کرن جوہر نے ویرات کوہلی کو شو پر بلانے سے کیوں انکار کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
بولی وُڈ کے معروف فلم ساز اور میزبان کرن جوہر نے ایک حالیہ گفتگو میں واضح کیا ہے کہ وہ مستقبل میں ویرات کوہلی یا کسی بھی کرکٹر کو اپنے مشہور شو ”کافی وِد کرن“ میں شرکت کی دعوت نہیں دیں گے۔
کرن جوہر نے یہ بات ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہی۔ گفتگو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ کہ وہ کون سی مشہور شخصیت ہے جو ہمیشہ ان کے شو کی دعوت ٹھکرا دیتی ہے؟ اس پر کرن جوہر نے فوراً رنبیر کپور کا نام لیا اور بتایا کہ ”وہ پہلے آچکے ہیں، مگر پچھلے تین سیزنز سے انکار کر رہے ہیں۔“
جب ثانیہ مرزا نے سوال کیا کہ ایسا کون سا شخص ہے جو کبھی شو پر نہیں آیا، تو کرن جوہر نے چند لمحوں کے بعد مسکراتے ہوئے کہا، ’میں نے ویرات کوہلی کو کبھی نہیں بلایا اور انہیں بلانے کا کوئی ارادہ بھی نہیں۔ ہارڈک اور راہول کے ساتھ جو کچھ ہوا، اُس کے بعد میں نے طے کر لیا کہ کرکٹرز سے فاصلہ بہتر ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ، ’کچھ لوگوں کے بارے میں مجھے اندازہ تھا کہ وہ ویسے بھی نہیں آئیں گے، اس لیے انہیں بلانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔‘
View this post on InstagramA post shared by IVM Podcasts (@ivmpodcasts)
واضح رہے کہ سال 2019 میں ”کافی وِد کرن“ کے ایک ایپیسوڈ میں کرکٹرز ہارڈک پانڈیا اور کے ایل راہول شریک ہوئے تھے۔ شو کے دوران ہارڈک پانڈیا نے خواتین کے بارے میں کچھ غیر مناسب تبصرے کیے جنہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
بیانات میں انہوں نے فخر سے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں بات کی اور مذاق میں یہاں تک کہا کہ وہ خواتین کے ساتھ رویہ ”ویسٹ انڈین کھلاڑیوں اور بلیک کلچر“ کو دیکھ کر سیکھے ہیں۔ یہ جملے عوامی سطح پر غیر شائستہ اور عورت مخالف قرار دیے گئے۔
واقعے کے بعد بی سی سی آئی نے دونوں کھلاڑیوں کے خلاف انضباطی کارروائی کی، انہیں عارضی طور پر ٹیم سے معطل کر دیا اور فی کس 20 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا۔
ہارڈک پانڈیا نے بعد میں سوشل میڈیا پر معافی مانگی اور لکھا کہ وہ ”شو کے مزاحیہ انداز میں بہک گئے تھے۔“ مگر تب تک شو کی قسط پلیٹ فارم سے ہٹا لی گئی تھی۔
اس وقت بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے بھی دونوں کھلاڑیوں کے بیانات سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ٹیم ان خیالات کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ دونوں کھلاڑیوں کی ذاتی رائے تھی اور انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کر لی ہے۔‘
کرن جوہر نے بعد میں تسلیم کیا تھا کہ وہ اس واقعے کے بعد کافی پریشان رہے۔ ان کے مطابق، ’یہ میرا شو تھا، میرا پلیٹ فارم۔ مہمانوں کی باتوں کے نتیجے میں جو ردِعمل آیا، وہ میرے دل پر بھی بوجھ بن گیا۔ میں نے کئی راتیں جاگ کر گزاری ہیں۔‘
اسی تجربے کے بعد کرن جوہر نے فیصلہ کیا کہ مستقبل میں وہ صرف فلمی شخصیات کو ہی شو پر مدعو کریں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ویرات کوہلی کرن جوہر نے کے بعد
پڑھیں:
امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
واشنگٹن: امریکا میں بجٹ کے معاملے پر قانون سازوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بحرانی صورت حال اور تاریخ کا سب سے بڑا شٹ ڈاؤن جاری ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کا موجودہ شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہونے کے بعد تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن گیا ہے۔
شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟
یہ معاملہ بجٹ سے شروع ہوا جو بحرانی کیفیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ قانون سازوں کے درمیان جاری شدید اختلافات ہیں اور یہ فوری حل ہوتے نظر بھی نہیں آرہے۔
شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں یکم اکتوبر سے وفاقی اخراجات کے بل پر اتفاق نہیں کر سکیں جبکہ گزشتہ بجٹ کی مدت یکم اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی اور نیا میزانیہ پاس نہ ہونے کے باعث حکومتی اداروں کی فنڈنگ بند ہو گئی۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت اخراجات میں کٹوتی کر کے بل منظور کرنا چاہتی ہے تاہم اس معاملے پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں صحت و ٹیکس کریڈیٹس کی شرح میں کمی کی جائے۔
شٹ ڈاؤن کے دوران بند ہونے والی سروسز
شٹ ڈاؤن کے دوران صرف ضروری خدمات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن، پولیس اور اسپتالوں کی ایمرجنسی سروسز کے محکمے شامل ہیں تاہم ڈیوٹی کرنے والے بیشتر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔
شٹ ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آپریشن بری طرح سے متاثر ہے، ایئر ٹریفک کنٹرولرز تنخواہ کی عدم ادائیگی کے بغیر کام تو کررہے ہیں تاہم بد انتظامی کی وجہ سے ہزاروں پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔
فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے لیے فنڈز بند کردیے گئے تھے تاہم وفاقی جج نے ہنگامی فنڈ سے اس کی بحالی کا حکم دیا جبکہ پارکس، عجائب گھر اور پری اسکولز شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔
کئی سرکاری و نجی ادارے بھی شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوئے جنہوں نے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے سنجیدہ افراد 27 نومبر (تھینکس گیونگ) سے پہلے معاملات کو حل کرنے کیلیے کاوشیں تو کررہے ہیں مگر بظاہر ابھی تک دونوں جانب سے کسی بھی جماعت نے اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھائی ہے۔
امریکی معیشت کو ہر ہفتے 15 ارب ڈالرز کا نقصان
امریکا کے معاشی ماہرین نے شٹ ڈاؤن طویل ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ ہر ہفتے امریکی معیشت کو 15 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، شٹ ڈاؤن کا معاملہ حل ہونے میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اُس کا معیشت پر اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔
شٹ ڈاؤن کا خاتمہ کب ہوگا؟
ان ساری باتوں کے باوجود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے تاہم نومبر کے آخر تک دونوں جماعتوں کے درمیان اگر بات چیت ہوتی ہے تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔
حالیہ شٹ ڈاؤن سے ملازمت پیشہ امریکی زیادہ پریشان کیوں ہیں؟
ویسے تو ماضی میں امریکا میں کئی بار شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں جس کے دوران سرکاری اداروں کے ملازمین کو بغیر تنخواہ ادائیگی کے کام کرنا پڑتا ہے اور معاملہ حل ہونے کے بعد واجبات کو حکومت ادا کرتی ہے۔
تاہم اس بار امریکی شہری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہے کہ ’شٹ ڈاؤن کے دوران کام کرنے والے تمام ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ مخصوص لوگوں کو واجبات کی ادائیگی کی طرف اشارہ تھا۔