data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (اے پی پی) وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ بلوچستان کے بارے میں گمراہ کن بیانیے سے دنیا کے سامنے حقیقت کو مسخ کیا جاتا ہے، وائلنس کے ذریعے ریاست کو توڑنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی ، حکومت نے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے قانون میں واضح ترامیم کی ہیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے بدھ کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے دورے کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے حوالے سے جو بیانیہ پیش کیا جاتا رہا ہے وہ محض ایک تصور ہے، اصل حقیقت نہیں۔ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ بلوچستان کے حساس معاملات پر ان کیمرہ بات کی جائے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ بلوچستان کا الحاق ایک تاریخی حقیقت ہے تاہم بلوچستان کے بارے میں گمراہ کن بیانیے سے دنیا کے سامنے حقیقت کو مسخ کیا جاتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اور افغانستان میں تشدد کو بلوچ شناخت سے جوڑنا درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو شک کی بنیاد پر حراست میں لینے کے بعد قانون کے تحت کارروائی ہوگی اور حراست میں لیے گئے ہر شخص کا ہفتے میں ایک بار میڈیکل چیک اپ لازمی ہوگا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ دسمبر میں بلوچستان کا ایک بھی سکول بند نہیں ہوگا۔

اسٹاف رپورٹر سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بلوچستان کے انہوں نے نے کہا

پڑھیں:

ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر

انسان کا سب سے قدیم اور شاید سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ اکثر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم سب ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں، سب ایک جیسا دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ سچ ہے؟ کیا ہمارے مشاہدات اور تجربات بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں؟

جدید نفسیات، نیورو سائنس، اور فلسفے کی گہرائیوں میں جھانکیں تو ہمیں ایک الگ ہی تصویر نظر آتی ہے۔ بیرونی دنیا شاید ایک ہو، لیکن ہمارے اندر جو دنیا آباد ہے، جو منظر ہمارے ذہن میں بنتے اور بگڑتے ہیں، وہ ہر شخص کے لیے بالکل مختلف اور انوکھے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ’پوشیدہ سرزمین‘ ہے جہاں ہر کوئی اپنی الگ حقیقت میں زندگی گزار رہا ہے۔


ذہن کی فلٹرنگ: ہر سوچ ایک منفرد نظر

ہمارا ذہن کوئی خالی سلیٹ (Tabula Rasa) نہیں جس پر دنیا اپنی مرضی کے نقش بنا دے۔ یہ ایک فعال اور مسلسل فلٹر کرنے والا نظام ہے۔ ڈینیل کاہنیمن، جو کہ ایک مشہور ماہر نفسیات اور نوبل انعام یافتہ ہیں، نے اپنی کتاب 'Thinking, Fast and Slow' میں بتایا کہ ہمارا ذہن دو حصوں میں کام کرتا ہے: ایک حصہ تیز، جذباتی، اور غیر ارادی، جبکہ دوسرا حصہ سست، منطقی اور سوچے سمجھے فیصلے کرتا ہے۔ یہ دونوں حصے مل کر ہمارے ہر فیصلے اور سوچ کو شکل دیتے ہیں۔

ہمارا ماضی، ہماری یادیں، ثقافت، مذہب، ہمارے خوف اور ہماری امیدیں، یہ سب مل کر ایک خاص 'Perceptual Lens' بناتے ہیں۔ اس پرسیپچوئل لینز کو سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ یہ ایک ایسا ذہنی چشمہ ہے جو ہمیں ہر چیز کو اپنے مخصوص زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب کسی شہر میں کوئی احتجاجی مارچ ہوتا ہے تو ایک شخص کےلیے یہ ’جمہوریت کا حق‘ ہوسکتا ہے، جبکہ دوسرا اسے ’امن و امان کے لیے خطرہ‘ سمجھتا ہے۔ دونوں کی نظریں ایک ہی واقعہ دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کی سوچ میں فرق ہوتا ہے۔ ان کا مشاہدہ اپنی جگہ Biased یا متعصب ہے۔ اسی طرح، ایک شاعر جب جنگل میں جاتا ہے تو اسے فطرت کی خوبصورتی اور اس کے گہرے جذبات نظر آتے ہیں، مگر اسی جنگل میں ایک کاروباری شخص صرف لکڑی کی قیمت اور اس کا ممکنہ منافع دیکھتا ہے۔ آنکھیں ایک ہی چیز دیکھ رہی ہیں، لیکن ان کے دماغوں میں بننے والی تصویریں مکمل طور پر مختلف ہیں۔


فلسفیانہ سوال: کیا ہم سب ایک ہی Tunnel میں قید ہیں؟

فلسفے میں یہ بحث صدیوں پرانی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے فلسفی جارج برکلے کا مشہور قول "Esse est percipi" یعنی ’’کسی چیز کا وجود اس کے ادراک پر منحصر ہے‘‘ اس خیال کی بنیاد ہے۔ آج کل یہ سوچ 'Solipsism' کی شکل میں سامنے آتی ہے، جس کے مطابق ایک انسان اپنے ذہن کے علاوہ کسی اور وجود کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ شاید ایک انتہا پسندانہ سوچ ہو، لیکن یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہمارا اپنا وجود ہی ہمارے ہر تجربے کا محور ہے۔

ہم جو کچھ بھی جانتے ہیں، وہ ہمارے حواس خمسہ کے ذریعے ہمارے دماغ تک پہنچتا ہے۔ ہمارا دماغ ان سگنلز کو رنگ، آواز، اور احساس میں بدلتا ہے۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ ہماری حقیقت صرف ایک محدود اور ادھورا ورژن ہو؟ کیونکہ ہمارے حواس بھی تو محدود ہیں؛ ہم الٹرا وائلٹ روشنی نہیں دیکھ سکتے اور کتوں جیسی سننے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔


نیورو سائنس کی نئی روشنی,  ہمارا دماغ ایک تخلیق کار ہے

جدید نیورو سائنس کے مشہور نیورو سائنٹسٹ ڈیوڈ ایگلمین نے اپنی کتاب 'The Brain: The Story of You' میں اس بات کی وضاحت کی کہ ہمارا دماغ ایک ’بند اکائی‘ کی طرح ہے۔ یہ صرف برقی سگنلز کو وصول کرتا ہے۔ یہ سگنلز نہ تو روشنی ہوتے ہیں اور نہ ہی آواز، بلکہ ہمارا دماغ انہیں رنگوں، خوشبوؤں اور جذبات میں ڈھالتا ہے۔ اس لحاظ سے، ہماری پوری زندگی دراصل ایک ’شعوری تخلیق‘ ہے۔ ماہرِ اعصاب انیل سیٹھ کا 'Predictive Processing' کا نظریہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہے، جس کے مطابق ہمارا ذہن مسلسل یہ پیش گوئی کرتا ہے کہ اسے باہر سے کیا محسوس ہونے والا ہے۔


تنازعات کی اصل وجہ، اپنی حقیقت کا غرور

یہ صرف ایک علمی یا فلسفیانہ بحث نہیں ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی، ہمارے سماجی جھگڑے، اور یہاں تک کہ بین الاقوامی تنازعات بھی اسی غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں کہ ’’میری حقیقت ہی آخری اور حتمی حقیقت ہے‘‘۔ جب ہم یہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ دوسرے انسان کا نقطہ نظر بھی اس کی اپنی ذہنی ساخت، اس کے ذاتی تجربات اور اس کی اپنی اندرونی دنیا کا نتیجہ ہے، تو بات چیت ختم ہوجاتی ہے اور تصادم شروع ہوجاتا ہے۔

تو پھر اس کا کیا حل ہے؟ حل یہ نہیں کہ ہم اپنی داخلی حقیقت کو چھوڑ دیں، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں۔ اس کا حل تو اس حقیقت کو مان لینے میں پنہاں ہے کہ ’’ہر انسان اپنی اپنی دنیا میں رہ رہا ہے‘‘۔

یہی سوچ ہمیں ایک ایسی تواضع (Humility) عطا کرتی ہے، ایک ایسی انکساری دیتی ہے جس سے ہم دوسروں کے خیالات اور نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے ہم ان سے متفق نہ ہوں۔ یہی وہ بنیاد ہے جو صحت مندانہ تعلقات، مثبت گفتگو اور پرامن بقائے باہمی کو یقینی بناتی ہے۔ ہماری بیرونی دنیا کے مناظر شاید سب کے لیے ایک جیسے ہوں، لیکن ان سے کہیں زیادہ پراسرار اور وسیع سفر ہماری ان اندرونی دنیاؤں کا ہے، جنہیں ہمارا ذہن دیکھتا ہے۔ اس سچائی کو مان لینا ہی دراصل حقیقی دانشمندی کی پہلی سیڑھی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشتگردوں کو آج بھی افغانستان کی سرپرستی حاصل ہے: سرفراز بگٹی
  • سپریم کورٹ بار میں سرفراز بگٹی کا خطاب، بلوچستان کی اصل تصویر پیش کرنے پر زور
  • افغان مہاجرین کی باعزت واپسی دونوں ممالک کے بہتر مفاد میں ہے، سرفراز بگٹی
  • مغوی اسسٹنٹ کمشنر کے شہید ہونے کی  خبر درست نہیں: وزیراعلیٰ بلوچستان
  • مائنز اینڈ منرلز بل دوبارہ اسمبلی میں پیش کرکے خدشات دور کرینگے، سرفراز بگٹی کا اعلان
  • بلوچستان اسمبلی میں مائینز اینڈ منرل ایکٹ دوبارہ پیش کیا جائے گا، وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی
  • اسسٹنٹ کمشنر زیارت کی شہادت کی خبر درست نہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی
  • ذہن کی پوشیدہ دنیا: ادراک و خیال کی نظروں سے اوجھل مناظر
  • 23 ستمبر کو چُھٹی ؟ حقیقت سامنے آگئی