کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنے والاہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
طوفان اقصیٰ کا معرکہ جاری ہے۔ اس معرکہ نے امریکا کی عالمی اجارہ داری کو چیلنج کر رکھا ہے۔ ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی ساکھ کو عوامی سطح پر اور فوجی سطح پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عوامی سطح پر دنیا بھر میں اسرائیل کو شدید احتجاج کا سامنا ہے اسی طرح فوجی سطح پر بھی غاصب صہیونی حکومت شدید دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے۔
فوجی نقصانات کی تفصیل کو اسرائیلی غاصب حکومت چھپا رہی ہے۔ بہرحال ایسے حالات میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت کو فلسطینی مزاحمتی محور کے گروہوں حماس، جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ اور یمن کی انصار اللہ کے ساتھ ساتھ براہ راست ایران سے کاری ضرب لگ چکی ہے تو اب غاصب صہیونی حکومت اپنے ان زخموں کو چھپانے کے لیے از سر نو جنگی حربوں کا استعمال کر رہی ہے۔
ان حربوں میں ایک غزہ کے عوام کو بھوک اور پیاس سے مارنا ہے تاکہ غزہ کے لوگ علاقہ خالی کریں اور نکل جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکا اور اسرائیل کے مقاصد کو 70 فیصد کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ باقی ماندہ کامیابی حماس و جہاد اسلامی کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی فوجی قیدیوں کی رہائی کے معاملے سے مربوط ہے۔
اسی طرح لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ ہونے والا معرکہ بھی ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ کیونکہ اس معرکے میں غاصب صیہونی حکومت کو سات اکتوبر کے بعد جو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا وہ شمال فلسطین سے دو لاکھ صیہونی آبادکاروں کی نقل مکانی تھی جو تا حال واپس نہیں آئے ہیں اور اب یہ صہیونی آبادکار شمال فلسطین کو اپنے لیے مکمل غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
ایسے ہی حالات کچھ حیفا اور تل ابیب میں ایران کے براہ راست میزائل گرنے سے بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ جہاں سے دسیوں ہزار صہیونی آباد کار سمندری راستوں سے قبرص اور یونان جا چکے ہیں اور اب واپس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کی کاروائیوں کے نتیجہ میں بحیرہ احمر میں اسرائیل کے بحری جہازوں کا مکمل راستہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ ایلات کی بندرگاہ مفلوج ہو چکی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں امریکا اور اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا اور یہ تاثر دیا کہ اب مزاحمت ختم ہو چکی ہے لیکن شہید یحییٰ سنوار اور شہید حسن نصر اللہ سمیت متعدد رہنماؤں کی شہادت کے بعد فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی طاقت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے برعکس مزاحمت کی کارروائیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔
لبنان میں بھی حزب اللہ نے لبنان کو اسرائیل کے خانہ جنگی کے منصوبہ سے بچانے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا تاہم جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے داخلے کے معاملے پر حزب اللہ نے باقاعدہ غاصب صہیونی فوج کو روک رکھا ہے۔یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ رہنماؤں اور شخصیات کی شہادت کے بعد فلسطین اور لبنان میں مزاحمت بالکل کمزور نہیں ہوئی۔
اس محاذ پر اور اس طرح کے جنگی حربوں میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے۔اب موجودہ صورتحال میں کہ جب تمام تر حربے ناکارہ ہو چکے ہیں، امریکا اور اسرائیل ہزاروں انسانوں کو غزہ و لبنان میں قتل کر چکے ہیں، غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا چکے ہیں، بیروت میں تباہی پھیلا چکے ہیں۔
اس کے باوجود اپنے طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک پرانا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے یعنی نیا مشرق وسطیٰ کی تعمیر کرنا۔ یہ خواب امریکا نے 2001 میں دیکھا تھا اور گزشتہ 25 برسوں میں اس خواب کو خطے میں موجود مزاحمت نے شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ہے۔
شام کی تبدیل ہونے والی صورتحال کے بعد امریکا کو کچھ علاقائی حکومتوں کی مدد سے اب نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا موقع دستیاب ہوا ہے۔ اس عنوان سے امریکی حکومت چاہتی ہے کہ وہ خطے میں مزاحمتی قوتوں بالخصوص حماس اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرے۔
لہٰذا فلسطین میں امریکی ایلچی ویٹکوف اور لبنان میں تھامس بارک اس کام کو انجام دینے کے لیے لبنانی حکومت کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔ حماس نے امریکا کو واضح جواب دیا ہے کہ حماس غیر مسلح نہیں ہو گی۔ اسی طرح لبنان میں بھی یہ دباؤ جاری ہے اور لبنانی وزیر اعظم نواف سلام کے ذریعہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے۔
اصل میں امریکی حکومت اور غاصب صہیونی حکومت سمجھتی ہے کہ مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت اور بالخصوص اب سید حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد اس کام کو تیزی سے انجام دیا جائے۔ بہر حال یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد بغیر کسی فیصلے کے ملتوی ہو چکا ہے، لیکن حزب اللہ واضح کر چکی ہے کہ حزب اللہ لبنان کے دفاع سے دستبردار نہیں ہو گی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ فلسطین میں حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کرنے والوں میں یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ علاقائی ممالک بھی شامل ہیں۔ اسی طرح لبنان کی حکومت پر امریکا اور علاقائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا دباؤ ہے۔
بہرحال حماس اور حزب اللہ کا اعلان ہے کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوں گے، بلکہ جو لوگ مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں فکر مند ہیں ان کو غزہ و لبنان پر جاری صہیونی حملوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہییے۔ انسانوں کی نسل کشی پر خاموش مجرم حکومتیں مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں بیانات دے رہی ہیں۔
خطے کی اس تازہ ترین صورتحال پر عالمی سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے اب امریکا و اسرائیل حماس و حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں تاہم آیندہ چند ماہ میں غاصب صہیونی گینگ اسرائیل لبنان پر ایک بڑی جنگ مسلط کر سکتی ہے تا کہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کیا جائے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر امریکا اور اسرائیل کی ایک اور بڑی غلطی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بین الاقوامی حالات میں شدت اور تیزی آ چکی ہے، اور خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں یہ رفتار اور بھی زیادہ ہے۔لہٰذا امریکی صدر نے غاصب اسرائیلی حکومت کو گرین سگنل دے رکھا ہے کہ وہ امریکا کے ’’نیا مشرقِ وسطیٰ‘‘ کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنائے اور نقشہ کو مکمل کرے۔
اس نقشہ کو مکمل کرنے کے لیے امریکا کو عرب حکومتوں اور صہیونی حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر کے بقول، وقت آ گیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کے مسئلے کو حل کیا جائے یعنی غیر مسلح کیا جائے تا کہ نیا مشرق وسطیٰ تشکیل پائے۔
جہاں تک لبنان کی بات ہے تو لبنان کا مسئلہ اس وقت سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جب سے شام کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، کیونکہ لبنان کی تاریخ ہمیشہ براہِ راست دمشق کی تبدیلیوں سے جڑی رہی ہے۔حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ، جسے یہ کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلحہ لبنان کی فوج کے حوالے کیا جائے، سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے ساتھ اور اسلحہ چھوڑنے کے الٹی میٹم سے شروع ہوا۔
امریکا کے خصوصی نمایندے تھامس بارک نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر داخلی مذاکرات میں حزب اللہ کے اسلحہ چھوڑنے پر اتفاق نہ ہوا تو لبنان کے کچھ حصے اس سے الگ کر دیے جائیں گے۔ یعنی امریکا خود مختار ممالک کو توڑنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
یقینی طور پر امریکا اس کام کے لیے شام کے مسلح گروہوں کے ساتھ غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کا سہارا لے گا،یعنی اب ایک نیا اتحاد منظر عام پر آ رہا ہے اور شاید یہ نیا مشرق وسطیٰ کے منصوبہ کا نیا نام ہے۔
لبنان کی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی حلقوں سمیت لبنان کی فوج میں بھی حزب اللہ کی بڑی حمایت موجود ہے۔ چونکہ موجودہ لبنانی حکومت جو باقاعدہ امریکی اشاروں پر ناچ رہی ہے یہ بات بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ اسلحہ نہیں چھوڑے گی، امریکا نے 60 دن کی مہلت دی ہے، مگر وزیرِاعظم پانچ مہینے کا وقت بتا رہے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ سال کے اختتام تک ہمیں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے۔حزب اللہ اس منظرنامے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ لبنان کے عوام کی اکثریت اور کم از کم فوج کے 30 فیصد اہلکار بھی حزب اللہ کی حمایت کریں گے۔
لبنان کو بلا شبہ بڑی جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِخارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔
یقینی طور پر ایران کے سیکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہوں گے۔لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کے لیے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔
ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل سمیت یورپ کی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے امریکا اور اسرائیل لبنان میں حزب اللہ غاصب صہیونی حکومت فلسطین میں حماس ہے کہ حزب اللہ نیا مشرق وسطی اور لبنان میں کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کی اسرائیل کے کی شہادت لبنان کی کی حکومت کیا جائے حماس اور میں بھی اللہ کے نہیں ہو چکے ہیں کے بعد رہا ہے کیا جا کے لیے چکی ہے رہی ہے
پڑھیں:
این اے 66 ضمنی انتخابات کیلئے نون لیگ نے بلال فاروق تارڑ کو ٹکٹ جاری کردیا
وفاقی وزیر اطلاعات کا سماجی رابطے کے پلیٹ فارم " ایکس " پر جاری اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ہم اپنے قائد اور وزیراعظم کے تہہ دل سے مشکور ہیں، پارٹی نے ہم پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے این اے 66 وزیر آباد کیلئے بلال فاروق تارڑ کو پارٹی ٹکٹ جاری کر دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کا سماجی رابطے کے پلیٹ فارم " ایکس " پر جاری اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، ہم اس رب کے آگے سر بسجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کے تہہ دل سے مشکور ہیں، اور وزیراعظم شہباز شریف کے بہت شکرگزار ہیں، پارٹی نے ہم پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے، اس پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ عطاء اللہ تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمانی بورڈ کے تمام اراکین کا شکریہ، یہ ٹکٹ پارٹی کی اور پارٹی کے کارکنان کی امانت ہے، انشاءاللہ بھرپور محنت کریں گے، وفاداری کے ساتھ۔