data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251014-03-2
غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے چوتھے دن حماس نے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جب کہ اسرائیل کی جانب سے 1700 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جارہی ہے، جنہیں 7 اکتوبر 2023 کو جنگ شروع ہونے کے بعد غزہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پیر کے روز حماس نے مرحلہ وار تمام 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا ہے، پہلے مرحلے میں 7 اور دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو رہا کیا گیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حماس آج 28 یرغمالیوں کی لاشوں کو بھی اسرائیل کے سپرد کرے گی، اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق، القسام کی جانب سے 20 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد حماس کے پاس کوئی بھی زندہ یرغمالی باقی نہیں رہا۔ دوسری جانب مصر کے شہر شرم الشیخ میں غزہ امن معاہدے پر دستخط کی باقاعدہ تقریب منعقد کی جائے گی، امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر، ترکیہ کے صدر طیب اردوان، اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی، جرمن چانسلر، فرانس کے صدر میکرون سمیت 20 سے زائد ممالک کے سربراہان شرکت کریں گے۔ اسرائیل کا کوئی نمائندہ اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔ تاہم فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس پہلے ہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ اجلاس میں غزہ امن معاہدے پر دستخط اور امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ رپورٹس کے مطابق اجلاس کا مقصد غزہ کی جنگ ختم کرنا، خطے میں امن کو مستحکم کرنا اور عالمی سطح پر تعاون کو بڑھانا ہے۔ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور یہ کہ وہ غزہ کا دورہ کرنے پر فخر محسوس کریں گے۔ ادھر غزہ کی سلامتی کے اداروں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک ملیشیا پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے جو قابض افواج کے لیے کام کر رہی تھی اور پناہ گزینوں کے قتل اور املاک لوٹنے میں ملوث تھی۔ حماس مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ حماس کو امریکا، عرب ثالثوں اور ترکیہ کی جانب سے اس بات کی ضمانتیں ملی ہیں کہ غزہ میں جنگ مستقل طور پر ختم ہوگئی ہے۔ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ معاہدے میں رفح کراسنگ سے آمد اور خروج کا راستہ کھولنا شامل ہے، معاہدے کے تحت اسرائیلی جیل میں بند تمام فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی شامل ہے۔ معاہدے کے تحت گزشتہ 6 ماہ میں پہلی مرتبہ غزہ میں 400 امدادی ٹرک داخل ہو ئے ہیں توقع کی جارہی ہے کہ مصر کے ساتھ رفح سرحدی گزر گاہ منگل کو جزوی طور پر کھول دی جائے گی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق خوراک اور انسانی امداد لے جانے والے ٹرک مصر کی جانب سے رفح کراسنگ سے کرم ابو سالم کراسنگ اور وہاں سے غزہ کی پٹی میں داخل ہونے لگے ہیں۔ پہلے مرحلے میں غزہ کی پٹی میں داخلے کی تیاری میں مصری جانب کی رفح کراسنگ سے 90 ٹرکوں کو کرم ابو سالم اور العوجہ کراسنگ تک پہنچایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل نے غزہ میں جس کھلی درندگی کا مظاہرہ کیا، ہزاروں افراد کے خون سے ہولی کھیلی، معصوم بچوں اور خواتین کو بے دردی سے شہید کیا، پورے غزہ کو بمباری کر کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کیا پھر غزہ کی ناکہ بندی کر کے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا اور عملاً غزہ میں قحط کی سی صورتحال پیدا کی، جس پر پوری دنیا میں اسرائیل کے خلاف زبردست رد عمل دیکھنے میں آیا، دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے سڑکوں پر نکل کر اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج کیا، یورپی ممالک نے بھی اس صورتحال پر کھل کر اسرائیل کی مذمت کی، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا، کئی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کیے، اقوام متحدہ کو بھی یہ کہنا پڑا کہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔ عالمی عدالت ِ انصاف کے فیصلے اور عالمی برادری کے زبردست دباؤ کے نتیجے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا اور اسرائیل پر واضح کیا کہ وہ اپنے اقدامات کی وجہ سے عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہورہا ہے جس پر صہیونی قیادت نے ہوشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکا، مصر، ترکیہ اور قطر کی ثالثی سے جو معاہدہ طے پایا ہے، اس سے بلاشبہ خطے میں امن کے امکانات روشن ہوگئے ہیں تاہم ان امکانات کے درمیان چھپے خدشات کو بھی کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک طرف معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہو رہا ہے وہیں دوسری جانب نیتن یاہو نے اپنے جنگی عزائم کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے خطاب میں کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں فوجی کارروائی ابھی ختم نہیں ہوئی، اسرائیل کو اب بھی بڑے سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کے بعد غزہ میں زیر ِ زمین حماس کی سرنگوں کے نیٹ ورک کی باقیات تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے امریکا کی منظوری سے کام کر رہا ہے۔ کاٹز کا کہنا ہے کہ مبینہ سرنگیں حماس کے غیر مسلح کرنے اور علاقے کو غیر فوجی بنانے کے فریم ورک کے تحت تباہ کر دی جائیں گی جس کے بارے میں اندازہ ہے کہ امریکی حمایت یافتہ جنگ بندی منصوبے کے اگلے مراحل میں ہو گا۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کی مکمل تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئیں مگر ابتدائی مذاکرات میں فریقین نے جن امور پر اتفاق کیا ہے وہ یقینا خوش آئند ہے، مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ایک لمبی جنگ بندی کا ’’بریک تھرو‘‘ ہے، مگر اس راہ میں بہت مشکلات آئیں گی، تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ماضی کے معاہدے اکثر اسرائیل کی جانب سے توڑے گئے ہیں، اس کی واضح مثال جنوری 2025 میں طے پانے والا جنگ بندی کا معاہد ہ ہے جس کی اسرائیل نے غزہ میں دوبارہ بمباری کر کے خلاف ورزی کی اور عملاً اس معاہدے کو سبوتاژ کیا۔ اس تلخ حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ حالیہ معاہدہ اسرائیل پر ٹرمپ کے سیاسی دباؤ کے نتیجے میں ہوا ہے، ٹرمپ کا کردار اس معاہدے کو زندہ رکھنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اسرائیل اگر سیاسی بحران یا داخلی دباؤ محسوس کرے، تو وہ معاہدے کی خلاف ورزی کی راہ اختیار کر سکتا ہے، علاوہ ازیں اسرائیل کی پالیسی، داخلی سیاسی دباؤ اور اس کی تاریخ کی بنیاد پر یہ خدشہ موجود ہے کہ اسرائیل اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے، نیتن یاہو اقتدار میں رہنے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ سکتے ہیں۔ بظاہر اب تک کی پیش رفت خوش آئند ہے تاہم اس امکان کوکسی طور مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل اپنی بدطینتی کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک بار پر جارحیت کا مظاہرہ کرے۔ یرغمالیوں کی مکمل رہائی کے بعد غزہ میں غیر ملکی افواج کی تعیناتی، حماس کو غیر مسلح کرنے اور اس کے رہنماؤں کو ملک بدر کرنے کی کوشش امن کے لیے کی جانے والی جدوجہد پر پانی پھیرنے کے مترادف ہوگی، امریکا، مصر، ترکیہ، قطر، اور اقوامِ متحدہ جو اس جنگ بندی کے ضامن ہیں، کو انصاف سے کام لینا ہوگا اور اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ اسرائیل اس معاہدے کی پاسداری کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: معاہدے کے تحت کا کہنا ہے کہ رہائی کے بعد اسرائیل کے اسرائیل کی کہ اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کے مطابق کی رہائی غزہ کی ہیں کہ کے لیے رہا ہے اور اس
پڑھیں:
جنگ بندی معاہدہ :حماس نے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کر دیا
غزہ(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔13 اکتوبر ۔2025 ) فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس نے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد غزہ میں موجود تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو 2 مرحلوں میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کر دیا، اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے اور قیدیوں کی 38 بسیں اسرائیل سے غزہ پہنچ گئیں.(جاری ہے)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے پیر کو غزہ میں موجود ریڈ کراس کے نمائندوں کے حوالے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو کر دیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ یرغمالیوں کو دو مرحلوں میں رہا کیا گیا، دوسرے مرحلے میں 13 یرغمالیوں کو جنوبی غزہ کے شہر خان یونس میں منتقل کیا گیا اس سے قبل فرانسیسی ادارے کی رپورٹ میں کارروائی میں شامل ایک اہلکار کے مطابق اس معاہدے کے تحت اسرائیل اپنی جیلوں سے سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہائی دینے والا ہے اسرائیل اور حماس کے درمیان طے پانے والا یہ جنگ بندی معاہدہ، جو دو سالہ جنگ کے خاتمے کی جانب سب سے بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے، ایک پائیدار امن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے. اسرائیل میں لوگ اسرائیلی جھنڈے لہراتے ہوئے غزہ کے قریب واقع فوجی کیمپ رئیم کے نزدیک جمع ہوئے، جہاں یرغمالیوں کو لایا جائے گا اور بعد ازاں انہیں ہسپتالوں منتقل کیا جائے گا تل ابیب کے ”یرغمالی چوک“ میں بھی سینکڑوں افراد جمع ہوئے، جنہوں نے اسرائیلی جھنڈے تھام رکھے تھے اور یرغمالیوں کی تصاویر والے پوسٹر بلند کر رکھے تھے فوٹیج کے مطابق جنوبی غزہ کے نصر ہسپتال میں تقریباً ایک درجن نقاب پوش مسلح افراد پہنچے، جو غالباً حماس کے عسکری ونگ کے ارکان تھے، وہ اس مقام پر جمع ہوئے جہاں سے بعض یرغمالیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا جا سکتا تھا یا جہاں سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کی آمد متوقع تھی یہ مسلح افراد کئی ایمبولینسوں کے قریب قطار میں کھڑے دکھائی دیے، ریتیلے علاقے میں کرسیوں کی قطار بھی لگائی گئی تھی، جہاں ایک مختصر استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا تھا. دوسری جانب عرب نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کی 38 بسیں غزہ پہنچ گئیں دو سال سے جاری جنگ، جو بتدریج ایک علاقائی تنازع میں تبدیل ہو گئی تھی اور جس میں ایران، یمن اور لبنان جیسے ممالک بھی ملوث ہوئے، کے بعد یہ جنگ بندی اور یرغمالیوں و قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آ رہا ہے، اس جنگ نے نہ صرف اسرائیل کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی کو بڑھایا بلکہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی نقشے کو بھی بدل کر رکھ دیا. امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن سے اسرائیل روانہ ہوتے ہوئے ایئر فورس ون میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے جب ان سے خطے کے مستقبل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اب حالات معمول پر آ جائیں گے ٹرمپ آج اسرائیلی پارلیمان سے خطاب کریں گے، جہاں ان کے لیے ایک پرجوش خیرمقدم کی تیاری کی جا رہی ہے، اسرائیلی صدر آئزک ہرزوک نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمپ کو رواں سال کے آخر میں اسرائیل کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے نوازا جائے گا.