اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ: 9 مئی کے کیس میں سزا یافتہ چاروں افراد بری
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
اسلام آباد(محمد ابراہیم عباسی )اسلام آباد ہائیکورٹ نے 9 مئی کے پرتشدد واقعے میں انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا پانے والے چار مجرموں کو بری کر دیا۔ یہ فیصلہ جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے سنایا۔
بری ہونے والوں میں سہیل خان، شاہزیب، اکرم اور میرا خان شامل ہیں۔ سہیل خان اور شاہزیب کی پیروی معروف وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے کی۔ سماعت کے دوران بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر میں سہیل خان اور شاہزیب کا نام کہیں درج نہیں، نہ ہی شناخت پریڈ کے دوران کسی گواہ نے ان کی نشاندہی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ محمد عامر کو شناخت کرنے والے گواہوں کے باوجود کیس سے ڈسچارج کر دیا گیا، جبکہ سہیل خان کے خلاف کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔
اکرم اور میرا خان کے حوالے سے بھی وکیل نے مؤقف اپنایا کہ صرف ایک گواہ نے شناخت کی، جبکہ جن گواہوں نے شناخت کی ان کا نام ایف آئی آر میں شامل نہیں۔ عدالت نے اس نکتے پر بھی سوال اٹھایا کہ اگر ملزمان سے لاٹھیاں برآمد ہوئیں تو کسی کو زخمی کیوں نہیں کیا گیا؟ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پراسیکیوشن نہ ملزمان کی موقع پر موجودگی ثابت کر سکی اور نہ ہی کسی کے زخمی ہونے کا ریکارڈ پیش کیا گیا۔
پراسیکیوٹر کی جانب سے عدالت سے مزید وقت مانگا گیا، جس پر عدالت نے کہا کہ تمام دلائل سننے کے بعد اب مزید وقت دینا مناسب نہیں۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صرف شناخت پریڈ کی بنیاد پر سزا دینا نظام عدل کے ساتھ زیادتی ہو گی۔
آخر میں عدالت نے تمام شواہد اور دلائل کا جائزہ لینے کے بعد سہیل خان، شاہزیب، اکرم اور میرا خان کو بری کرنے کا حکم دے دیا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
عمران خان کو 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کیوں نہیں ملی؟ لاہور ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جانب سے 9 مئی کے پُرتشدد واقعات سے متعلق آٹھ مقدمات میں دائر ضمانت کی درخواستیں مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
فیصلے میں عدالت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عمران خان کے مبینہ سازشی بیانات کے باعث ریاستی املاک، عوامی جان و مال اور جناح ہاؤس کو شدید نقصان پہنچا۔ عدالت کے مطابق یہ کارروائیاں ایک منظم سازش کے تحت کی گئیں جن کا مقصد ریاستی اداروں اور حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔
مزید برآں، سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایک پولیس اہلکار نے 4 مئی 2023 کو چکری میں عمران خان کی مبینہ سازش سنی، اور صرف 45 منٹ میں اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ عدالت نے اس بیان کو بروقت قرار دیا اور فیصلے میں اس نکتے پر خصوصی زور دیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کا بطور جماعتی سربراہ کردار دیگر شریک ملزمان سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ پراسیکیوشن کے پاس عمران خان کے خلاف آڈیو، ویڈیو اور ٹرانسکرپٹ شواہد موجود ہیں، جو ان کے کردار کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
عدالت نے عمران خان کے وکیل کے اس مؤقف کو بھی غلط قرار دیا کہ ان کے موکل کو 14 ماہ بعد گرفتار کیا گیا، کیونکہ عمران خان 9 جولائی 2024 تک ان مقدمات میں عبوری ضمانت پر تھے، جس کے باعث گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔
یہ فیصلہ عمران خان کے لیے قانونی میدان میں ایک اور دھچکہ تصور کیا جا رہا ہے، خاص طور پر جب کہ وہ پہلے ہی 9 مئی کے واقعات کے باعث شدید سیاسی اور قانونی دباؤ کا شکار ہیں۔