Jasarat News:
2025-11-13@08:49:26 GMT

دہلی و اسلام آباد کے زخم: پس ِ پردہ کون ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251113-03-3
پچھلے دو روزہ واقعات نے جنوبی ایشیا کو ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا کر دیا ہے جہاں ہر واقعہ محض ایک بم یا شعلہ نہیں بلکہ وسیع الجہت سیاسی، عسکری اور سفارتی گردشوں کا نتیجہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔ 10 نومبر بروز پیر نئی دہلی کے لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب کار دھماکے میں کئی شہری ہلاک ہو گئے، اور اس کے اگلے ہی دن 11 نومبر کو اسلام آباد کے ضلعِ کچہری کے قریب ہونے والے دھماکے میں متعدد افراد شہید و زخمی ہوئے یہ واقعات وقت، مقام اور نوعیت کے اعتبار سے بیک وقت وقوع پذیر ہو کر نہ صرف دونوں دارالحکومتوں کے عوام میں خوف و اضطراب پیدا کر رہے ہیں بلکہ خطے کی خراب ہوتی ہوئی سلامتی کی تصویر کو بھی واضح کر رہے ہیں۔ پہلا سوال جو ہر ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کس کا ہاتھ ہے؟ ابتدائی انٹیلی جنس اور میڈیا رپورٹس میں اسلام آباد دھماکے سے قبل افغانستان سے مشابہ نوعیت کی سوشل میڈیا پوسٹس کا حوالہ دیا گیا بعض اکاؤنٹس پر ’Coming soon Islamabad‘ جیسے پیغامات منظر عام پر آئے، اور مختلف طالبان منسلک آن لائن پروفائلز نے دھمکی آمیز بیانات شایع کیے۔ اسی طرز کی اطلاعات اور تشویش نے پاکستان کی سرکاری قیادت کو اس نتیجے پر پہنچایا کہ واقعہ بیرونی عناصر یا بین الاقوامی روابط رکھنے والی پراکسی نیٹ ورکنگ کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ تاہم فیکٹ اور الزام عائد کرنا دو الگ عمل ہیں فوجداری تحقیقات، سی سی ٹی وی، فورینزک تجزیہ اور بین الاقوامی انٹیلی جنس تعاون کے بغیر حتمی نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاک بھارت تعلقات میں تشدد و پراکسی مداخلت کا سانچہ نیا نہیں۔ کشمیر، سرحدی جھڑپیں، اور متنازع عسکری حمایت کے الزامات نے کئی بار دونوں ملکوں کو عالمی سطح پر تنائو کے قریب پہنچایا ہے۔ مگر اس بار واقعات کی بیک وقت اور دارالحکومتوں کو ہدف بنائے جانا ایک مختلف اور خطرناک پیغام لیے ہوئے ہے کہ یہ محض علاقائی دہشت گردی کا عمل نہیں بلکہ معلوماتی اور نفسیاتی جنگ کی ایک کڑی بھی ہو سکتی ہے جس کا مقصد عوامی حوصلہ پست کرنا، داخلی سیاسی اجزاء کو کمزور کرنا اور دو ایٹمی قوتوں کے مابین سرد جنگ کو گرم تقابل میں تبدیل کرنا ہے۔ داخلی سیکورٹی کے تناظر میں پاکستان کو فوری طور پر تین سطحی حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ؛ ۱۔ شہری سطح پر فوری حفاظتی اقدامات اور عدالتی مراکز، تعلیمی اداروں و عوامی جگہوں کی سخت حفاظت؛ ۲، انٹیلی جنس شیئرنگ کے تقاضے پورے کر کے افغانستان اور دیگر ملکوں کے ساتھ بین الاقوامی تعاون؛ اور ۳۔ دہشت گردی کے بنیادی سبب یعنی عسکریت پسندی کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے طویل المدت سماجی و معاشی اصلاحات۔ صرف عسکری ردعمل ہی محدود کامیابی دلا سکتا ہے؛ اس کے بغیر پائیدار امن ناممکن رہے گا۔

بھارت کے لیے بھی تنبیہ واضح ہے کہ اگرچہ ہر ملک کو اپنے اندرونی سیکورٹی چیلنج درپیش ہوتے ہیں، مگر سرحد پار پراکسیز کے ذریعے اثراندازی یا کسی بھی شکل کی کارروائی خطے کی سلامتی کے لیے تیل پر آگ ڈالنے کے مترادف ہے۔ عالمی برادری نے ماضی میں متعدد مواقع پر اس خطے میں شواہد کی بنیاد پر ثالثی اور تحقیقات کی حمایت کی؛ موجودہ حالات میں شواہد کی شفاف پیشکاری، مشترکہ تحقیقات اور بین الاقوامی تفتیشی میکانزم کی شمولیت ہی تنازعے کو مزید بڑھنے سے روک سکتی ہے۔ معاشی و سماجی اثرات بھی شدت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ خوف و عدم استحکام سرمایہ کاری کو روکے گا، تجارت متاثر ہوگی، اور طویل المدت ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ شہری عوام کا معمولی نقل و حرکت متاثر ہونا، تعلیمی اداروں کا عارضی بند ہونا، اور روزمرہ کی زندگی میں اضافہ شدہ حفاظتی لاگت ایک معاشی بوجھ کے طور پر ظاہر ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر عوامی عزم کمزور پڑا اور خوف غالب آیا تو اس کا ثمر وہی ہوتا ہے جو دہشت گرد چاہتے ہیں کہ سماجی شقاق اور ریاستی کارکردگی میں کمی۔ بین الاقوامی سطح پر صورتحال کا تسلسل خاص طور پر خطرناک ہے کیونکہ دونوں اطراف کے ردعمل میں غلط فہمی یا تندی کسی بھی لمحے عملیاتی محاذ پر بدل سکتی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کا وجود کسی بھی محاذ آرائی کو محدود نہیں کرتا بلکہ اس کے خطرات کو ناقابل ِ تصور حد تک بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے سفارتی چینلوں کو کھلا رکھنا، اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ذریعے جلد از جلد ثالثی کے راستے تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ شورش کو قابو میں لایا جا سکے اور مستقبل میں باہمی اعتماد کے لیے ساختی اقدامات کیے جائیں۔

آخرکار، شواہد اور ذمے داری کی تصدیق کے لیے پیش کیے گئے تمام بیانات اور الزامات کو ایک آزاد، شفاف اور بین الاقوامی شراکت داروں کی موجودگی میں جانچا جانا چاہیے۔ حقائق سامنے آئیں گے تو مناسب قانونی اور سفارتی ردعمل ممکن ہوگا؛ مگر اس سے پہلے جو کام ہر شہری اور ہر ریاستی ادارے کر سکتا ہے وہ ہے ضبط ِ نفس، فوری طبی و امدادی کارروائی، اور وہ اجتماعی کوششیں جن سے دہشت گردی کے جڑواں مسائل عدم روزگار، سرحدی بے قاعدگیاں، اور انتہا پسندی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ بصورتِ دیگر، ایک چھوٹی سی چنگاری بڑے پیمانے پر بھڑک سکتی ہے اور دونوں ملکوں کے عوام، خطے کی معیشت اور بین الاقوامی امن بھاری قیمت چکا سکتے ہیں۔

سیف اللہ ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور بین الاقوامی سکتی ہے کے لیے

پڑھیں:

امن جرگہ،دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو بند کمروں سے نکل کر فیصلے کرنا ہونگے،وزیراعلیٰ پختونخوا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251113-01-11
پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے ہماری کوشش امن کے لیے ہے، بند کمروں سے نکل کر سیاستدانوں کے ساتھ ملکر فیصلے ہوں گے تو دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا، عوام، سیاستدان ، سیکورٹی فورسز سب نے دہشتگردی کیخلاف قربانیاں دی ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں امن جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کا کہنا تھا ہماری کوشش امن کے لیے ہے، دہشتگردی کے ناسور کے خلاف کے جرگے میں پائیدار حل نکلے گا، امن تب قائم ہوگا جب دہشتگردی کا خاتمہ ہو گا۔ ان کا کہنا تھا ہمیں بند کمروں سے نکل کر سیاستدانوں کے ساتھ مل کر فیصلے کرنے ہوں گے اور دہشتگردی کے خلاف طویل المدتی پالیسی اپنانی ہو گی۔ سہیل آفریدی کا کہنا تھا سب نے قربانیاں دی ہیں، این ایف سی شیئر 400 ارب روپے بنتے ہیں ہمیں نہیں مل رہے ہیں، اگر ایک فیصد دہشتگردی کے باعث ملتا ہے تو کسی کو اس کا پوچھنے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست ہر ایک کی اپنی اپنی ہے لیکن امن ہمارا مشترکہ ہے، جب بم پھٹتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ مرنے والا پی ٹی آئی کا ہے یا پیپلز پارٹی کا، یہاں بیٹھے ہر فرد نے قربانی دی ہے، دہشت گردی کیخلاف عوام، سیاستدان اورسکیورٹی فورسز سب نے قربانیاں دی ہیں، سب نے قربانیاں دی تو 2018 میں امن قائم ہوا تھا، ابھی ایک دفعہ پھر دہشتگردی سر اٹھا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا پاک افغان مذاکرات کو ہم نے خوش آئند قرار دیا ہے، ہماری کوشش امن کے لیے ہے، جنگ آخری آپشن ہونا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا تھا ہم بار بار امن کی بات کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگوں کو برا لگتا ہے، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بند کمروں کے فیصلے ہم پر مسلط ہوتے آئے ہیں، ان فیصلوں سے ابھی تک دہشتگردی ختم نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا ہم چاہتے تھے کہ اس پالیسی میں شفٹ آنا چاہیے، وہ شفٹ بند کمروں سے نکل کر آئے گا، سیاستدانوں، سیکورٹی فورسز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بیٹھا کر پالیسی بنائی جائے، اگر پھر اس پالیسی پر عملدرآمد ہوگا تو کوئی حل نکلیگا، وہ پالیسی پھر تمام لوگوں کو قابل قبول ہوگی اور خیبر پختونخوا سے دہشتگردی کا ناسور مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔

مانیٹرنگ ڈیسک سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • امن جرگہ،دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو بند کمروں سے نکل کر فیصلے کرنا ہونگے،وزیراعلیٰ پختونخوا
  • وقت گزرنے سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو سلب نہیں کیا جا سکتا، ڈاکٹر فائی
  • گالی گلوچ نہیں، اختلاف اپوزیشن کا حق، ملکی خوشحالی کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا: شہباز شریف
  • غزہ کا محاصرہ دراصل امت کی بے حسی کا پردہ فاش کر رہا ہے، علامہ جواد نقوی
  • ہم مل کر نہیں بیٹھیں گے تو مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا: گورنر فیصل کریم کنڈی
  • بھارتی جھوٹ کا پول کھل گیا، عوام نے سوشل میڈیا پر مودی سرکار کے فالس فلیگ ڈرامے کا پردہ فاش کر دیا
  • اذان سمیع خان کیسی خاتون سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ اداکار نے دل کی بات بتادی
  • دشمن ملک کے امن کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، سرفراز بگٹی
  • شادی شدہ پروڈیوسر نے کس کام کیلئے مجبور کیا؟ اداکارہ نے شرمناک راز سے پردہ اٹھادیا