Jasarat News:
2025-11-11@23:26:34 GMT

سوڈان کی جلتی دھرتی، انسانیت کی آخری پکار

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-6

 

دلشاد عالم

سوڈان، افریقا کے دل میں ایک سرزمین ہے جو کبھی زرخیزی، ثقافت اور امن کی علامت تھی، مگر آج وہی دھرتی آگ، راکھ اور چیخوں کا مرقع بن چکی ہے۔ نیل کے کنارے بسنے والا یہ ملک، جو کبھی تہذیبوں کے سنگم کی پہچان تھا، اب انسانی المیے کا استعارہ بن چکا ہے۔ افریقا کے وسط میں دھڑکتا یہ دل اب زخموں سے چور ہے، جلتے گاؤں، بھاگتے قافلے اور ماؤں کی آنکھوں میں ٹھیرے ہوئے خوف اس قوم کی داستانِ درد بیان کرتے ہیں۔ دارفور، جو کبھی زندگی کا مسکن تھا، آج موت اور محرومی کا دوسرا نام ہے۔ دنیا کے شور و شر میں شاید اس کی صدائیں دب گئیں مگر زمین کے ہر ذرے میں اب بھی وہ کہانیاں دفن ہیں جو انصاف، بقا اور انسانیت کی تلاش میں لکھی جا رہی ہیں۔ سوڈان کی جنگ کی جڑیں اْس وقت پیوست ہوئیں جب اقتدار، زمین اور نسلی تفریق نے ایک قوم کو بانٹ دیا۔ 1956 میں آزادی کے بعد سے ہی سوڈان میں طاقت کی کشمکش جاری رہی، شمال میں عرب و مسلم اکثریت تھی، جبکہ جنوب میں افریقی و عیسائی اقلیت۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دہائیوں پر محیط خانہ جنگی کے بعد 2011 میں جنوبی سوڈان الگ ملک بن گیا۔ لیکن امن پھر بھی نہ آیا، کیونکہ مغرب میں دارفور کے علاقے میں ایک نیا طوفان اٹھ چکا تھا۔ وہاں کے باشندے مرکزی حکومت کی ناانصافی، وسائل کی ناہموار تقسیم اور نسلی امتیاز سے تنگ آ چکے تھے۔

2003 میں دارفور کے باشندوں نے مساوی حقوق کے لیے ہتھیار اٹھائے۔ ’’سوڈان لبریشن آرمی‘‘ (SLA) اور ’’جسٹس اینڈ ایکوالٹی موومنٹ‘‘ (JEM) نے بغاوت کی، جس کے جواب میں حکومت نے عرب ملیشیا ’’جنجاوید‘‘ کو مسلح کیا۔ یوں وہ جنگ شروع ہوئی جسے دنیا نے ’’لینڈ کروزر وار‘‘ کا نام دیا، کیونکہ ٹویوٹا لینڈ کروزرز پر مشین گنز لگا کر جنجاوید کے جنگجوؤں نے گاؤں کے گاؤں جلا دیے۔ انسان، کھیت اور خواب، سب ایک ہی آگ میں جل گئے۔ دارفور کا یہ تنازع بندوقوں یا گاڑیوں کا نہیں بلکہ صدیوں پرانے نسلی، لسانی اور سیاسی تصادم کا نتیجہ تھا۔ ایک جانب عرب النسل گروہ تھے جو اقتدار کے قریب رہے، جبکہ دوسری طرف نان عرب افریقی قبائل، جو ہمیشہ محرومی کا شکار رہے۔ جب باغیوں نے 2003 میں الفاشر ائربیس پر حملہ کر کے حکومتی طیارے تباہ کیے تو حکومت نے عرب ملیشیا جنجاوید کو کھلی چھوٹ دے دی۔ دارفور کے گاؤں جل گئے، عورتوں کی عصمت دری ہوئی، لاکھوں لوگ مارے گئے، اور تین ملین سے زائد بے گھر ہوئے۔

صدر عمر حسن البشیر کے خلاف بین الاقوامی عدالت ِ فوجداری نے نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، مگر اقتدار کے ایوانوں میں کوئی لرزہ نہ آیا۔ وقت گزرتا گیا، حکومتیں بدلتی رہیں، لیکن دارفور کی آنکھوں میں آنسو جوں کے توں رہے۔2019 میں جب عوام نے ظلم اور مہنگائی کے خلاف آواز بلند کی، تو عمر البشیر کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ 11 اپریل 2019 کو وہ معزول کر دیا گیا۔ مگر امن کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی افق پر ایک نیا اندھیرا چھا گیا۔ فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کے کمانڈر محمد حمدان دقلو المعروف حمیدتی کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی۔ فوج چاہتی تھی کہ RSF کو ضم کر کے ایک قومی فوج بنایا جائے، لیکن حمیدتی اپنی خودمختاری پر بضد رہا، کیونکہ اسی میں اس کی طاقت اور دولت تھی۔ 2023 میں دونوں گروہوں کے درمیان شدید لڑائی چھڑ گئی، اور سوڈان ایک نئی خانہ جنگی میں ڈوب گیا۔

آج خرطوم سے لے کر دارفور تک ہر گلی میں بارود کی بو ہے، ہر بستی میں ماتم ہے۔ لاکھوں لوگ چاد، جنوبی سوڈان اور وسطی افریقا کی طرف ہجرت پر مجبور ہیں۔ وہی لینڈ کروزرز جو کبھی طاقت کی علامت تھیں، اب موت کے قافلے بن چکی ہیں۔ بچے خیموں میں جنم لیتے ہیں، مائیں اپنے گمشدہ بیٹوں کے انتظار میں پتھر ہو گئی ہیں، اور بوڑھے اپنی بستیوں کے ملبے پر بیٹھے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے مذمتی بیانات جاری کرتے ہیں، مگر دارفور کے بچے اب بھی خاک میں کھیلتے ہیں۔ عورتیں اب بھی اپنی شناخت تلاش کر رہی ہیں۔ مرد اب بھی ہجرت کے راستے پر لاشیں دفنا رہے ہیں۔ سوڈان کی جنگ کا حل صرف ایک ہے، انصاف۔اقتدار اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ناگزیر ہے۔ دارفور، کردفان اور دیگر خطوں کو فیصلہ سازی میں حقیقی نمائندگی دینی ہوگی۔ جنگی جرائم کے تمام ذمے داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا تاکہ مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔ علاقائی اور عالمی طاقتوں کو سیاسی چالوں کے بجائے امن کی دیانت دار کوشش کرنا ہوگی۔

دارفور کی آزمائش یہ بتاتی ہے کہ امن بندوق سے نہیں آتا، انصاف اور شراکت سے آتا ہے۔ جب تک زمین، پانی، وسائل اور اقتدار میں برابری نہیں ہوگی، تب تک کوئی امن دیرپا نہیں ہو سکتا۔ سوڈان کے دارفور میں آج بھی زمین پیاسی ہے، مگر پانی نہیں، خون سے تر ہے۔ مگر شاید اب بھی زندگی کی ایک کرن باقی ہے، وہ کرن جسے ظلم نے دبایا، مگر بجھا نہیں سکا۔ وہ دن ضرور آئے گا جب یہ جلتی ہوئی زمین دوبارہ سبز ہو گی، جب جنجاوید کی بندوقیں خاموش ہوں گی، جب بچوں کے ہاتھوں میں ہتھیار نہیں کتابیں ہوں گی، اور جب دارفور کے لوگ اپنے لہجے میں ایک نئے سورج کا نام لیں گے۔ یہی دن انصاف کا دن ہوگا، اور یہی دن اس خاموش سرزمین کی نئی صبح کا آغاز کرے گا۔

دلشاد عالم.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دارفور کے جو کبھی اب بھی

پڑھیں:

سوڈان کا المیہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-03-6

 

قاسم جمال

مسلمان ابھی غزہ پر ہونے والے ظلم وستم پر غمزدہ اور کرب میں مبتلا ہیں کہ سوڈان میں ایک اور انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اس وقت سوڈانی آرمی SAF اور ریپڈ سپورٹ فورس یعنی RSF حالت ِ جنگ میں ہیں۔ دونوں کی لڑائی نے ملک کو جہنم میں بدل دیا ہے۔ کئی شہر جل کر راکھ ہوگئے، گاؤں تباہ اور بارہ ملین سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ سوڈانی آرمی کو مبینہ طور پر ترکی ومصر سپورٹ کر رہا ہے۔ یوں یہ سونے کے ذخائر پر قبضے کی جنگ پراکسی میں بدل چکی ہے۔ اور اب اس جنگ میں آر ایس ایف والے نہتے سوڈانیوں خصوصاً غیر عربی قبائل کی نسل کشی پر اُتر آئے ہیں۔ دارفور میں بدترین نسل کشی کے ساتھ اب غزہ کی ہی طرز پر سوڈان سفاک ریپڈ فورس کے گھیرے بلکہ قبضے میں ہے۔ لاشیں سڑکوں پر پڑی گل سڑ رہی ہیں اور زندہ لوگ بھوک کے ہاتھوں غیر انسانی خوراک کھانے پر مجبور ہیں۔ شدید قتل و غارت اور قحط کی حالت ایسی ہی رہی تو خطرناک انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ عرب امارات سونے کی خاطر سوڈانیوں کی اس خانہ جنگی میں اسلحہ دے کر نہتے عوام کے قتل عام کا ذمے دار بن رہا ہے۔ اس سے صاف سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان بے ضمیروں کو غزہ نسل کشی سے کوئی مسئلہ کیوں نہیں تھا۔ کیوں یہ اسرائیل کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ سب ایک ہی جیسے ہیں۔ بس نام اور حلیہ مختلف ہیں۔ اللہ مسلمانوں پر رحم کرے۔ سوڈان میں قیامت صغریٰ برپا ہے۔ نہتے لوگ بھوک، گولی اور آگ کے درمیان پس رہے ہیں۔ شہر ویران، لاشیں گل سڑ گئیں، اور دنیا خاموش ہے!

یہ جنگ طاقت یا سیاست کی نہیں لالچ، سونا، اور بے ضمیری کی جنگ ہے۔ کاش انسانیت جاگ جائے۔ اللہ سوڈان کے مظلوم مسلمانوں پر رحم فرمائے۔ آر ایس ایف کے جنگجو نے شہر پر قبضے کے دوران والدین کے سامنے ان کے بچوں کو قتل کیا اور شہریوں کو محفوظ مقامات پر جانے سے روک دیا گیا۔ الفاشر میں اجتماعی قتل عام، لوٹ مار اغواء کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ 65 ہزارسے زائد افراد شہر سے نکل چکے ہیں اور ہزاروں افراد اب بھی محصور ہیں۔ موجودہ صورتحال قیامت خیز ہے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔ جنگجو نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا اور اب تک دو ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور سوڈان میں یہ خانہ جنگی مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ خوراک اور ادویات کی قلت نے انسانی المیہ پیدا کردیا ہے۔ سوڈان میں اس وقت بلاشبہ غزہ سے بڑا المیہ پیدا ہوچکا ہے اور سوڈان میں قیامت برپا ہے۔ سوڈان کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے اور اس وقت تین کروڑ سے زائد افراد کو فوری غذائی امداد کی ضرورت ہے۔ 96 لاکھ سے زائد افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوچکے ہیں۔ سوڈان کے علاقے خرطوم، دارفور، کورڈوفان اور الفاشر وغیرہ میں خانہ جنگی تیسرے سال میں داخل ہوچکی ہے۔ ان علاقوں میں قحط، بیماریوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا وسیع پیمانے پر سلسلہ جاری ہے۔ سوڈان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ قحط کا ہے۔ بھوک اس وقت تباہ کن سطح پر پہنچ چکی ہے۔ فوری طور پر غذائی امداد نہ ملنے کی صورت میں ہزاروں افراد موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔

اس وقت ضرورت ہے کہ پوری امت مسلمہ سوڈان کے مسئلے پر آواز بلند کرے۔ محض دو جرنیلوں کی اقتدار کے لیے ہونے والی اس لڑائی کی وجہ سے۔ سوڈان میں انسانی المیہ اور غذائی بحران سر اٹھا رہا ہے۔ دو جرنیل عبد الفتاح برہان اور حمدان دوقلو اقتدار، سونا اور معدنیات کے ذخائر پر قبضے کے لیے آپس میں لڑرہے ہیں۔ جو کبھی فوجی گروپ تھے اب وہ سونے اور دولت پر قابض مسلح فورس بن چکے ہے۔ متحدہ عرب امارات یہاں سے سستا سونا حاصل کررہا ہے۔ سعودی عرب، مصر کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ جس کے لیے سوڈان کو خون میں نہلادیا گیا ہے۔ اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد جانیں جا چکی ہیں۔ سونے کی لالچ میں مسلمان مسلمان کی جان کا دشمن بن چکا ہے اور ایک دوسرے کو مارا کاٹا جارہا ہے۔ 2003 سے شروع ہونے والی اس خانہ جنگی نے اب مکمل طور پر بغاوت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ سوڈان کی فوجی حکومت کے حریف دو دھڑوں کے درمیان مسلح تصاوم اور آپس میں شدید لڑائی نے سوڈان کو مقتل میں تبدیل کردیا ہے اور پورا سوڈان آج جل رہا ہے۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے کے بجائے سوڈان میں لگی آگ کو بجھائے ورنہ یہ آگ انہیں بھی جلاکر راکھ کردے گی۔

قاسم جمال

متعلقہ مضامین

  • اگر حور ہو یا پری گلے کا ہار بن جائے تو…
  • سوڈانی فوج کی دارفور میں پیش قدمی، آر ایس ایف کو شکست دینے کا اعلان
  • اسرائیل کی انسانیت دشمنی: غزہ میں بچوں کی ویکسینیشن کے لیے استعمال ہونے والے سامان کا داخلہ روک دیا
  • سوڈانی فوج کے دارفور میں باغی فورسز پر حملے
  • غزہ، انسانیت کا امتحان
  • سوڈان کا المیہ
  • سوڈان کا ماتم: مسلم آبادی پر تباہی، بیرونی مفادات اور مستقبل کا ممکنہ منظرنامہ
  • مجوزہ ترامیم کے بعد اگر عمران خان الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آ بھی جائیں تو کچھ نہیں کر پائیں گے،نجم سیٹھی
  • سوڈان کے شہر الفاشر میں قتل و غارت کی انتہا، اقوام متحدہ کا اظہارِ تشویش