بچے مصور کاکڑ کو اغواء و قتل کرنے والے کچھ دہشتگرد واصلِ جہنم ہو چکے: سرفراز بگٹی
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی—فائل فوٹو
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں نے معصوم بچے مصور کاکڑ کو تاوان کی خاطر شہید کیا، واقعے میں ملوث کچھ دہشت گرد واصلِ جہنم ہو چکے۔
کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچانا اپنی ذمے داری سمجھتا ہوں۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ پچھلے 7 ماہ سے ذاتی طور پر میں اور حکومتِ بلوچستان مصور کی بازیابی کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔
ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ اعتزاز گورایہ نے کہا گزشتہ سال 15 نومبر کو اغوا ہونے والا بچہ مصور خان کاکڑ کو مار دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف پوری ریاستی مشینری حرکت میں آ چکی ہے، واقعے میں ملوث کچھ دہشت گرد واصلِ جہنم ہو چکے، کچھ کے گرد گھیرا تنگ ہے۔
اس سے قبل ڈی آئی جی پولیس اعتزاز گورایہ نے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ گزشتہ سال 15 نومبر کو مصور خان کاکڑ کو اغواء کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بچے کی بازیابی کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی، اب تک اس کیس میں 19 جے آئی ٹی میٹنگز ہوئیں، بچے کی بازیابی کے لیے 2000 رہائشی مقامات کو سرچ کیا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: واقعے میں ملوث کاکڑ کو
پڑھیں:
کوئٹہ میں داعش کے ہاتھوں تاجر کے بیٹے کا اغوا اور قتل
کوئٹہ میں نومبر 2023 میں اغواء ہونے والے تاجر کے بیٹے مصور خان کاکڑ کی لاش طویل تحقیقات اور مسلسل سرچ آپریشن کے بعد برآمد کر لی گئی۔
ڈی آئی جی کوئٹہ، اعتزاز گورایا نے ہفتے کے روز ایک پریس کانفرنس میں اس افسوسناک واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس واردات میں کالعدم تنظیم داعش کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ: مقامی تاجر کا بیٹا اغوا، انجمن تاجران کا کل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان
ڈی آئی جی کے مطابق 15 نومبر کو مصور کاکڑ کو کوئٹہ شہر سے اغواء کیا گیا تھا۔
واقعے کی حساسیت کے پیش نظر بلوچستان حکومت نے ایک خصوصی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی، جس میں مختلف سیکیورٹی اور انٹیلیجنس ادارے شامل تھے۔
جے آئی ٹی نے 19 اجلاس منعقد کیے، 2,000 گھروں کی تلاشی لی، 1,200 مقامات پر چھاپے مارے اور درجنوں سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کا جائزہ لیا۔ اغواء میں استعمال ہونے والی گاڑی 17 نومبر کو برآمد کر لی گئی تھی۔
تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ اغوا کاروں کا تعلق افغانستان اور پاکستان کے ضلع باجوڑ سے تھا، اور وہ ایران و افغانستان کے نمبرز استعمال کرتے ہوئے مغوی کے والد سے رابطے میں رہے۔
ڈی آئی جی کے مطابق اغوا کار 12 ملین ڈالر تاوان کا مطالبہ کر رہے تھے۔
معلومات ملنے پر 20 اور 22 نومبر کو کوئٹہ کے 2 مختلف مقامات پر چھاپے مارے گئے، لیکن اغوا کار فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ مصور کاکڑ کو پہلے کوئٹہ بائی پاس کے قریب دشت کے علاقے میں رکھا گیا اور بعد میں اسپلنجی منتقل کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:افغانستان: بامیان میں داعش کا حملہ، 3 ہسپانوی سیاح ہلاک
اسپلنجی میں سرچ آپریشن کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس علاقے میں تقریباً ایک ماہ تک آپریشن جاری رہا۔
بالآخر 23 جون کو اسپلنجی میں ایک قبر کا سراغ ملا، جہاں سے ایک لاش برآمد ہوئی۔ پولیس نے والدین سے ڈی این اے کے نمونے حاصل کر کے تصدیق کی، تو لاش کی شناخت مصور خان کاکڑ کے طور پر ہوئی۔
ڈی آئی جی اعتزاز گورایا نے کہا کہ یہ ایک نہایت افسوسناک واقعہ ہے، اور تمام تر کوششوں اور وسائل کے باوجود ہم مغوی بچے کو بحفاظت بازیاب نہ کروا سکے، جس پر ہمیں شدید افسوس ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اغوا کے پیچھے کوئی مجرمانہ (کرمنل) مقصد نہیں تھا، بلکہ یہ واردات کالعدم تنظیم داعش کے نیٹ ورک کا حصہ تھی۔ اغوا کاروں کو اسلحہ فراہم کرنے والے افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، اور کیس بند نہیں کیا گیا بلکہ مزید عناصر کی تلاش جاری ہے۔
اس موقع پر حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہایت افسوسناک سانحہ ہے۔ حکومت، پولیس اور سیاسی ٹیم متاثرہ خاندان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ والدین نے مکمل تعاون کیا، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود بچے کی بحفاظت واپسی ممکن نہ ہو سکی، جس پر ہم گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
تاجر داعش ڈی آئی جی اعتزاز گورای کوئٹہ مصور خان کاکڑ