Express News:
2025-11-15@21:41:03 GMT

خطے پر تسلط، صیہونیوں کا صدی پرانا خاکہ

اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT

مسئلہ فلسطین کوئی اچانک پیدا ہونے والا تنازع نہیں، بلکہ ایک صدی پرانی منصوبہ بندی کا تسلسل ہے۔ صیہونیوں نے فلسطین پر قبضے اور خطے پر تسلط کے لیے اپنی تحریک کا آغاز بہت پہلے کر دیا تھا، اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو ہمیں نپولین بونا پارٹ کے دور میں بھی یہ نظریہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں کے لیے ایک علیحدہ وطن قائم کیا جائے۔

نپولین اگرچہ اس خواب کو پورا نہ کر سکا، لیکن صیہونی تحریک نے برطانوی استعماری طاقتوں کے سہارے اسے حقیقت کا روپ دیا اور یوں 1948 میں اسرائیل نامی غاصب ریاست وجود میں آگئی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب غرب ایشیاء کی تاریخ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ خطے میں جنگ، قبضے، بربادی اور عدم استحکام کا جو سلسلہ شروع ہوا، وہ آج تک جاری ہے۔ فلسطین پر قبضے سے بہت پہلے صیہونیوں نے ایک جامع منصوبہ بندی کر لی تھی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ 1919 میں پیرس امن کانفرنس کے دوران صیہونی رہنماؤں نے ایک نقشہ پیش کیا جس میں اُن کی مجوزہ گریٹر اسرائیل کی سرحدیں واضح طور پر دکھائی گئی تھیں۔ یہ سرحدیں جنوب میں مصر کے صحرائے سینا سے لے کر شمال میں لبنان کے دریائے عوالی تک پھیلی ہوئی تھیں۔

یہ محض ایک تصوراتی تجویز نہیں تھی بلکہ مستقبل کی جارحانہ پالیسیوں کا خاکہ تھا۔صیہونی رہنما جانتے تھے کہ اگر انھیں اپنے وجود کو مستحکم رکھنا ہے تو انھیں توسیع در توسیع کے عمل کو جاری رکھنا ہوگا۔

یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد ہونے والی تمام جنگیں چاہے وہ 1948، 1967 یا 1982 کی ہوں، دراصل اسی 1919 کے توسیعی نقشے کے تسلسل میں شروع کی گئی تھیں۔

توسیع پسندی کی عملی شکل اس وقت سامنے آئی جب 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، دریائے اردن کے اہم ذرائع اور شام کے آبی وسائل پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں، 1978 اور 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملے کیے اور بیروت تک پیش قدمی کی۔

ان حملوں کا مقصد محض فوجی کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ خطے کے قدرتی وسائل، خاص طور پر پانی پرکنٹرول حاصل کرنا تھا۔ جیسا کہ 1919 کے نقشوں میں دریاؤں پر قبضہ کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی کی گئی تھی۔

غاصب صیہونیوں کی جانب سے شروع کی جانے والی یہ جنگیں کسی دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ نہیں تھیں بلکہ جارحانہ عزائم کا عملی اظہار تھیں، وہی عزائم جو 1919 کے نقشے میں درج تھے۔

اسرائیل نے لبنان میں طویل قبضہ برقرار رکھا، اس کے وسائل کا استحصال کیا اور سلامتی کے نام پر دراصل زمین پر قبضہ جمایا۔واشنگٹن اور تل ابیب کے گٹھ جوڑ سے وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے توسیع پسندانہ منصوبے کو امریکی سرپرستی بھی حاصل ہوتی گئی۔

واشنگٹن اور تل ابیب نے مل کر خطے کو از سرِ نو ترتیب دینے کی حکمت عملی اپنائی۔ امریکا نے اس خطے کے لیے نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا جملہ استعمال کیا تو صیہونی اپنے صدی پرانے منصوبہ یعنی گریٹر اسرائیل کی تکرار کرتے رہے لیکن دونوں کا مقصد ایک ہی تھا کہ اسرائیل کی توسیع کی جائے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان نے کہ اسرائیل بہت چھوٹا ہے، دراصل اسی صہیونی توسیع پسندانہ سوچ کو تقویت دی۔شامی خانہ جنگی کے دوران اسرائیل نے اپنی عسکری موجودگی کو جنوبِ شام تک بڑھایا، گولان کی پہاڑیوں پرگرفت مضبوط کی اور درعا و قنیطرہ کے قریب علاقوں میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔

دوسری جانب، امریکا نے مشرقی شام کے تیل کے ذخائر پرکنٹرول حاصل کر کے اسرائیل کے اس منصوبے کو معاشی پشت پناہی فراہم کی۔لبنان مسلسل دباؤ میں ہے اور لبنان اس وقت اسرائیل کی فوجی جارحیت اور امریکی سیاسی دباؤ کے درمیان گھرا ہوا ہے۔

ایک جانب اسرائیلی بمباری نے جنوبی لبنان کو مسلسل عدم استحکام میں مبتلا کر رکھا ہے، دوسری جانب واشنگٹن بیروت میں اپنے بڑے سفارت خانے کے ذریعے سیاسی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ یہ دباؤ لبنان کو ایک ایسے انتظامی ڈھانچے کی طرف لے جا رہا ہے جو دراصل اسرائیلی سلامتی کے ایجنڈے کے مطابق ہو۔

یہ تمام حالات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایک صدی پہلے بنایا گیا صہیونی منصوبہ آج بھی پوری طرح فعال ہے اور خطے کی سیاست اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ایک نہ ختم ہونے والا خواب جو صیہونی منصوبہ، 1919 میں پیرس کانفرنس میں پیش ہوا تھا، آج بھی اپنی تمام جہتوں کے ساتھ زندہ ہے۔

سرحدیں عارضی ہیں، مگر توسیع ایک مستقل عمل بن چکی ہے۔ اسرائیل کی ہر جنگ، ہر فوجی مہم دراصل اسی صدی پرانے خواب کی تکمیل کی کوشش ہے۔1919 میں جو نقشہ کھینچا گیا تھا، وہ آج خطے کی خون آلود حقیقت بن چکا ہے۔

لبنان، شام، فلسطین سب اسی منصوبے کے تسلسل میں جل رہے ہیں۔ اسرائیل کی جنگیں کبھی دفاع کے لیے نہیں ہوتیں، وہ قبضے کے لیے ہوتی ہیں، اس خواب کی تعبیر کے لیے جو اس غاصب ریاست کے پیدا ہونے سے پہلے ہی شروع ہوا تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود صیہونی منصوبے کے آثار ختم نہیں ہوئے۔ بلکہ اس کی شکلیں اور حربے بدل کر مزید پیچیدہ ہو چکے ہیں۔

اب ضرورت اس امرکی ہے کہ عالمی برادری خطے میں جاری اس توسیع پسندانہ پالیسی کو صرف فلسطین کا مسئلہ نہ سمجھے، بلکہ اسے عالمی امن کے لیے خطرہ تسلیم کرے،کیونکہ جب تک یہ منصوبہ موجود ہے، خطے میں پائیدار امن کا قیام محال ہے، یعنی اسرائیل کا وجود نہ صرف فلسطین کے لیے بلکہ خطے کے تمام ممالک اور اقوام کے لیے سنگین خطرہ بن چکا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل کی اسرائیل نے

پڑھیں:

دنیا کا سب سے مہنگا ویزا کس ملک نے جاری کر رکھا ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بین الاقوامی سفر کا شوق اپنی جگہ پرانتہائی دلکش تجربہ ہے، مگر اس کا سب سے پیچیدہ اور صبر آزما مرحلہ اکثر ویزے کے حصول سے وابستہ ہوتا ہے۔ کاغذی کارروائی، مختلف شرائط اور طویل انتظار کے بعد جب مہر لگتی ہے تو مسافر کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ تاہم، دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جس کا ویزا محض کاغذی مراحل کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی بھاری فیس کے باعث شہرت رکھتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ یہ امریکا ہے، نہ برطانیہ، بلکہ ایک چھوٹا سا ہمالیائی ملک “بھوٹان”ہے۔

رپورٹس کے مطابق بھوٹان کا وزٹ ویزا دنیا کا سب سے مہنگا ویزا تصور کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح یہاں صرف ایک مرتبہ فیس ادا کرنے کا نظام نہیں، بلکہ بھوٹان نے اپنے ویزا کو “سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ فیس (SDF)” کے ماڈل سے منسلک کر رکھا ہے۔ اس فیس کے تحت ہر سیاح کو فی رات 100 امریکی ڈالر ادا کرنا لازمی ہے۔ یعنی جتنا طویل قیام، اتنا زیادہ خرچ گویا قدرتی خوبصورتی دیکھنے کی قیمت بھی خاصی بھاری ہے۔

بھوٹان کے اس منفرد نظام کے پیچھے ایک واضح فلسفہ کارفرما ہے۔ حکومت کی پالیسی ہے کہ ملک میں آنے والے سیاحوں کی تعداد کم ہو لیکن وہ اپنے قیام کے دوران اعلیٰ اخلاقی و ثقافتی اقدار کے ساتھ مقامی ماحول، جنگلات اور روایات کا احترام کریں۔ یہی سوچ بھوٹان کو دیگر سیاحتی ممالک سے ممتاز بناتی ہے، جہاں منفعت سے زیادہ ماحول اور ثقافت کے تحفظ کو ترجیح دی جاتی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بھوٹان نے اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے شہریوں کے لیے اس قاعدے میں نرمی رکھی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی باشندوں کو ویزے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی؛ وہ صرف اپنا قومی شناختی کارڈ دکھا کر داخل ہو سکتے ہیں۔ البتہ ان سے 100 ڈالر کے بجائے 1200 بھارتی روپے بطور فیس وصول کیے جاتے ہیں، جو بھوٹان کے دیگر بین الاقوامی نرخوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔

یوں بھوٹان، جو اپنے پرسکون مناظر، روحانی فضا اور ماحول دوستی کے لیے مشہور ہے، دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے پرکشش مگر مہنگا ترین خواب بن چکا ہے — ایک ایسا ملک جو اپنی سرحدوں کے اندر آنے والے ہر مسافر سے یہ قیمت وصول کرتا ہے کہ وہ صرف زمین نہیں، بلکہ فطرت کی اصل قدر کو محسوس کرے۔

دانیال عدنان ویب ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • قابض صہیونی رژیم خطے پر تسلط قائم رکھنے کیلئے امریکہ کا آلہ ہے، حزب اللہ لبنان
  • زنجیریں
  • سردیوں میں ایڑھیوں کا پھٹ جانا جسم میں کس غذائی کمی کی علامت ہے؟
  • لبنان پر اسرائیلی قبضے نے اقوام متحدہ کو بھی بولنے پر مجبور کردیا
  • 50کروڑ کی حد کو کم کرو بلکہ ختم کرو
  • ہم لبنان میں قیام استحکام کیلئے یورپی تعاون کا خیر مقدم کرتے ہیں، جوزف عون
  • مجھے یہ سال کوئی اچھا نہیں لگ رہا،جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے ریمارکس، بشریٰ بی بی کی ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست میں 19جنوری تک توسیع
  • کراچی؛ ڈمپر کی ٹکر سے نوجوان کی ہلاکت، ہنگامہ آرائی کیس میں لیاقت محسود کی ضمانت میں توسیع
  • دنیا کا سب سے مہنگا ویزا کس ملک نے جاری کر رکھا ہے؟