ریاست شخصیات سے نہیں،نظام سے چلتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خوشامد اور چاپلوسی بظاہر نرم گفتاری اور شائستگی کا روپ دھارے ہوتی ہیں، حقیقت میں یہ منافقت کی ایسی شکلیں ہیں جو افراد،معاشرے اور، اداروں کے اعتماد کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔چاپلوس لوگ وقتی مفاد کے لیے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ایسے رویے نہ صرف دیانت داری کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ حق گوئی کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں۔دفاتر، سیاست اور سماجی حلقوں میں چاپلوسی کرنے والے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو ذاتی فائدے یا عہدے کی خاطر دوسروں کو خوش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں اہلِ کردار اور اہلِ محنت افراد پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں، جبکہ نظام نااہل اور مفاد پرست افراد کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔یہ رویہ صرف افراد نہیں، پوری قوم کے اخلاقی ڈھانچے کو متاثر کرتا ہے۔ خوش آمد اور منافقت وقتی فائدہ تو دیتی سکتی ہیں پرطویل مدت میں اعتماد، سچائی اور انصاف جیسے اقدار کو ختم کر دیتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سچائی اور اصول پسندی کو فروغ دیں، تاکہ معاشرہ خوش آمد پر نہیں، بلکہ کردار اور صلاحیت پر قائم ہو۔خوش آمدی لوگ آپ کوہمیشہ یہی احساس دلاتے ہیں کہ آپ جیساکوئی نہیں،جوخوبیاں آپ میں ہیں کسی دوسرے میں ہوہی نہیں سکتی،آپ سے بہترتوکوئی ہوہی نہیں سکتاہے،آپ نہیں توکچھ بھی نہیں،آپ کااختیاراورطاقت بے مثال اورلازوال ہیں۔سچ تویہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پاک ذات کے علاوہ ہرچیزکوزوال پزیرہونا ہے۔اللہ تعالیٰ کی حکومت ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہے باقی سب اقتدار،اختیاراورطاقتیں عارضی ہیں۔
پاکستانی سیاست کی تاریخ میں یہ المیہ سب سے نمایاں اوریکساں دکھائی دیتا ہے کہ اقتدار کی ہوس ہردورمیں جمہوریت کے چہرے کوداغدارکرتی آئی ہے۔ ہمارے سیاست دان، جو خود کو جمہوریت کے ٹھیکیدار اور عوامی نمائندے قرار دیتے نہیں تھکتے، ہمیشہ اقتدار کی غلام گردشوں میں اصولوں کا سودا کرتے نظر آئے ہیں۔ہردورمیں جمہورکے ووٹ کی طاقت کی بجائے طاقتورفوجی عہدیدداروں کی ہاں میں ہاں ملاکرایوان اقتدارمیں پہنچنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ان کے بیانات، وفاداریاں اور نظریات ہمیشہ بدلتے موسموں کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ ضیاء الحق کے قدموں میں بیٹھ کر آمریت کو ،اسلامی نظام، کا نام دیتے رہے، تو کبھی جنرل پرویز مشرف کو سومرتبہ،باوردی صدر، بنانے کے لیے پارلیمان میں تالیاں بجاتے دکھائی دیے۔ یہ وہی سیاست دان ہیں جو ہر دور کے طاقتور کے ساتھ کھڑے ہوکر جمہوریت کا خون کرتے رہے ہیں۔ اپنے مفاد کو ملک و قوم کے استحکام کا نام دیتے رہے ہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کی راہداریوں میں اکثر وہی لوگ کامیاب ٹھہرے جنہوں نے اصولوں کے بجائے موقع پرستی اورخوش آمد کو اپنایا۔
جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء الحق،جنرل پرویز مشرف تک ہر فوجی حکمران کے عہد میں ان ہی سیاست دانوں نے چاپلوسی، موقع پرستی اور وقتی مفاد کو ترجیح دی۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کی ہوا جہاں بھی چلتی دیکھتا ہے، وہیں کا رخ اختیار کر لیتا ہے۔ کبھی ،تسلسلِ جمہوریت، کے نام پر فوجی مداخلت کو جائز قرار دیتا ہے، تو کبھی قومی مفاد کے نام پر اپنی وفاداریاں بدل لیتا ہے۔
تاریخ ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ جب کسی فرد کو ادارے سے بڑا بنا دیا جائے تو ادارے کمزور ہونے لگتے ہیں۔ماضی میں بھی یہی ہوا۔جنرل ایوب خان کے دور میں ،ترقی، کے نام پر ادارے کمزور کیے گئے، جنرل ضیاء کے دور میں ،،اسلامی نظام،، کے نام پر آئین کو معطل کیا گیا، اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ،ترقی یافتہ پاکستان،کا نعرہ لگا کر جمہوری عمل کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ہر دور میں سیاست دانوں نے اس کھیل میں اپنا حصہ ڈالا۔ وہی سیاست دان جو آج جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں، کل انہی آمروں کے قصیدے پڑھتے تھے۔ کسی نے ضیاء الحق کو ،مردِ مومن، مردِ حق، کہا، کسی نے جنرل پرویزمشرف کو ،محسن پاکستان، قرار دیا۔اب جب فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے اختیارات اور مراعات میں 27ویں ترمیم کے تحت اضافہ کیا جارہاہے تو ایک بار پھر یہی خدشہ پیدا ہورہا ہے کہ کہیں تاریخ خود کو دہرانے نہ لگے۔
آج جنرل عاصم منیر فیلڈ مارشل ہیں، کل کوئی اور ہوگا۔ آج جو حکمران اقتدار میں ہیں، کل ان کی جگہ نئے چہرے ہوں گے۔ ادارے مضبوط ہوں تو نہ قیادت کی تبدیلی نقصان دیتی ہے، نہ پالیسی کا تسلسل ٹوٹتا ہے۔ماضی میں ہم نے دیکھا کہ ہر آرمی چیف کے جانے کے بعد نیا چیف اپنی حکمتِ عملی لے کر آتا ہے اور، ادارہ ایک نئے رخ پر چل نکلتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قومی پالیسیوں میں تسلسل کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔اس وقت پاکستان کو شخصیات نہیں، ادارہ جاتی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کے تجربے اور بصیرت کو افواجِ پاکستان کی پالیسیوں کا مستقل حصہ بنانا چاہیے تاکہ آنے والی قیادت اس تسلسل کو برقرار رکھ سکے۔ اس سے نہ صرف فوج مضبوط ہوگی بلکہ ریاستی نظام بھی مستحکم ہوگا۔جہاں تک سیاست دانوں کا تعلق ہے، ان کی اقتدار کی سیاست اب عوام پر آشکار ہوچکی ہے۔ وہ جمہوریت کے نام پر صرف اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ان کے نزدیک عوام صرف ووٹ دینے والے ہاتھ ہیں،قوم نہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اقتدار کے لیے کبھی وردی والوں سے مصافحہ کرتا ہے اور کبھی عوام کے جذبات سے کھیلتا ہے۔ ان کے کردار کی کمزوری ہی ریاستی اداروں کو غیر متوازن کرتی ہے۔یہ سچ ہے کہ پاکستان کے دفاعی استحکام میں فوج کا کردار بنیادی ہے پریہ بھی حقیقت ہے کہ فوج کا وقار اس وقت مزید بلند ہوگا جب سیاست دان اپنی ذمہ داری نبھائیں گے اور ریاست کو ذاتی مفاد کی بجائے قومی نظریے کے تحت چلائیں گے۔
اقتدار کے طلبگار سیاست دانوں کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ وہ ہر دور میں آمریت کا سہارا لیتے رہے جس کا انجام اقتدارکے فوری بعد ہمیشہ شرمندگی اور ناکامی رہا۔ ریاستوں کی بنیادیں شخصیات سے نہیں، اداروں سے قائم رہتی ہیں۔آج ہم اداروں کو مضبوط کریں، فوجی و سیاسی قیادت اپنی حدود میں رہ کر ملک کے لیے کام کرے، تو پاکستان وہ منزل حاصل کر سکتا ہے جس کا خواب بانیانِ پاکستان نے دیکھا تھا۔یہ وقت ایک نئے عزم، نئی سوچ اور مضبوط اداروں کے قیام کا متقاضی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیاست دانوں جمہوریت کے اقتدار کی سیاست دان کے نام پر کے لیے ہیں جو
پڑھیں:
صدر، وزیراعظم یا کوئی جرنیل، آئین سے کوئی بھی بالاتر نہیں، حافظ نعیم الرحمن
امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ملتان ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جس ملک میں پارٹیاں وراثت پر چلتی ہوں وہاں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کوئی انوکھی بات نہیں، ملک میں آئین اور جمہوریت کے خلاف نظام چل رہا ہے، ہم سب کو بحیثیت قوم جمہوریت کو آگے لے کر چلنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ آئین پاکستان میں حاکمیت اعلی صرف اللہ کی ہے۔ کوئی بھی آئین سے بالاتر نہیں، 27ویں ترمیم سے عدلیہ اقلیت اور حکومت اکثریت میں آگئی ہے۔ عدلیہ کو زیر اور سرنگوں کرنے کا پورا بندوبست کیا گیا ہے، یہ لوگ پہلے بھی عدلیہ کو نہیں مانتے تھے اب بے توقیر کرکے خاتمے پر کمر بستہ ہوگئے ہیں۔ صدر، چیف آف سٹاف یا کوئی اور بڑا محاسبے سے مستثنیٰ نہیں۔ یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے اور کسی صورت بھی قابل قبول نہیں، ہماری تاریخ روشن اور تابناک ہے، محاسبہ کا نظام اس قدر ضروری ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا تھا۔ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ وہ غریبوں کو پکڑ لیتے اور امیروں کو چھوڑ دیتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ملتان بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سید ذیشان اختر امیر جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، ثنا اللہ سہرانی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی جنوبی پنجاب، صہیب عمار صدیقی امیر جماعت اسلامی ضلع ملتان، صدر ڈسٹرکٹ بار ملک امجد علی ڈوگر، سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ملک عدنان احمد، صدر اسلامک لائرز موومنٹ اطہر عزیز ایڈووکیٹ اور صدر آئی ایل ایم ملتان رفیع رضا ایڈووکیٹ بھی موجو دتھے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ جس ملک میں پارٹیاں وراثت پر چلتی ہوں وہاں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کوئی انوکھی بات نہیں۔ ملک میں آئین اور جمہوریت کے خلاف نظام چل رہا ہے۔ ہم سب کو بحیثیت قوم جمہوریت کو آگے لے کر چلنا ہے۔ پاکستان میں وکیلوں اور جماعت اسلامی کے انتخابات وقت پر ہوتے ہیں۔ جبکہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے اپنی پارٹیوں میں بھی انتخابات نہیں کرواتے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سودی معیشت ہے۔ معیشت کا یہ نظام دولت مندوں کو مزید دولت مند اور غریب کو مزید غریب بنا رہا ہے۔ حکومت کا دعوی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے غربت میں کمی ہوئی مگر عالمی بنک کی رپورٹ ہے کہ پچھلے تین سال میں غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا غریب کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ملک میں چینی اور آٹا مافیا کا راج ہے جو کسان کے ہاتھ کچھ نہیں آنے دیتا۔ گزشتہ مالی سال میں تنخواہ دار طبقہ نے 500 ارب ٹیکس ادا کیا ہے۔ یہ کیسا نظام ہے جس میں غریب اور تنخواہ دار طبقہ پر زیادہ، جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں پر کم بوجھ ڈالا جاتا ہے۔