’’آپ کالم نگار ہیں تو پلیز اس پر ضرور لکھیے، یہ بہت ضروری ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
وہ معصوم سی بچی جو پڑھ پڑھ کر دبلی ہو رہی تھی، اس معصوم سی خواہش کو سونپ کر پھر اپنے فارم کو بھروانے کے جتن پر لگ گئی۔
یہ ایک طویل صبر آزما مرحلہ ہے جو آج کل ہمارے بچے بچیاں ایف ایس سی کے بعد میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز، یونیورسٹیز میں داخلے کے عمل میں گزارتے ہیں اور اس کے بعد ان کے نتائج تک سولی پر لٹکے رہتے ہیں کہ اب خدا جانے کیا رزلٹ نکلے گا۔
ابھی پچھلے سال ہی کی بات ہے کہ کراچی کے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی 1180 نشستوں میں سے چھ سو سے زائد نشستیں غیر مقامی طلبا نے حاصل کی تھیں۔
ان طلبا کے انٹرمیڈیٹ کے نمبر غیر معمولی تھے جب کہ کراچی بورڈ میں پچاس فی صد سے زائد نمبر لینے والے ڈھائی سو طلبا تھے، میڈیکل کی میرٹ لسٹ میں تو تعداد خاصی تھی، گویا کراچی کے بچوں کے مقابلے میں پنجاب، کے پی کے، وفاق، بلوچستان اور اندرون سندھ کے بچے نہ صرف قابل نظر آتے ہیں بلکہ داخلے بھی انھی کو ملے۔
اب اس میں قابلیت کا اصل معیار ہے کیا؟ اس پر بحث کرنا فضول ہے۔کراچی کے بیشتر میڈیکل کالج اور یونیورسٹیز میں یہاں کے آدھے پونے قابل بچوں کے بجائے دیگر علاقوں کے پورے پورے قابل بچے داخلے کے اہل ہیں، اس کی وجہ ڈومیسائل بھی قرار پائی ہے۔
اس کی ایک بڑی مثال کراچی میں ٹاپ نمبر کی امیدوار نے میٹرک اور انٹر اسلام آباد سے کیا تھا، عارضی اور مستقل پتا پنڈی اور ڈومیسائل کراچی کا تھا۔ میڈیکل یونیورسٹی میں اس قابل شاگرد کو شاباش تو ملنی ہی چاہیے جس نے تمام ضروری رموز کو ملحوظ خاص رکھا اور یقینا اس طویل صبر آزما مراحل کے لیے فارم بھروانے کے علاوہ مشقت لگائی تھی۔
اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہمارے ملک کے بچے نااہل ہیں یا مذکورہ شاگرد نااہل تھا، بات صرف اس سسٹم کی ہے جس کی بنیاد بنائی تو ٹھیک تھی پر تعمیر نقص ابھرتے ہی رہتے ہیں۔ اس کے لیے دل کو سخت کرنا ہی ہوگا پر ہر سال کچھ نہ کچھ ہو ہی جاتا ہے۔
حالیہ ہونے والے ایم ڈی کیٹ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس کا نیا نصاب ہے جو پچھلے ہونے والے امتحان کے مقابلے میں خاصا مشکل تھا۔ پچھلے برس ہونے والے امتحان میں دو سو کثیرالانتخابی سوالات تھے جو حالیہ برس میں ہونے والے امتحان کے مقابلے میں قدرے آسان تھے۔
لہٰذا اسٹوڈنٹس نے بہت اچھے نمبر حاصل کیے، اسی لحاظ سے داخلے کی اہلیت کے لیے شرح فی صد بڑھی تھی، جب کہ حالیہ ہونے والے امتحان میں ایک سو اسی سوالات تھے جو نئے نصاب سے تھے اور اسی لحاظ سے اسٹوڈنٹس نے کم شرح فی صد سے نمبرز حاصل کیے، لہٰذا داخلے کی اہلیت کی شرح بھی اسی لحاظ سے گری تھی۔
فریش ایف ایس سی کے اسٹوڈنٹس کے لیے یہ مقابلے کی فضا سوگوار اس وقت ہوئی جب اعلان ہوا کہ پچھلے سال کے اسٹوڈنٹس جو ایم ڈی کیٹس کے امتحان میں پاس تھے وہ بھی اس سال داخلے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔
اس غیر متوازن صورت حال میں وہ تمام اسٹوڈنٹس جنھوں نے اپنی محنت، لگن اور پیسوں سے ان امتحانات کی تیاری کی تھی شکستہ دل سے اپنے ذمے داران کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
’’کیا یہ ناانصافی نہیں ہے، ہم فریش اسٹوڈنٹس کے لیے؟‘‘
’’پھرکیا ہونا چاہیے؟‘‘
’’کوئی برابری کا فارمولا تو ہونا ہی چاہیے، ان کا سلیبس بہت آسان تھا، آپ کسی سینئر سے بھی پوچھ لیں، جب کہ ہم نے نئے چیپٹرز پڑھے تھے اور دل و جان سے پڑھے تھے، میرٹ لسٹ گری تھی پر ہم فریش اسٹوڈنٹس کے لیے برابر کی صورت حال تھی، اب پچھلے سال کے بچے جنھوں نے زیادہ نمبرز لیے تھے وہ اگر ایڈمیشن کے لیے جائیں گے تو ساری سیٹیں تو وہ لے جائیں گے۔‘‘
گلہ تو درست ہی تھا، ابھی تو یہ بچے نمبروں کی بھاگ دوڑ میں ہی جتے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی معیار اور ہیں۔ بہرحال سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے تمام ڈاکٹرز جو ہمارے ملک کی میڈیکل یونیورسٹیز اور کالجز سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں پاکستان سے باہر خاص کر امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں ان کی ڈگریوں کو مصدقہ جانا جاتا ہے یا نہیں۔
جنھیں ہم ہر طرح کی ترکیبیں اختیار کر کے سفید کوٹ میں ملبوس دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، کیا واقعی اس قدر اہل ہوتے ہیں کہ دوسرے (بیرون ممالک) انھیں فوراً اپنے اسپتالوں میں رکھ لیتے ہیں؟
’’میرے کزن ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے، انھوں نے میڈیکل کالج سے پڑھا تھا، ہاؤس جاب بھی کی اور ہمارے ہی علاقے کے ایک نجی اسپتال میں جاب بھی کرتے تھے پھر ان کی شادی ایک ڈینٹسٹ سے ہوئی۔
دونوں میاں بیوی ڈاکٹر تھے ان کے پاس مصدقہ ڈگریاں تھیں لیکن جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکا گئے تو اس کے لیے انھیں میڈیکل لائسنس حاصل کرنے کے لیے امتحان دینا تھا انھوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں پاس نہیں ہو سکے تو انھیں ریزیڈنس کیسے ملتا، لہٰذا انھیں اپنی ڈگری رکھ کر دوسری جاب ڈھونڈنا پڑی کہ گھر بھی تو چلانا تھا۔
ان کی بیگم تو بس پاکستان میں ہی تعلیم ختم کرکے شادی کے انتظار میں تھیں اور شادی کے بعد تو انھوں نے (ہنستے ہوئے) ڈگری اٹھا کر یادگار کے طور پر رکھ دی۔‘‘
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق ایک خبر کچھ اس طرح کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک سال میں تقریباً 1061 پاکستانی ڈاکٹرز نے امریکا میں مستقل سکونت حاصل کی ہے۔ یہ تعداد سب سے زیادہ ہے جن میں مختلف میڈیکل کالج شامل ہیں جہاں کے ڈاکٹر نے ریزیڈنس حاصل کی۔
کہا تو یہی گیا تھا کہ اس عمل میں ہمارے ملک کے تعلیمی معیار اور اعلیٰ کارکردگی کا بڑا ہاتھ ہے۔ بہرحال یہ صورت حال یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ بیرون ملک میں میرٹ کو گرایا گیا۔
کیونکہ طبی عملے کی ضروریات روز بہ روز بڑھ رہی ہیں اور ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں گریجویٹس فراہم کرنا مشکل بھی ہے جب کہ وہاں پاکستان کے مقابلے میں تنخواہوں کا گراف خاصا بلند ہے۔
پاکستان میں میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے جہاں طبی تعلیم کے معیار کو بڑھانے کی جانب اہم قدم اٹھایا ہے، ایم ڈی کیٹ کے امتحانات اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ پیرا میڈک اسٹاف، نرسز اور دیگر شعبہ طب کے افراد کی ٹریننگ اور کورسز کی وجہ سے دنیا بھر میں ان کی کھپت اچھی ہو سکتی ہے۔
وہیں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹرز جیسے اہم عہدے، پیشے اور قابلیت کے لیے کسی قسم کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ کہ یہ نہ صرف انسانی جانوں کا معاملہ ہے بلکہ ہمارے ملک کی عزت کا بھی سوال ہے۔
ایک بار کا اٹھایا ہوا غلط قدم پھر سلسلے سے جڑ جاتا ہے لہٰذا اس قدم کو ابھی چیک اینڈ بیلنس کے عمل سے گزارنا بہت ضروری ہے کہ اس دنیا میں اور بعد میں بھی ہم جواب دہ تو ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہونے والے امتحان کے مقابلے میں ہمارے ملک حاصل کی ہیں کہ کے لیے ایم ڈی
پڑھیں:
سکھر: غلام محمد مہر میڈیکل کالج اورچانڈکا میڈیکل کالج کے پروفیسرز عالمی یوم ذیابیطیس پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default"> جسارت نیوز
گلزار