ارب پتی بننے پر غصہ، بزنس مین نے پوری کمپنی خیرات کر دی
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یہ خبر ایک عام امیر شخص کی چمک دمک سے ہٹ کر بالکل مختلف سوچ رکھنے والے ارب پتی کی کہانی ہے۔
دنیا بھر میں ارب پتی افراد اپنی دولت کو محلات، گاڑیوں اور تعیشات پر خرچ کرتے ہیں، مگر یوون شوانارڈ (Yvon Chouinard) کی کہانی اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ ایک ایسے شخص ہیں جنہیں ارب پتی بننے پر خوشی نہیں بلکہ غصہ آیا اور انہوں نے اپنی دولت فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دی۔
یوون شوانارڈ ایک ماہر کوہ پیما ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بیابانوں اور پہاڑوں پر گزارا۔ وہ سادہ زندگی کے عادی رہے اور اکثر انتہائی کفایت شعاری اختیار کرتے۔ اپنی سوانح حیات میں انہوں نے انکشاف کیا کہ پیسے بچانے کے لیے وہ بلیوں کی غذا کھاتے رہے، گندے پانی کے بجائے کوئلے کو نمکین پانی میں مکس کرکے پیتے، اور زندگی کے کئی سال روزانہ محض چند سینٹس میں گزارتے۔ اسی جدوجہد کے دوران انہوں نے اپنے کوہ پیمائی کے آلات فروخت کرکے ضروریات پوری کیں اور بالآخر 1973 میں اپنی کمپنی Patagonia قائم کی۔
وقت کے ساتھ Patagonia ایک کامیاب برانڈ بن گئی اور شوانارڈ 2017 میں فوربز کی ارب پتی فہرست میں شامل ہوگئے۔ مگر ان کے نزدیک یہ کوئی اعزاز نہیں تھا بلکہ “پالیسی کی ناکامی” تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ یہ ان کی اقدار کے خلاف تھا۔ وہ کمپنی بیچ کر یا حصص فروخت کرکے مزید امیر نہیں بننا چاہتے تھے۔
اسی لیے 2022 میں انہوں نے ایک منفرد فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنی پوری کمپنی ایک ٹرسٹ اور غیر منافع بخش ادارے کے حوالے کردی تاکہ اس کے منافع کا بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے اور قدرتی ماحول کے تحفظ پر خرچ ہو۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ہر سال تقریباً 100 ملین ڈالر ان مقاصد کے لیے مختص کیے جاتے ہیں۔ یوں یوون شوانارڈ ایک مثال بن گئے کہ حقیقی کامیابی دولت جمع کرنے میں نہیں بلکہ اسے انسانیت اور فطرت کی بھلائی کے لیے استعمال کرنے میں ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے ارب پتی کے لیے
پڑھیں:
جگہیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں!
اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
امریکی ادیب W.C.Fields نے گو ئٹے پر اپنی کتاب میں لکھا تھا ْ ”وہ کسی طرح شیکسپیئر سے کم نہیں تھا۔ جو شیکسپیئر جانتا تھا وہ گوئٹے بھی جانتا تھا اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھا اور یہ وہ بات ہے جو شیکسپیئر کے سوانح نگا ر اس کی زندگی میں تلاش نہیں کرسکے”۔ 1744 میں اسکا شاہکار نا ولٹSorrows of Werther شائع ہوا۔ اس نا ول کی مقبو لیت اور شہرت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ورتھر کے نام سے یورپ اور جرمنی میں کئی کلب قائم ہوئے۔ نوجوان اس المناک رومانی ناول سے اتنے متا ثر ہوئے کہ خو د کشی کرنے لگے۔ اس ناول نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1775 میں اس کا دوسرا عظیم تخلیقی کارنامہ Gotl Mon Berlichingen شائع ہوتا ہے۔ اس کے اس شاہکارکو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انگر یزی میں اس کا ترجمہ والٹر اسکاٹ نے کیا۔
یہ ہی وہ دور ہے جب اس نے اپنا عظیم ترین تخلیقی شاہکار فاوسٹ لکھنا شروع کیا ۔ فاوسٹ نے اس لا فانی بنا دیا ۔ فاوسٹ کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ فاوسٹ ایک عالم کی حیثیت سے اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہے اور وہ افسردہ ہوجاتاہے اپنی جان لینے کی کوشش کے بعد ،وہ شیطان کو مزید علم اور جادوئی طاقتوں کے لیے پکارتاہے جس سے دنیا کی تمام لذتیں اور علم حاصل کیا جاسکتا ہے جواب میں شیطان کا نمائندہ مسفیٹو فلیس ظاہر ہوتاہے، وہ فاوسٹ کے ساتھ ایک سودا کرتاہے، میفسٹو فلیس اپنی جا دوئی طاقتوں سے فاوسٹ کی کئی سالوں تک خدمت کرے گا لیکن موت کے اختتام پر شیطان فاوسٹ کی روح کا دعویٰ کرے گا اور فاوسٹ ہمیشہ کے لیے اسکاغلام رہے گا۔ گوئٹے کا شیطان انسان کی اناکو بھڑکا تا ہے اور اس وسیلے سے اپنا کام نکالتاہے ۔وہ چاہتا ہے کہ انسان الجھنوں میں گھرا رہے۔ اس میں وہ مسرت محسوس کرتاہے انسان کی سربلندی اسے منظور نہیں ۔ وہ انسان کا سب سے بڑا حریف ہے وہ انسان کو ترغیب دیتاہے کہ وہ دوسروں کی بھلائی اور جذبات کو نظر انداز کرکے لذت دنیاوی میں مصروف رہے۔ جب فاوسٹ ایک جگہ میفسٹو فلیس کو لعنت ملامت کرتاہے تو شیطان کہتاہے ” اے زمین کے لاچار اور بے بس بیٹے! ذرا سوچ تو میرے بغیر تو زندگی کے دن کس طرح گزارتا؟ زندگی کے سو زو ساز اور ذوق و شوق کا سامان کہاں سے لاتا ؟ یاد رکھ اگر میںنہ ہوتا تو اس کرہ ارض پر تیرا وجود نہ ہوتا ۔ تو اسے چھوڑ کر بھاگ چکا ہوتا”۔ دوسر ی طرف فلابیئر نے 1874 میں ناول La Temptation De Saint Antonie لکھا ناول میں Saint Antoine کی آزمائش جسم اور روح کی آزما ئش ہے ۔ شیطان اسے اس طرح مخاطب کرتاہے ” یہاں کوئی مقصد نہیں ۔ صرف نا محدود کا وجود ہے اور بس ۔ عرض تیرے حواس کا دھوکہ ہے اور جو ہرتیرے تخیل کا کر شمہ ہے۔ چونکہ عالم اشیا کے دائمی سیلان کی کیفیت جاری وساری ہے اس لیے یہاں نمود ہی سب سے زیادہ حقیقی اور التبا س ہی واحد حقیقت ہے ”۔ شیطان سینٹ انتواں کو بہکانے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ وہ اسے دنیاوی لذتوں میں پھنسا دیتا ہے اور اسے یہ باور کراتاہے کہ یہ ہی اصل اور آفاق گیر زندگی ہے ۔ فاوسٹ اور سینٹ انتو اں دنیا وی آسائشوں اور عیا شیوں، لذتوںکے لیے، ایک اپنی روح شیطان کے ہاتھوں فروخت کر دیتا ہے دوسرا شیطان کے بہکاوے میں پھنس جاتاہے ۔یہ دونوں کہانیاں اتنی سچی ہیں جو صدیوں سے دنیا میں باربار دہرائی جارہی ہے۔ گروڈک یہ کہتے کبھی نہ تھکتا تھا کہ ہم اپنی زندگی نامعلوم اور بے اختیار قوتوں کے اثرات کے تحت بسر کرتے ہیں۔
ہم اگر ملک کی76سالہ تاریخ کا باریکی کے ساتھ معالعہ کریں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہوگاکہ ہمارے ملک کے با اختیاروں، طاقتوروںاور حکمرانوں کی اکثریت نے یا تواپنی روحیں شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیں یا پھر وہ شیطان کے بہکاوے میں آچکے ہیں کیو نکہ جس طرح سے انہوں نے اپنی عیا شیوں ، لذتوں اورآرام کے لیے ملک کے وسائل کو لوٹا اور ملک کے عوام کو جس طرح برباد اور ذلیل و خوار کیا اور کررہے ہیں۔ وہ کوئی سمجھدار ، ذہین ، باکردار انسان نہیں کرسکتا جس کے پاس جتنا بڑا عہد ہ یا رتبہ رہا ہے یا ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان اور بد کردار ثابت ہواہے ۔ہمارے ملک کے ہر کرتا دھرتا ، بااختیار اور طاقتور کی قبروں کے کتبے پر یہ ضرور لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے انسان محبت کرتے تھے اور نیک آدمی اس سے ڈرتے تھے اور جس کی بے ایمانی ، کر پشن اور لوٹ مار اور عیاشیوں کی ہمسری ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام یہ سو چنے پر مجبور ہیں کہ ان میں اور عہد وحشت کے انسانوں کے درمیان ترقی کی رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے۔ہمارے عہد کے بد کردار اور طاقتور لوگ اپنے عیش وا رام کی خاطر باقی ساروں انسانوں کا چین و سکون ، آرام اور انہیں برباد کرنے پر اسی طرح راضی اور تیار ہوجاتے ہیں جیسا کہ عہد و حشت کے زمانے میں ہوتا تھا۔ ان کی ہوس اور خو اہشیں انسانوں کی نہیں بلکہ دیوئوں کی ہیں۔جو کبھی ختم ہی نہیں ہوپارہی ہیں جو جتنا روپے پیسے ، ہیرے جواہرات ، زمینیں ، جاگیریں جمع کرتے جارہے ہیں ان کی بھوک او ر بڑھتی جارہی ہے ان کی بے چینی اور بے اطمینانی میں اور اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ پوری دنیا میں اس قدر ترقی کے باوجود ہمارے ملک کے شہروں میں آج بھی گندگی ،غلیظ اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں ۔ لوگ صرف ایک روٹی کی خاطر خو د کشیوں پر مجبور ہیں ۔لوگ غربت اور افلاس کی وجہ سے اپنے جسموں کے اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں ۔شیطان نہ انہیں چین لینے دے رہاہے اور نہ ہی ہمیں سکون سے زندگی بسر کرنے دے رہاہے۔ چاروں طرف صرف بھوک ہی بھوک ہے ۔
شیکسپیئراپنے ڈرامنے King Lear میں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا، زندگی کی ماہیت کونہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی ، جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا۔ نطشے بہت حساس انسان تھا 44 سال کی عمر میں وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ۔ سوانح نگاروں کے مطابق ایک روز وہ اپنے فلیٹ سے نکلا دیکھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بے دردی سے پیٹ رہا ہے۔ نطشے سے یہ دلخراش منظر دیکھا نہ گیا بے خود ہو کر وہ گھوڑے سے لپٹ گیا۔ کوچوان نے گھوڑے کے ساتھ ساتھ نطشے کو بھی پیٹا۔ اس کے بعد وہ 12سال تک زندہ رہا لیکن وہ اپنی عقل و خرد سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ ہمارے ملک کے بااختیار اور طاقتور اتنے بے شرم اور بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں لاکھوں دم توڑ تے لوگ دکھائی نہیں د ے رہے ہیں ۔ایک ایک روٹی کے لیے بھاگتے لوگ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ سڑکوں پر ننگے پائوں ، بھوکے پیاسے لوگوں سے کیوں انہوں نے اپنی نظریں چرارکھی ہیں ۔کروڑوں انسانوں کی حالت زار روزانہ ٹی وی ، اخبارات اور سو شل میڈیا پر دکھائی جارہی ہیں ۔ لیکن وہ اندھے ، گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں شیلے اپنی نظم Ozymandias میں لکھتا ہے کہ ہر چیز یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہر چیز کا مقدر فنا ہوجاناہے ۔ یہ کائنا ت کا اصول ہے کہ کوئی چیز ہمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتی ،اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ میرے ملک کے بااختیاروں ، طاقتوروں تمہارے پاس بھی اختیار اور طاقت ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ جگہیں بدلتی رہتی ہے۔ آج تم آقا ہو اور باقی سب غلام ہیں ۔ لیکن جس روز تم غلام ہوگے اور باقی جب آقاہوں گے تو سو چ لو تمہارے ساتھ کیا حشر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔