اسرائیل کا مقصد ایرانی نظام حکومت کا تختہ الٹنا تھا لیکن ایران پہلے سے بڑھکر مستحکم ہوا ہے، مصری تجزیہ کار
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
یہ بیان کرتے ہوئے کہ قابض اسرائیلی رژیم کیجانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کا اصلی مقصد ایرانی نظام حکومت کا خاتمہ تھا، معروف مصری تجزیہ کار نے اعلان کیا کہ اس حملے میں تل ابیب کی ذلت آمیز شکست کے سبب تہران پہلے سے زیادہ مستحکم ہوا ہے لہذا اب چین و روس کو بھی مضبوطی کیساتھ ایران کیساتھ آ کھڑا ہونا چاہیئے! اسلام ٹائمز۔ مصر کے معروف سیاستدان و تجزیہ کار حمدین صباحی نے ایران کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی 12 روزہ جنگ کے بارے اعلان کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف قابض صیہونی دشمن کی جارحیت کو ذلت آمیز شکست ہوئی ہے جس کے بدولت ایران اپنی قومی و جمہوری قوت کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا، تاہم، اگر خدا نخواستہ ایران ٹوٹ گیا تو اسرائیلی جارحیت کا اگلا ہدف، خطے کے بڑے ممالک جیسا کہ مصر، سعودی عرب اور ترکی ہوں گے۔ لبنانی چینل المیادین کے خصوصی پروگرام "اگر ممکن ہو" میں گفتگو کرتے ہوئے حمدین صباحی کا کہنا تھا کہ ایران، مشرق وسطی سے متعلق اسرائیل کے گھناؤنے منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے لہذا ایران کو راستے سے ہٹانے اور تنہاء کرنے کے لئے اس جعلی رژیم کو، کسی نہ کسی طور جنگ شروع کرنا ہی تھی تاکہ ایران بھی ایک "منحصر" ملک میں بدل جائے، اور یہی وجہ ہے کہ اس نے جنگ شروع کی جو 12 روز تک جاری رہی لیکن آخر کار اس نے خود ہی جنگ بندی کا مطالبہ بھی شروع کر دیا۔
مصری سیاستدان و تجزیہ کار نے تاکید کی کہ غاصب اسرائیلی رژیم کی جارحیت اب بھی "ختم" نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو گی جبکہ عربی-ایرانی-ترکی تہذیبی مثلث، ایران کے لئے "تکمیلی مزاحمتی منصوبہ" ثابت ہو سکتی ہے درحالیکہ یہ نئے مشرق وسطی کے تسلط پسند منصوبے کے خلاف، شامی خطے کی بقا کے لئے بھی ایک سنہری اصول ہے لہذا ان تینوں فریقوں کے درمیان سنجیدہ مذاکرات کو فعال ہونا چاہیئے۔
حمدین صباحی نے تاکید کی کہ ایک تکمیلی نکتہ یہ بھی ہے کہ "شام" اور اس کے وسط میں "مشرق وسطی" پر تسلط کی جدوجہد؛ دراصل مستقبل قریب کے نئے عالمی نظام کے لئے جدوجہد ہے لہذا چین و روس کو بھی مزید سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہیئیں تاکہ وہ واضح، شفاف اور دوٹوک انداز میں ایران کے ساتھ آ کھڑے ہوں؛ نہ صرف ایران کے تحفظ کے لئے بلکہ اپنے، اپنے مفادات اور دنیا بھر میں اپنے مقام و کردار کے تحفظ کے لئے بھی!
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیلی رژیم نے درحقیقت ایران کو خود سے دور کرنے اور اپنے تسلط کے تحت مشرق وسطی کا نیا نظام قائم کرنے کے لئے ہی حملہ کیا تھا، اگرچہ اس نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اس کا مقصد ایرانی جوہری صلاحیت یا اس کے میزائل پروگرام کو تباہ کرنا ہے، لیکن یہ دونوں بنیادی مقاصد نہ تھے جبکہ اس کا بنیادی مقصد ایران پر برسراقتدار حکومتی نظام کا تختہ الٹنا اور اسرائیلی کنٹرول کے تحت ایک نیا مشرق وسطی بنانا تھا۔
معروف مصری سیاستدان نے تاکید کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا کہ امریکی-صیہونی جارحیت کا اولین و آخرین ہدف ایران پر برسر اقتدار اسلامی نظام حکومت کا خاتمہ ہے کیونکہ یہ حکومت اس قوم کے خودمختار عزم کا نتیجہ ہے اور جیسا کہ امریکہ بڑا شیطان اور اسرائیل چھوٹا شیطان ہے، ان کا اولین مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کی "خود مختار حکومت" کا تختہ الٹنا جبکہ دوسرا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنا ہے۔ اس حوالے سے اپنی گفتگو کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ دشمن کے شوم منصوبوں کے برعکس، اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف مسلط کردہ اس جنگ سے اپنے بھرپور قومی اتحاد و قومی خود مختاری کے ہمراہ کامیابی کے ساتھ باہر نکلا بلکہ اس نے اپنے ایٹمی پروگرام کو بھی، قانون کے مطابق، بغیر کسی توقف کے محفوظ رکھا اور اب وہ اسے مزید ترقی دینے کا ارادہ رکھتا ہے!
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقصد ایران تجزیہ کار ایران کے ہے لہذا کے لئے
پڑھیں:
اسرائیل جنگ میں 900 سے زائد ایرانی شہری شہید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران : ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ خوفناک جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے ایرانی شہریوں کی تعداد 900 سے تجاوز کر گئی ہے، اب تک کم از کم 935 شہری شہید ہو چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق ایرانی وزارت انصاف کے ترجمان کاکہناہےکہ شہید ہونے والوں میں 132 خواتین اور 38 بچے بھی شامل ہیں جب کہ کئی درجن افراد اب بھی لاپتہ یا شدید زخمی حالت میں اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
خیال رہےکہ جنگ 13 جون کو اُس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل نے اچانک ایران کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے، ابتدائی حملوں میں ایران کے کئی اعلیٰ فوجی افسران اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، ان حملوں کے بعد پورے ملک میں ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی تھی۔
ایران نے اسرائیلی جارحیت کا جواب بھرپور انداز میں دیا۔ ایران کی جانب سے اسرائیل پر جوابی میزائل حملوں میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہوئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے، ان حملوں نے اسرائیلی شہروں میں خوف کی فضا قائم کر دی۔
واضح رہےکہ امریکا بھی اسرائیل کے ساتھ کھل کر میدان میں آ گیا تھا، امریکی فضائیہ نے ایران کے اہم جوہری مراکز فردو، اصفہان اور نطنز پر شدید بمباری کی تھی، جس کے بعد ان تنصیبات کے مکمل طور پر تباہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا، ان حملوں سے ایران کے جوہری پروگرام کو شدید دھچکا پہنچا تھا۔
دونوں ملکوں کے درمیان 24 جون کو بین الاقوامی دباؤ اور سفارتی کوششوں کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آئی، فریقین کے درمیان کشیدگی بدستور برقرار ہے اور کسی بھی وقت دوبارہ تصادم کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
عالمی برادری نے اس جنگ میں انسانی جانوں کے ضیاع پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک سے صبر و تحمل اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کا مطالبہ کیا ہے۔