UrduPoint:
2025-10-04@20:13:36 GMT

پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT

پاکستان میں اکثر چینی کا بحران کیوں پیدا ہو جاتا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) پاکستان میں چینی کی اس قلّت کے پیچھے چند وجوہات ہیں جو اسی تواتر سے ہر سال ایک سی ہی رہی ہیں۔ سب سے پہلے آپ کو پاکستان کے صوبے بلوچستان لے چلتے ہیں۔ یہاں پر پچھلے دو سالوں سے چینی کی پنجاب سے بلوچستان آمد اور پھر بلوچستان کے راستے افغانستان اسمگل ہونے کی خبریں اکثر سامنے آتی رہی ہیں۔

سرکاری افسران اور بس میں سفر کرنے والوں نے بتایا کہ یہ چینی بسوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی جاتی رہی ہے۔ کسٹمز حکام نے بھی اس کی تصدیق کی اور دعویٰ کیا کہ 2023 میں ہر دوسرے روز کوئٹہ سے 100 ٹن چینی اور ہفتے میں 700 ٹن چینی غیر قانونی راستوں کے ذریعے افغانستان پہنچائی گئی۔

جہاں اس اسمگلنگ میں پچھلے تین سالوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا وہیں اس سال اسمگلنگ سے متعلق کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔

(جاری ہے)

اس کی وجہ حکام یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پاکستانی چینی مہنگی ہے جس سے اس کی غیر قانونی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے جبکہ افغانستان میں اس وقت قدرے کم قیمت پر بھارتی چینی بازاروں میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس لیے اس وقت اسمگلنگ میں پہلے کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان سے چینی افغانستان اور دیگر ممالک باقاعدہ طور پر برآمد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اب یہی چینی قانونی راستوں سے افغانستان پہنچتی ہے۔

بلوچستان میں ایک صوبائی افسر نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ''ان واقعات کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر چینی لانے اور لے جانے والوں کے لیے پرمِٹ رکھنا اور چیک پوسٹوں پر دکھانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ بے شک آپ کی گاڑی یا ٹرک کئی بار اسی چیک پوسٹ سے گزرے ہوں، آپ سے پرمِٹ مانگا جائے گا۔‘‘

واضح رہے کہ پرمِٹ پہلے بھی دکھائے جاتے تھے لیکن ایک صوبائی افسر نے بتایا کہ ''کچھ گاڑیوں کا پرمِٹ چیک نہیں کیا جاتا،‘‘ جس کے نتیجے میں چینی گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے اسمگل ہوتی رہی۔

تاجروں کے مطابق قانونی راستوں سے چینی یا خورد و نوش کی کوئی بھی اشیا بھیجنے میں منافع کم ملتا ہے۔

مذکورہ افسر نے مزید کہا کہ اب ''پنجاب سے چینی اس مقدار میں نہیں آرہی جتنی پہلے آتی تھی۔ تو اسمگلنگ کا مارجن پہلے سے قدرے کم ہو گیا ہے۔‘

حالیہ 'بحران‘ کیسے اور کیوں بنی؟

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''یہ ایک مصنوعی بحران ہے جسے ہر سال مِل مالکان کو فائدہ دینے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

اور پھر گنّے کی کرشنگ کا موسم آتے ہی (جس دوران مِل مالکان خسارے میں ہوتے ہیں) ختم کردیا جاتا ہے تاکہ سب برابر کما سکیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ''حکومت نے 757,597 میٹرک ٹن چینی 2024-2025 میں برآمد کی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں ایسا کیا گیا تھا جب بغیر کسی پلان اور حکمتِ عملی کے 900000 میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی تھی۔

آپ کو اگر چینی برآمد کرنی ہی ہے تو آپ پہلے 100000 میٹرک ٹن برآمد کریں تاکہ آپ کو مارکیٹ اور حقائق کا پتا چل سکے۔ مارکیٹ اور برآمد کے نتائج جانے بغیر آپ اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘

مفتاح نے کہا کہ ''ان کا مقصد چینی کی قیمت بڑھانے سے ہے نا کہ معاملات سنبھالنے سے۔ یہ مِل مالکان اور ان کے دوستوں پر مشتمل طبقہ ہے جو اس بحران سے منافع کماتا ہے۔

‘‘

واضح رہے کہ چینی کی قیمت جولائی کے مہینے میں 210 روپے فی کلو ہوئی جس کے بعد اب حکومت نے اسے 163 روپے فی کلو پر روک دیا ہے۔

اس کے بارے میں معاشی تجزیہ کار شمس الاسلام نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ "2024-2025 کے دوران پاکستان نے تقریباً 84 ملین ٹن گنے اور 70 لاکھ چینی کی پیداوار کی، اس کے باوجود اس بڑے پیمانے پر پیداوار کے فوائد عام کاشت کاروں تک نہیں پہنچتے۔

اس کے ساتھ ہی ایک شوگر کارٹیل قیمتوں اور پیداوار کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ اور حکومت کی جانب سے بنائے گئے بحران کے پیچھے چھپا رہتا ہے۔‘‘

شمس الاسلام نے کہا کہ یہ ایک 'منصوبہ بند بحران‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر سال شوگر کارٹیل ذخیرہ اندوزی کرتا ہے، جس سے مصنوعی قلت پیدا ہوتی ہے۔ یہ حکومت کو برآمدات کی منظوری دینے پر مجبور کرتا ہے، جس سے مِلوں کو مقامی قیمتوں میں افراط زر کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی مارکیٹ کے نرخوں سے کم فروخت کرنے کی اجازت ملتی ہے۔

شمس الاسلام نے کہا کہ برآمدات مکمل ہونے کے بعد، کارٹیل خام چینی کی درآمد کا مطالبہ کرتا ہے، سپلائی کے بحران کا دعویٰ کرتا ہے، قیمتوں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت یوٹیلٹی اسٹورز اور 'سستی چینی بازار' کے ذریعے چینی کی فروخت پر بھاری سبسڈی خرچ کرتی ہے۔ شوگر ملز کو صنعت کی مدد کے بھیس میں اربوں کی سرکاری سبسڈی ملتی ہے۔

‘‘

جب چینی کی عالمی قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل برآمدی سبسڈی کا مطالبہ کرتا ہے، ٹیکس دہندگان کو اپنے منافع کو فنڈ دینے پر مجبور کرتا ہے۔ جب بین الاقوامی سطح پر قیمتیں گرتی ہیں، تو کارٹیل مقامی قیمتوں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے درآمدات کو روکتا ہے۔

اس بحران سے فائدہ کس کو ہوتا ہے؟

شمس الاسلام نے کہا کہ ''اس کا فائدہ انہیں خاندانوں کو ہوتا ہے جو پاکستان پر حکومت کرتے ہیں۔

‘‘

انہوں نے کہ پاکستان کی شوگر انڈسٹری مارکیٹ فورسز کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس پر سیاسی اشرافیہ کا غلبہ ہے۔ سب سے بڑے مل مالکان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے ارکان شامل ہیں۔ بااثر بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات جو ٹیکس میں چھوٹ اور سبسڈی کے لیے لابنگ کرتے ہیں، اور بڑی شوگر ملوں میں براہ راست حصص رکھنے والے ریٹائرڈ فوجی اہلکار سب شامل ہیں۔‘‘

سحر بلوچ

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے شمس الاسلام نے انہوں نے کہ نے کہا کہ بتایا کہ کے ذریعے سے چینی ٹن چینی کرتا ہے چینی کی کے لیے

پڑھیں:

بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) بون میں واقع افغانستان کے قونصل خانے کے عملے نے جرمنی کی جانب سے طالبان حکومت کے مقرر کردہ دو نمائندوں کو منظوری دینے کے اقدام کو جرمنی میں مقیم افغان شہریوں کی حساس معلومات کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ابھی تک صرف روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے، جس نے اگست 2021 میں اقتدار سنبھالا تھا، جب امریکی قیادت میں افواج نے 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان سے افراتفری میں انخلاء کیا۔

تاہم، جولائی میں جرمنی کی جانب سے دو سفارت کاروں کو منظوری دینا دوطرفہ تعلقات میں ایک اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

جرمن حکومت کے ترجمان اسٹیفن کورنیلیئس نے اس وقت کہا تھا کہ یہ تقرری افغان حکام کے ساتھ مجرم افغان شہریوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے سے متعلق مذاکرات کے بعد ہوئی۔

(جاری ہے)

یہ ملک بدریاں اگست 2024 سے دوبارہ شروع ہوئیں۔

ان نئے نمائندوں کو آئندہ ملک بدری کی پروازوں کی ہم آہنگی میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، کیونکہ جرمنی تارکین وطن پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔

جرمنی میں تارکین وطن ایک ایسا سیاسی موضوع ہے جس نے بہت سے ووٹرز کو انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت پر مجبور کیا ہے۔

اجتماعی استعفے کا اعلان

بون میں افغان قونصل خانے کے قائم مقام قونصل، حامد ننگیالے کبیری، نے قونصل خانے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو میں عملے کے اجتماعی استعفے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا، ''طالبان کی غیر قانونی حیثیت اور افغان عوام کے بنیادی حقوق کی وسیع خلاف ورزیوں کے پیشِ نظر، یہ فیصلہ ناقابل قبول ہے اور شہریوں کے حساس دستاویزات اور معلومات کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ تمام دستاویزات، سامان اور دیگر اثاثے جرمن وزارتِ خارجہ کے حوالے کر دیے جائیں گے۔

کبیری نے مزید کہا، ''ہم پرامید ہیں کہ جلد ایک آزاد افغانستان دیکھنے کو ملے گا، جو قانون کی حکمرانی کے تحت ہوگا اور عوام کی مرضی سے ابھرے گا۔‘‘

جرمنی کا ردعمل

جرمن وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے رائے دینے سے انکار کیا، جبکہ برلن میں افغان سفارت خانے سے بھی فوری طور پر رابطہ نہیں ہو سکا۔

جرمنی میں تقریباً 4 لاکھ 42 ہزار افغان شہری مقیم ہیں، جہاں حال ہی تک تارکینِ وطن کے لیے نسبتاً کھلا دروازہ اور وسیع پناہ گزین ڈھانچہ موجود رہا ہے۔

روس نے جولائی میں طالبان کی نئی حکومت کو تسلیم کیا، جو طالبان انتظامیہ کے لیے اپنی عالمی تنہائی کو کم کرنے کی ایک اہم پیش رفت تھی۔

چین، متحدہ عرب امارات، ازبکستان اور پاکستان پہلے ہی کابل کے لیے سفیروں کا تقرر کر چکے ہیں، جو طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کیے جانے کی طرف ایک قدم ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر بحران حل ہوگیا، حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی معاہدے پر متفق
  • چینی درآمد کرنا کسانوں اور ملکی انڈسٹری کو تباہ کرنے کے مترادف ہے، شوگر ملز ایسوسی ایشن
  • وفاقی حکومت نے گدھوں کی کھالوں کی برآمد پر عائد پابندی اٹھالی
  • بون میں افغانستان قونصل خانے کے عملے نے استعفیٰ کیوں دیا؟
  • ملائیشیا کتابوں پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟
  • حکومت کا گدھے کی کھال برآمد کرنے سے متعلق اہم فیصلہ
  • چینی نوجوان دانتوں پر ٹیٹو کیوں بنوا رہے ہیں؟
  • حکومت کا چینی کی مزید درآمد روکنے کا فیصلہ
  • کروڑوں کی کمائی کے باوجود شخص صفائی کا کام کیوں کرتا ہے؟
  • بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر میں بدامنی پیدا کرنے کا انکشاف