عاصم اظہر کو سب جانتے ہیں عاصم علی کون ہے؟ گلوکار کا 29ویں سالگرہ پر اہم اعلان
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
گلوکار عاصم اظہر نے نیا نام اور اپنا پہلا انڈیپنڈنٹ میوزک البم متعارف کرانے کا اعلان کردیا۔
نوجوان گلوکار عاصم اظہر نے اپنی 29ویں سالگرہ کے موقع پر مداحوں کے لیے ایک خاص اعلان کیا ہے۔ عاصم نے سوشل میڈیا پر اپنے نئے سفر کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک سب عاصم اظہر کو جانتے تھے اب ’عاصم علی‘ کو جانیں گے۔
عاصم اظہر نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے ساتھ اپنے پیغام میں لکھا، ’’آج اپنی 29ویں سالگرہ پر میں آپ کو کسی خاص سے ملواتا ہوں۔ اب تک آپ عاصم اظہر کو جانتے تھے، اب عاصم علی سے ملنے کی باری ہے۔ میرا سچا اور حقیقی روپ۔‘
on my 29th birthday today, i want to introduce you to someone special.
my 1st independent album / ASIM ALI / 24.NOV.2025
thank u for all the pyar & duayen.
love… pic.twitter.com/zbNrtXhzKh — Asim Azhar (@AsimAzharr) October 29, 2025
اس ویڈیو میں عاصم اظہر کی والدہ کو بھی عاصم علی کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں عاصم اظہر کی بچپن سے جوانی تک کی کئی جھلکیاں دکھائی گئی ہیں۔
گلوکار نے یہ بھی اعلان کیا کہ ان کا پہلا آزاد (انڈیپنڈنٹ) البم ’ASIM ALI‘ کے عنوان سے 24 نومبر 2025 کو ریلیز کیا جائے گا۔ انہوں نے مداحوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ’’آپ سب کے پیار اور دعاؤں کے لیے دل سے شکرگزار ہوں۔ آپ سب سے ہمیشہ محبت رہے گی۔‘‘
عاصم اظہر کا شمار پاکستان کے مقبول ترین نوجوان گلوکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے متعدد ہٹ گانے پیش کیے۔ مداحوں کو ان کے اس نئے نام اور نئے البم کے بارے میں جاننے کیلئے بےصبری سے انتظار ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عاصم علی
پڑھیں:
بشار اسد کے زوال کی پہلی سالگرہ، ایک سال میں شام انہدام کے دہانے پر
اسلام ٹائمز: تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دایان سینٹر اور القدس انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سیکیورٹی سے وابستہ ترکی امور کے ماہر ایئتان کوہن یانرجاک کا کہنا ہے کہ شامی خانہ جنگی کے دوران اسلامی قوانین میں سرمایہ کاری اور انقرہ کی جانب سے مخالفین کی حمایت نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس میں ترکی خود کو روس اور ایران کا متبادل سمجھنے لگا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
عبرانی زبان کے میڈیا ادارے نے ایک تجزیاتی مضمون میں شام میں ابو محمد الجولانی کے اقتدار میں آنے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر شائع ہونیوالے تجزیئے میں کہا ہے کہ شام اب بھی مکمل انہدام کے خطرے سے دوچار ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے عبرانی شعبے کے مطابق عبری زبان کے اخبار گلوبس کے تجزیہ کار دین شموئیل الماس نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ شام نے حالیہ دنوں میں، اس وقت جب وہ بشار اسد کے خلاف بغاوت کی پہلی سالگرہ منا رہا تھا، نہایت چونکا دینے والی صورتِ حال کا سامنا کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بشار اسد کے جانشین، یعنی القاعدہ کے سابق رکن، جس نے اپنا نام ابو محمد الجولانی سے بدل کر احمد الشرع رکھ لیا ہے۔
انہیں مغربی ممالک اور خلیج تعاون کونسل کے ممالک کی جانب سے غیر معمولی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ امریکہ بھی اس ملک کو دوبارہ عالمی برادری میں شامل کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ تاہم الشرع نے، اپنے سابقہ بیانات کے برعکس جن میں وہ ابراہیمی معاہدوں میں شمولیت کے بارے میں مثبت رویہ ظاہر کر چکا تھا، شام پر سے پابندیاں ہٹنے کے بعد اس معاملے میں ایک قدم پیچھے ہٹ لیا ہے۔ مضمون کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ ملک کی اندرونی صورتِ حال نہایت سنگین ہے۔ موجودہ حکمران ڈھانچہ ملک کے صرف تقریباً ساٹھ فیصد علاقے پر کنٹرول رکھتا ہے، جبکہ باقی علاقوں میں شامی صحرا کے قبائلی گروہ، شمال مشرق میں کرد موجود ہیں جو زیادہ تر تیل کے کنوؤں پر قابض ہیں۔
جنوب میں دروزی برادری حکمت الہجری کی قیادت میں سرگرم ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کی موجودگی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جو روز بروز جبل الشیخ (کوہِ حرمون) اور السویداء کے علاقوں میں پھیلتی جا رہی ہے۔ اسرائیل اپنے اس پھیلاؤ کو جہادی گروہوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے بہانے جائز قرار دیتا ہے، حالانکہ یہی گروہ ماضی میں شام کی خانہ جنگی کے دوران اسرائیلی حمایت سے بھی فائدہ اٹھا چکے تھے اور اب یہ پیش قدمی مقبوضہ جولان کی بستیوں سے آگے دمشق کی دیواروں تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نومبر کے اواخر میں، بیت جن کے شہر میں بریگیڈ 55 کی کارروائی کے دوران چھ افسران اور ریزرو فوجی زخمی ہوئے، جن میں سے تین کی حالت تشویشناک تھی۔
اس واقعے کے بعد ان عناصر کے بارے میں معلومات سامنے آئیں جو شام میں طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اور یہ سرگرمیاں مقبوضہ فلسطین کی سرحد سے محض 11 کلومیٹر کے فاصلے پر ہو رہی تھیں۔ اس عبرانی میڈیا نے آگے چل کر اسرائیلی ادارہ برائے قومی سلامتی مطالعات (INSS) کی سینئر رکن اور اس کے شام پروگرام کی سربراہ کارمیت والنسی کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی غیر ملکی جہادیوں کی مالی معاونت کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، غیر ملکی جنگجو منظم ہیں، اسی لیے ترکی میں امریکہ کے سفیر ٹام بیرک نے 3500 غیر ملکی جنگجوؤں کو شامی فوج میں ضم کرنے کی منظوری دی۔
تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دایان سینٹر اور القدس انسٹیٹیوٹ فار اسٹریٹیجی اینڈ سیکیورٹی سے وابستہ ترکی امور کے ماہر ایئتان کوہن یانرجاک کا کہنا ہے کہ شامی خانہ جنگی کے دوران اسلامی قوانین میں سرمایہ کاری اور انقرہ کی جانب سے مخالفین کی حمایت نے ایسی صورتِ حال پیدا کر دی ہے جس میں ترکی خود کو روس اور ایران کا متبادل سمجھنے لگا ہے۔ والنسی نے وضاحت کی کہ اگرچہ مارچ میں کردوں کے ساتھ جنگ بندی اور تدریجی انضمام کا معاہدہ ہوا تھا، لیکن اس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا۔ کرد خودمختاری برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو شامی حکمران ڈھانچے کے تصور سے متصادم ہے، کیونکہ وہ اقتدار میں شراکت کو مشکل سمجھتے ہیں۔
اگرچہ اقلیتوں کی حکومت اور پارلیمنٹ میں نمائندگی موجود ہے، مگر یہ نمائندگی ادھوری ہے۔ مضمون کے مطابق، شریعت پر مبنی نظام کے تحت اقلیتوں میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر ان قتلِ عام کے بعد جنہیں دنیا نے بڑی حد تک نظر انداز کیا۔ مارچ میں، مغربی شام میں تقریباً 1700 علویوں کو قتل کیا گیا، جو اسد خاندان کے ہی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ جولائی میں، حکومتی افواج نے دمشق کے نواحی علاقوں میں دروزیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں، جن میں مذہبی شخصیات کی توہین اور بعض علما کی مونچھیں زبردستی مونڈنا بھی شامل تھا۔
ان واقعات کے نتیجے میں دروزی برادری اسرائیل کی طرف مائل ہو گئی، جسے اسرائیل نے شام میں اپنی جارحیت کو مزید وسعت دینے کے لیے جواز کے طور پر استعمال کیا۔ اس عبرانی میڈیا کے مطابق، اب تک صورتِ حال بظاہر نسبتاً قابو میں ہے، تاہم السویداء کا علاقہ محاصرے میں ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ الشرع کی حکومت اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست فوجی تصادم ایک ممکنہ منظرنامہ بن چکا ہے۔ یہ امکان اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے جب شامی صدر اور اس کے حامی اس وقت تک کسی بھی عارضی سیکیورٹی معاہدے کو مسترد کر رہے ہیں جب تک اسرائیل ان علاقوں سے دستبردار نہ ہو جائے جن پر اس نے تقریباً ایک سال قبل قبضہ کیا تھا۔