6  نومبر کو استنبول میں مذاکرات کی ناکامی کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل آ گیا ہے جس میں دہشتگرد ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان رجیم کی ہٹ دھرمی اہم رکاوٹ تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام

مذاکرات میں تعطل کے بعد سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے علاقائی ممالک خصوصاً ایران متحرک ہے جس کی وزارت خارجہ کی جانب سے علاقائی ممالک کا اجلاس بلائے کی اعلان اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔

اسی طرح سے برادر اسلامی ملک ترکیہ بھی اس حوالے سے سرگرم اور اس کے اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا امکان ہے۔

علاقائی ممالک افغانستان میں موجود دہشتگردی کے خطرے سے آگاہ اور پاکستان کے مؤقف سے ہم آہنگ ہیں۔

26  ستمبر کو نیویارک جنرل اسمبلی اجلاس کے موقعے پر روس کی جانب سے افغانستان پر 4 علاقائی ممالک چین، پاکستان، ایران اور روس کا اجلاس طلب کیا گیا جس نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشتگردی کے خطرے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور داعش، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک، تحریک طالبان پاکستان، جیش العدل اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہوں کو علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔

ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے افغان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ تمام دہشتگرد تنظیموں کے خاتمے کے لیے قابل تصدیق اقدامات کریں، بھرتی اور مالی معاونت کو روکیں، اور تربیتی کیمپوں اور انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر بند کریں۔

مزید پڑھیں: کچھ پتا نہیں طالبان سے مذاکرات پھر کب ہوں گے، عطا تارڑ

اسی طرح گزشہ ماہ افغانستان کے حوالے سے گزشتہ ماہ روس میں منعقد ہونے والے ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ کے اعلامیے میں بھی افغانستان پر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے جامع اقدامات کرنے اور افغان سرزمین کو ہمسایوں کے خلاف استعمال نہ کرنے پر زور دیا گیا۔

مذاکرات کا تعطل اور افغان عوام کی مشکلات

جس چیز پر سب سے زیادہ گفتگو ہو رہی ہے وہ افغان تجارت کی بندش ہے اور اس کے ساتھ افغان عوام کو پاکستان کی جانب سے علاج اور تعلیم کی سہولیات بھی تعطل کا شکار ہیں جہاں ایک طرف افغان طالبان رجیم کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کی جانب سے پاکستان کے ساتھ تجارت مکمل طور پر ختم کر کے متبادل تجارت کے دعوے کیے جا رہے ہیں وہیں افغان تاجروں کی جانب سے کئی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راستے کھلنے چاہییں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تجارتی راستے سب سے زیادہ کم وقت اور کم لاگت ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان سامان کی ترسیل ایک دن میں مکمل ہو جاتی ہے جب کہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت میں سامان پہنچنے اور وصول کرنے میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان سے مذاکرات ختم ہوگئے، ثالثوں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے، خواجہ آصف

اسی طرح سے افغانستان سے لوگ علاج کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے بھی مُشکلات بڑھ گئی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ افغان بالب علموں کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان، افغانستان کے لیے ایسا ملک ہے جہاں زیادہ تر افغان آبادی سہولت کے ساتھ چند گھنٹوں کی مسافت طے کر کے پہنچ سکتی اور پاکستان میں تجارت، تعلیم اور علاج کی سہولیات حاصل کر سکتی ہے۔

دوست ممالک کی کوششیں

9  نومبر کو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ ترک وزیرخارجہ خاقان فیدان، وزیردفاع اور انٹیلی جنس چیف پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور مذاکرات کے لیے اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ لیکن تاحال ترک وفد اسلام آباد نہیں پہنچا جس کی بظاہر وجہ ترک فوجی طیارے کو پیش آنے والا حادثہ بیان کی جا رہی ہے جو آذربائیجان سے اڑان بھرنے کے بعد جارجیا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق یہ وفد کسی بھی وقت اسلام آباد پہنچ سکتا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی گزشتہ دنوں میں 2 بار افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان مُتقی سے ٹیلی فون بات چیت کر چکے ہیں جس میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

خطے کے ممالک کو افغانستان کے رویے پر تشویش ہے، صحافی افضل رضا ایرانی

ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے ارنا کے اسلام آباد میں موجود نمائندے افضل رضا نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قیادت افغان طالبان رجیم کے رویے کو بخوبی جانتی ہے کیونکہ افغانستان، ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کے بعد برادر اسلامی ممالک بطور ثالث کردار کے لیے متحرک ہوئے لیکن ان ملکوں کی سرحدیں پاکستان یا افغانستان کے ساتھ مُتصل نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی سے ایران بھی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں ممالک افغانستان کے پڑوسی ہیں اور ان دونوں ملکوں نے گزشتہ 45 برس افغان باشندوں کو اپنے ملکوں میں پناہ دی ہے جبکہ مغربی ایشیا کے ممالک اِس صورتحال سے دوچار نہیں ہوئے۔ لہٰذا ایران نے یہ محسوس کیا کہ افغان طالبان رجیم کے رویے کے باعث دونوں ملکوں کے مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب ایران نے اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟

گزشتہ روز ایرانی وزارت خارجہ کے ماتحت ادارے انسٹیٹیوٹ آف پولیٹیکل اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز نے تہران میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس کے حاشیے پر ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان اور افغانستان کے درمیان قیام امن کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ہم نے دونوں ملکوں سے رابطے کیے ہیں اور ایک علاقائی حل کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

اسی طرح ایرانی نائب وزیر خارجہ سعید خطیب زادہ نے روسی خبر رساں ادارے اِسپُتنِک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگلے ماہ ہم ایک اِجلاس بلانے جا رہے ہیں جِس کا مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی ہے اور اس کانفرنس میں روس اور چین کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

افضل رضا نے کہا کہ اِس معاملے میں ایران کے کردار کے مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مزید کشیدگی اب نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایران اور دیگر علاقائی ممالک اس کشیدگی کے باعث تشویش کا شکار ہیں اور اُنہیں پاکستان سے زیادہ افغانستان کے رویے پر تشویش ہے۔ کیونکہ افغان طالبان رجیم کے افغانستان میں استحکام لانے سے متعلق دعوے کھوکھلے اور فرضی ہیں۔ پاکستان کے پاس اِتنی طاقت ہے کہ وہ افغان طالبان رجیم کے غیر ذمے دارانہ بیانات کا جواب دے سکتا ہے لیکن چونکہ پاکستان ایک ذمے دار ملک ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ وہ برادار ممالک کو اس سلسلے میں اپنے کردار کی ادائیگی کا موقع فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: طالبان رجیم دہشتگردی پر پردہ ڈال رہی ہے، ترجمان دفتر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایران کا کردار ادا کرنا روس سے بھی زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایران دونوں ملکوں ہمسایہ اور افغان طالبان رجیم کو اِس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

افضل رضا نے بتایا پانی کے حقوق کے حوالے سے افغانستان ایران کو بھی تنگ کرتا ہے اور افغان طالبان رجیم اپنے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتے اور ایران کے پانی کے حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ ایک اچھا موقع ہے کیونکہ پاکستان اپنے بردارانہ ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایران کی جانب سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے کے بعد کابل اور اسلام آباد کے درمیان امن معاہدے پر پیشرفت کا اِمکان ہے کیونکہ ایرانی قیادت پاکستان کے جائز سکیورٹی مفادات کو سمجھتی ہے اور کابل کو سمجھانے کی کوشش کرے گی۔

ترک اعلیٰ سطحی وفد کبھی بھی آ سکتا ہے، طاہر خان

افغان امور کے ماہر، معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈ لاک تو جاری ہے اور بظاہر کوئی ایسی کوشش نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہو کو اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے جو اعلٰی سطحی وفد پاکستان بھجوانے کا اعلان کیا تھا وہ ترکیہ کا فوجی طیارہ گرنے کے حادثے کے بعد سے تاخیر کا شکار ہے۔ وفد نے آنا تو ضرور ہے کیونکہ اس کا اعلان ترک صدر نے خود اُس وقت کیا تھا جب وہ اور وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان میں اکٹھے تھے۔ پاکستان نے ترک اعلیٰ سطحی وفد کی آمد کا خیر مقدم کیا تھا اور افغان سائیڈ بھی اس بات سے خوش ہے۔

طاہر خان نے کہا کہ پاک افغان کشیدگی ختم کرانے کے لیے ایران کا کردار بھی اہم ہے۔ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک علاقائی ملکوں پر مشتمعل کانفرنس بلانا چاہتے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کم ہو۔ یہ بھی ایک اہم پیشرفت ہے اور پاکستان نے اس کو بھی خوش آئند قرار دیا ہے۔ اگر علاقائی سطح پر اس طرح کی کاوش ہوتی ہے تو یہ اس لیے بھی اچھا ہے کہ اس سے یہ تاثر نہیں رہے گا کہ کوئی ایک ملک یعنی ترکی یا قطر یا روس اس میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ علاقائی ممالک کی سطح پر بات ہو گی تو اس میں تمام ممالک شامل ہو جائیں گے اور اس کا اثر بھی ہوگا اور وہ دونوں ملکوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کریں گے کہ ان کی موجودہ صورتحال ان کے لیے بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشتگرد کارروائیاں روکنے پر زور

طاہر خان نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب بنتا ہے لیکن سب سے بہتر حل دوطرفہ مذاکرات سے نکلتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب دیگر ممالک اس مسئلے میں بات کریں گے تو دونوں ملکوں کو کچھ نہ کچھ ماننا ہی پڑے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایران پاکستان اور افغان طالبان پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات پاکستان اور افغانستان ترکیہ ٹی ٹی پی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایران پاکستان اور افغان طالبان پاکستان اور افغان طالبان مذاکرات پاکستان اور افغانستان ترکیہ ٹی ٹی پی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان افغان طالبان رجیم کے اور افغان طالبان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ علاقائی ممالک دونوں ملکوں اسلام ا باد پاکستان کے کی جانب سے ہے کیونکہ ان کے لیے کہ ایران طاہر خان س معاملے حوالے سے افضل رضا سطحی وفد سے افغان ایران کے کہا کہ ا ہے کہ وہ کے رویے ممالک ا کیا تھا کے ساتھ رہے ہیں اور اس یہ بھی رہی ہے کے بعد ہے اور

پڑھیں:

جوہری پروگرام پر سفارتکاری اور باوقار مذاکرات کےحق میں ہیں: ایران

 

تہران (ویب ڈیسک) ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران ہمیشہ سفارت کاری اور مذاکرات کےحق میں رہا ہے۔

دارالحکومت میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران جوہری پروگرام پر شفاف اور باوقار مذاکرات کا حامی ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ امریکا منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر جوہری مذاکرات کے لیے تیار نہیں۔

عباس عراقچی نے کہا کہ جوہری مذاکرات کے لیے امریکا کی حالیہ پیش رفت باہمی مفادات کے لیے نہیں تھی، امریکا نے ابھی تک اپنے مطالبات ہی تھوپنے کی کوشش کی ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ امریکا کے ان مطالبات کے آگے مذاکرات کے مواقع نظر نہیں آتے۔

انہوں نے کہا کہ ایران مذاکرات کے لیے تیار تھا، ہے اور رہے گا، لیکن ہم کسی کے احکامات پر نہیں چلیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کر دیں
  • پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
  • واویلا کیوں؟
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • اہل تشیع کیساتھ دینی اقدار کے فروغ کے لئے تعاون برقرار رہیگا، افغان طالبان
  • طالبان نے افغانستان میں منشیات فیکٹریاں بند کیں تو یہاں شروع ہوگئیں، جج سپریم کورٹ
  • پاکستان میں بدامنی کی جڑ افغانستان سے مسلح گروہوں کی دراندازی ہے، رانا ثنا اللہ
  • جوہری پروگرام پر سفارتکاری اور باوقار مذاکرات کےحق میں ہیں: ایران