پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
سنہ 2021 میں افغان طالبان کی کابل واپسی کے بعد گزشتہ 4 برسوں میں پاک افغان تجارت کا مجموعی حجم ایک ارب 48 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر ایک ارب 99 کروڑ ڈالر تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس دوران پاکستان کی افغانستان کو ایکسپورٹ زیادہ رہی اور افغانستان کی پاکستان کو ایکسپورٹ نسبتاً کم رہی۔ باہمی تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں 196 ملین ڈالر سے بڑھ کر 574 ملین ڈالر تک رہا ہے۔
پاکستان کے حق میں تجارتی توازن کی کمترین سطح سنہ 2022 میں نوٹ کی گئی۔ اس سال پاکستانی سر پلس صرف 3 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہ گیا تھا اس سال پاکستان نے افغانستان سے بڑی مقدار میں کوئلہ منگوایا تھا تو افغانستان کا خسارہ بہت کم رہ گیا تھا۔
پاکستان سے افغانستان کو سب سے زیادہ چاول برآمد کیے جاتے ہیں جن کی مالیت 20 سے 40 کروڑ ڈالر سالانہ ہے، اس کے بعد ادویات 10 سے 13 کروڑ ڈالر، 5 سے 6 کروڑ ڈالر کا سیمنٹ، تقریباً 7 کروڑ ڈالر کی سبزیاں، خصوصاً آلو، اور 5 سے 8 کروڑ ڈالر مالیت کی دیگر فوڈ آئٹمز افغانستان بھیجی جاتی ہیں۔
افغانستان سے پاکستان کو 10 سے 20 کروڑ ڈالر کا کوئلہ، 12 سے 13 کروڑ ڈالر کی کاٹن، 5 سے 6 کروڑ ڈالر کے انگور، تقریباً 4 کروڑ ڈالر کے ٹماٹر، اور 4 سے 7 کروڑ ڈالر مالیت کا پیاز درآمد کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تبدیل ہوتا سیکیورٹی ڈومین آئینی ترمیم کی وجہ؟
ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے بھی پاکستان افغانستان کے لیے سب سے بڑا راستہ رہا ہے، طالبان کے دور میں 2022 میں افغانستان نے پاکستان کے راستے 7 ارب ڈالر مالیت کا سامان منگوایا جو اگلے سال کم ہو کر 3 ارب ڈالر اور بعد میں مزید کم ہوکر کر 1 ارب 70 کروڑ ڈالر تک رہ گیا لیکن سنہ 2025 میں اس ٹرانزٹ تجارت میں دوبارہ 78 فیصد اضافہ تک دیکھنے میں آیا ۔ باڈر کی بندش سے یہ دوبارہ گر کر اب ایک ارب ڈالر تک رہ سکتا ہے ۔
افغان نائب وزیراعظم اور وزیر برائے اقتصادیات ملا عبدالغنی برادر نے حال ہی میں افغان تاجروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پاکستان سے درآمدات اور برآمدات بند کرنے کی تیاری کریں اور آئندہ 3 ماہ کے اندر متبادل مارکیٹوں کی تلاش مکمل کریں۔
افغانستان کے لیے ایکسپورٹ کی سب سے بڑی مارکیٹ پاکستان ہی ہے۔ قندھار انتظامیہ نے تاجروں کو 3 ماہ کے اندر پاکستانی اشیا مارکیٹوں سے ہٹانے کا نوٹس دیا ہے۔ نوٹس دینے کے ایک ہفتے بعد ہی مارکیٹ میں اس حوالے سے سختی شروع کر دی گئی ہے۔
ملا برادر کے اعلان سے صرف پاک افغان تجارت ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ وسطی ایشیا کے ملکوں تک بھی اس کے اثرات ہوں گے کیونکہ پاکستان کے تاجر افغانستان کے راستے ہی وسطی ایشیا تک سامان پہنچاتے ہیں، روزانہ 600 سے 1000 کے قریب ٹرک پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے اکثر کی منزل زیادہ تر افغانستان سے آگے وسطی ایشیا کے ممالک ہوتے ہیں۔
افغان طالبان ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو پاکستان کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں جہاں بھارت کو حال ہی میں امریکا نے 6 ماہ کے لیے پابندیوں سے استثنیٰ دیا ہے۔ فروری 2024 سے افغانستان اس پورٹ میں 35 ملین ڈالر کی محدود سرمایہ کاری کا اعلان بھی کر چکا ہے۔
افغانستان کی وزارت تجارت کے ترجمان اخوندزادہ عبدالسلام جواد نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے 8 ہزار کنٹینر پھنسے ہوئے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ جواد کا کہنا تھا کہ چاہ بہار سے سامان کی ترسیل میں پہلے دو ماہ لگتے تھے، اب یہ وقت کم ہو کر سترہ دن رہ گیا ہے۔
مزید پڑھیے: افغانستان میں پختون برتری کا خاتمہ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟
سال 2024 میں افغانستان نے چاہ بہار کے ذریعے 127 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کی ہے۔ جواد کا یہ بھی کہنا تھا کہ چاہ بہار ہمارے لیے کسی (پاکستان) کا متبادل نہیں، بہت سے روٹس میں ایک روٹ ہے۔
پاکستان کے ساتھ تجارت کھلی رکھنے کے لیے بات چیت جاری ہے اور یہ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
پاکستان افغانستان جس سمت چل پڑے ہیں۔ اس کا نقصان صرف ان 2 ملکوں تک محدود نہیں رہے گا۔ سنٹرل ایشیا اور جنوبی ایشیا میں کنیکٹیوٹی کے پراجیکٹ متاثر ہونگے۔ روسی انٹرسٹ کو نقصان پہنچے گا۔ ایران کے پاکستان سے بہتر ہوتے تعلقات کے لیے بھی نئے چیلنج سامنے آئیں گے۔ قطر اور ترکی کی ثالثی کوشش میں ناکامی کے بعد اب ایران اور روس دونوں نے پاکستان افغانستان کو ثالثی کی پیشکش کر دی ہے۔
اس پیشکش کا ایک دلچسپ اینگل یہ بھی ہے کہ ایران اور روس دونوں کے انڈیا کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر شنگھائی ہیڈ آف گورنمنٹ اجلاس کے لیے ماسکو پہنچے ہیں۔ ایران اور روس دونوں ہی اس خطے کو دوبارہ اوپر نیچے ہونے کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے یقینی طور پر دونوں ملک انڈیا سے بھی بات کرنے کی اچھی پوزیشن میں ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک افغان مذاکرات کی ناکامی، افغان طالبان کو فیل کرے گی
ہیڈ آف گورنمنٹ اجلاس میں جے شنکر نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم اپنے بنیادی 3 مقاصد کی طرف لوٹے۔ یہ 3 مقاصد شدت پسندی ، دہشتگردی اور علیحدگی پسندی کے خلاف ایک علاقائی اتحاد تھا جس کا نام شنگھائی تعاون تنظیم رکھا گیا۔
جے شنکر کی اس بات پر ہی اگر رک کر سوچیں تو امید باندھنی بنتی ہے۔ ہمارے بدقسمت خطے میں امیدیں ٹوٹنے کے لیے ابھرتی اور تحلیل ہوتی ہیں۔ پھر بھی کچھ وقت کے لیے اچھا سوچ لیتے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔
افغانستان بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر پاک افغان تعلقات پاک افغان مذاکرات پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر پاک افغان تعلقات پاک افغان مذاکرات پاکستان پاکستان کے پاکستان سے ملین ڈالر پاک افغان میں افغان کروڑ ڈالر چاہ بہار ڈالر تک ڈالر کی کے ساتھ رہ گیا کے لیے
پڑھیں:
اہل تشیع کیساتھ دینی اقدار کے فروغ کے لئے تعاون برقرار رہیگا، افغان طالبان
اعلیٰ شیعہ کمیشن کے سربراہ محمد علی اخلاقی نے اس ملاقات میں کہا کہ افغانستان کے اہلِ تشیع امارتِ اسلامی کی سرگرمیوں، بالخصوص وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کارکردگی، کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور آئندہ بھی اس وزارت کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے وزیر نے افغانستان کے اعلیٰ شیعہ کمیشن وفد کے ساتھ ملاقات میں دینی اقدار کے فروغ، عوامی مسائل سننے اور اس کمیشن کے ساتھ مسلسل ہم آہنگی جاری رکھنے پر تاکید کی ہے۔ طالبان حکومت کے وزیر محمد خالد حنفی نے ملاقات کے دوران کہا کہ بیرونی حلقے ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ ایسے اقدامات کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہوا جائے اور دنیا کے سامنے اسلامی نظام کی صحیح تصویر پیش کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی نظام کے تمام ذمہ دار عوام کے خادم ہیں، جس کسی کو بھی حکومتی اداروں کے کام پر کوئی شکایت ہو، وہ براہ راست ہمارے پاس پیش کرے، ہم عوام کے مسائل سننے اور ان کے حل کے لیے پرعزم ہیں۔ خالد حنفی نے اعلیٰ شیعہ کمیشن کے وفد سے درخواست کی کہ وہ پہلے کی طرح وزارت امر بالمعروف کے ساتھ تعاون جاری رکھیں تاکہ معاشرتی اصلاح کے اقدامات مزید مؤثر ہو سکیں۔
دوسری جانب افغانستان کی اعلیٰ شیعہ کمیشن کے سربراہ محمد علی اخلاقی نے اس ملاقات میں کہا کہ افغانستان کے اہلِ تشیع امارتِ اسلامی کی سرگرمیوں، بالخصوص وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی کارکردگی، کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور آئندہ بھی اس وزارت کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھیں گے۔ افغان ریڈیو و ٹیلی ویژن کے مطابق اخلاقی نے کہا کہ یہ وزارت دینی اقدار کے فروغ اور معاشرتی اصلاح میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔
وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر طالبان حکومت کا ایک کلیدی ادارہ ہے، جس کی ذمہ داریوں میں دینی اقدار کا فروغ، سماجی رویوں کی اصلاح، اور مذہبی و ثقافتی سرگرمیوں کی نگرانی شامل ہے۔ اقلیتی مذہبی گروہوں، خاص طور پر شیعہ رہنماؤں کے ساتھ روابط اور ہم آہنگی، طالبان کی جانب سے افغان سماج میں داخلی اتحاد پیدا کرنے کی کوششوں کا حصہ تصور کی جاتی ہے۔