک ایوارڈ شو  کے دوران تلخ تجربے کی کہانی مداحوں کو سنادی۔اداکار فرقان قریشی حال ہی میں انہوں نے اپنے کیرئیر سمیت مختلف اور دلچسپ موضوعات پر گفتگو کی۔دوران شو فرقان قریشی نے ایک ایوارڈ شو کے دوران ریڈ کارپٹ پر تضحیک آمیز ذاتی تجربے کی کہانی بھی مداحوں کو سنائی۔فرقان قریشی نے بتایا کہ ’ایک مرتبہ  ٹی وی کے ایوارڈ شو کیلئے مجھے مدعو کیا گیا تھا، یہ وہ وقت تھا جب مجھے کوئی پروجیکٹ نہیں مل رہا تھا جب میں ایوارڈ شو کیلئے  پہنچا تو اپنی کم علمی کی وجہ سے ریڈ کارپٹ مس کردیا، اگرچہ ایک اداکار کیلئے ریڈ کارپٹ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن مجھے اس حوالے سے نہیں پتا تھا‘۔انہوں نے کہا کہ ’جب میں نے یہ بات اداکار عثمان خالد بٹ کو بتائی تو  انہوں نے مجھے کہا آؤ میں تمہیں ریڈ کارپٹ کی سائیڈ  لے چلتا ہوں، جب ہم ریڈ کارپٹ پر پہنچے تو  چونکہ عثمان خالد بٹ  زیادہ مشہور اداکار ہیں، فوٹوگرافرز نے ان کو دیکھ کر صرف ان کی  تصویریں بنانا شروع کردیں جس پر عثمان خالد نے مداخلت کرتے ہوئے فوٹوگرافر کو  خود بتایا کہ میری نہیں فرقان کی تصویریں بنوانی ہیں، اس کے باوجود بھی فوٹوگرافر نے میری 2 تصویریں بناکر مجھے چلتا کیا‘۔

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین پی سی بی کی سری لنکن کرکٹ ٹیم سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • وقت گزرنے سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو سلب نہیں کیا جا سکتا، ڈاکٹر فائی
  • حق خودارادیت کے حصول تک جدوجہد جاری رہے گی، غلام محمد صفی
  • استثنیٰ کی کہانی
  • مل کر بیٹھیں گے تو مسئلہ کا حل نکلے گا : گورنر فیصل کریم کنڈی
  • ہم مل کر نہیں بیٹھیں گے تو مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا: گورنر فیصل کریم کنڈی
  • عامر رشید کبھی کشمیر سے باہر گیا ہی نہیں، دہلی کار دھماکہ کیساتھ اسکا کوئی تعلق نہیں، اہل خانہ
  • بچوں کو مطالعہ کرنے والا کیسے بنایا جائے؟
  • فرقان قریشی کو ایوارڈ میں کس تلخ تجربے کا سامنا رہا؟ اداکار نے کہانی سنادی