نوبیل انعام برائے معاشیات 2025 ؛ اسرائیل، فرانس اور کینیڈا کے ماہرین کے نام
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
رواں سال معاشیات کا نوبیل انعام تین ممتاز ماہرینِ اقتصادیات اسرائیلی نژاد امریکی جویل موکیر، فرانس کے فیلیپ اگھیوں اور کینیڈا کے پیٹر ہاوٹ کو مشترکہ طور پر دیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق انھیں یہ اعزاز عالمی معیشت میں اختراع، تنوع اور تخلیقی مضمرات کی نشاندہی کے ذریعے پائیدار ترقی کے نظریات پر گراں قدر تحقیق کے اعتراف میں دیا گیا۔
نوبیل کمیٹی نے بتایا کہ اسرائیلی نژاد امریکی 79 سالہ جویل موکیر کو نصف انعام دیا جائے گا جب کہ بقیہ نصف رقم 69 سالہ فیلیپ اگھیوں اور 79 سالہ پیٹر ہاوٹ میں برابر تقسیم ہوگی۔
نوبیل کمیٹی نے بیاتا کہ نصف رقم اکیلے جویل موکیر کو ان کی اس تحقیق پر دیا گیا کہ کس طرح ٹیکنالوجی اور سائنسی پیشرفت نے صدیوں تک اقتصادی ترقی کو ممکن بنایا۔
جویل موکیر نے اپنی تحقیق میں معاشی تاریخ کا استعمال کرتے ہوئے یہ وضاحت کی تھی کہ یورپ اور دنیا نے صنعتی انقلاب کے بعد کس طرح مسلسل ترقی کا راستہ اپنایا۔
انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ جس طرح سماجی رویوں، سائنسی سوچ اور اداروں نے ٹیکنالوجی کو فروغ دے کر معیارِ زندگی میں انقلاب برپا کیا۔
نوبیل انعام برائے معاشیات کی بقیہ نصف رقم فرانس کے فیلیپ اگھیوں اور کینیڈا کے پیٹر ہاوٹ کو ایک مشترکہ نظریاتی ماڈل پیش کرنے پر برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔
ان دونوں ماہرین نے تخلیقی بربادی کے مضمرات پر مشتمل ایک ریاضیاتی نظریہ پیش کیا جس میں نئی اختراعات کے پرانی صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کی جگہ لے کر معیشت کو آگے بڑھانے کے عمل کو واضح کیا گیا تھا۔
تخلیقی بربادی کیا ہے؟
یہ تصور معروف معیشت دان جوزف شومپیٹر نے متعارف کرایا تھا۔ جس کے تحت جب نئی اور بہتر ٹیکنالوجی مارکیٹ میں آتی ہے تو پرانی صنعتیں ختم ہوجاتی ہیں اور یہی عمل معاشی ترقی کا حقیقی محرک بنتا ہے۔
نوبیل انعام پانے والے اگھیوں اور ہاوٹ نے 1992 میں اس نظریے پر ایک ریاضیاتی ماڈل پیش کیا جس نے جدید معاشی پالیسی سازی میں بنیادی کردار ادا کیا۔
نوبیل کمیٹی کے چیئرمین جان ہاسلر نے کہا کہ اگر ہم اختراع اور مقابلے کے عمل کو برقرار نہ رکھیں تو معیشت جمود کا شکار ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ نوبیل انعام کی مجموعی رقم 11 ملین سویڈش کرونا (تقریباً 1.
نوبیل انعام برائے معاشیات وہ واحد انعام ہے جو الفریڈ نوبیل کی اصل وصیت میں شامل نہیں تھا بلکہ اس انعام کا آغاز 1968 میں سویڈن کے مرکزی بینک نے کیا۔
اب تک 96 ماہرینِ معاشیات اس اعزاز سے نوازے جا چکے ہیں صرف تین خواتین کو تاریخ میں یہ انعام ملا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس یہ انعام دارون عجم اوغلو، سائمن جانسن اور جیمز رابنسن کو ملا تھا جنہوں نے تحقیق کی کہ کیوں کچھ ممالک امیر اور کچھ غریب رہ جاتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نوبیل انعام
پڑھیں:
پیوٹن کی نوبیل کمیٹی پر کڑی تنقید، ڈونلڈ ٹرمپ کی امن کوششوں کی تعریف
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے نوبیل امن انعام کمیٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس باوقار انعام کی ساکھ ان فیصلوں سے متاثر ہوئی ہے جن میں ایسے افراد کو نوازا گیا جنہوں نے امن کے لیے کوئی ٹھوس کردار ادا نہیں کیا۔
ایک ویڈیو بیان میں صدر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بین الاقوامی سطح پر جاری بحرانوں کے حل کے لیے کی جانے والی مخلصانہ کوششوں کی تعریف کی۔
یہ بھی پڑھیں: نوبیل انعام سے محرومی پر ڈونلڈ ٹرمپ کی خاموشی، مگر سوشل میڈیا پر طوفان
پیوٹن نے کہا کہ نوبیل انعام کس کو ملنا چاہیے، یہ فیصلہ ان کا کام نہیں، تاہم ان کے خیال میں ماضی میں کمیٹی نے ایسے افراد کو بھی یہ اعزاز دیا جنہوں نے حقیقی طور پر امن کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ان کے مطابق کئی بار ایسا ہوا کہ کوئی شخص آیا اور چند ماہ میں ہی انعام پا گیا، جبکہ اس نے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا تھا۔
روسی صدر نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے نوبیل امن انعام کی اہمیت اور وقار کو نقصان پہنچا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے حوالے سے پیوٹن نے محتاط مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ اس انعام کے مستحق ہیں یا نہیں، مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ صدر ٹرمپ عالمی سطح پر امن کے فروغ اور پرانے تنازعات کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’کمیٹی نے امن پر سیاست کو ترجیح دی‘، نوبیل انعام پر وائٹ ہاؤس برہم
انہوں نے خاص طور پر یوکرین بحران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے خلوص نیت سے کوشاں ہیں۔ پیوٹن کے مطابق، کچھ معاملات میں کامیابیاں حاصل ہوئیں، کچھ میں نہیں، مگر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ٹرمپ نے امن کے قیام کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا امن ڈونلڈ ٹرمپ روس نوبل انعام ولادیمیر پیوٹن