Jasarat News:
2025-11-27@23:18:06 GMT

سرکاری مشینری نئے صوبوں کی مہم چلا رہی ہے، عوامی تحریک

اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری، مرکزی جنرل سیکریٹری ایڈووکیٹ ساجد حسین مہیسَر، مرکزی نائب صدر ستار رند، مرکزی رہنما لال جروار، ایڈووکیٹ سروان جتوئی اور ایڈووکیٹ آصف کوسو نے اپنے مشترکہ پریس بیان میں کہا ہے کہ سرکاری مشینری کے ذریعے نئے صوبوں کی مہم چلائی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت، پیپلز پارٹی کی سہولت کاری سے سندھ کی وحدت پر حملہ کر رہی ہے۔ سندھ کو تقسیم کرنے، این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم کرنے، نیا بلدیاتی نظام مسلط کرنے اور دیگر ملک دشمن منصوبوں کی تکمیل کے لیے 28ویں ترمیم لائی جا رہی ہے۔ مخصوص کاروباری میڈیا ہاؤسز کے ذریعے نئے صوبوں کی مہم کو تیز کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے نجی یونیورسٹیز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔رہنماؤں نے مزید کہا کہ ”18ویں ترمیم کی واپسی کی مخالفت کریں گے” والا پیپلز پارٹی کا بیان محض ڈھونگ اور فریب ہے۔ پیپلز پارٹی 2023ء میں بورڈ آف انویسٹمنٹ ترمیمی ایکٹ منظور کرا کے 18ویں ترمیم کو عملی طور پر ختم کر چکی ہے۔ 18ویں ترمیم کو غیر آئینی طور پر غیر مؤثر بنا کر ایس آئی ایف سی کا ادارہ قائم کیا گیا، جسے صوبوں کی زمینوں اور وسائل کی فروخت کا لائسنس دیا گیا ہے۔ ایس آئی ایف سی کے تحت سندھ کی زمینوں اور وسائل پر قبضے ہو رہے ہیں، جنہیں فوری طور پر روکا جائے، اور اس ادارے کو فی الفور ختم کیا جائے۔رہنماؤں نے کہا کہ انتخابی مہم کے دوران بلاول نے کہا تھا کہ ”جو کارونجھر کاٹے گا، اس کے ہاتھ کاٹ دیں گے”، لیکن اب بلاول کی اپنی حکومت کارونجھر کو کاٹنے کے لیے آئینی عدالت سے فیصلہ لینا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی غلط بیانی عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ کارونجھر کی کٹائی روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آئینی عدالت میں جانا خود پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری کی سندھ دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت اقتدار کی لالچ میں سندھ کا سودا کر رہی ہے۔

اسٹاف رپورٹر گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی صوبوں کی رہی ہے

پڑھیں:

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان آدھی مدت کے اقتدار کے معاہدے کی حقیقت کیا ہے؟

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے وقت مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہاف ٹرم پر معاہدہ ہوا تھا، لیکن وہ خود اس مذاکرات کا حصہ نہیں تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ اس پر اتفاق ہوا ہے، جس میں وزیرِاعظم، اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کی مدت نصف نصف طے کرنے کی بات ہوئی۔ حکومت میں شیئرنگ کے یہ اصول اب بھی لیڈرشپ کے درمیان برقرار ہیں اور یہ مکمل طور پر قیادت کا اندرونی معاملہ ہے، وزیراعظم اور اسپیکر کی مدت پر بھی ہاف ٹرم کے لیے اتفاق ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ن لیگ اور پی پی میں آدھی آدھی مدت کے لیے حکومت کا فارمولا طے ہے، یوسف رضا گیلانی

وی نیوز نے مسلم لیگ ن پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا حکومت کی تشکیل کے وقت ایسا معاہدہ ہوا تھا اور کیا اب اس معاہدے پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان قائرہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات کے نتیجے میں اتحادی حکومت کے قیام سے قبل مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا تھا جس کی کاپی دونوں جماعتوں سمیت میڈیا پر بھی موجود ہے اس معاہدے پر تحریری طور پر وزیراعظم کی تبدیلی یا ڈھائی ڈھائی سال کی ٹرم کی بات تحریری طور پر نہیں تھی البتہ یہ کیا کر رہی ہے جس وقت حکومت کو دیکھا کہ تشکیل ہو رہی تھی اس وقت یہ بات زیر بحث ضرور آئی تھی اور یہ تجویز بھی تھی کہ ڈھائی سال شہباز شریف اور ڈھائی سال وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے البتہ اس کو تحریری شکل نہیں دی گئی اور نہ ہی اس وقت اس تجویز پر کوئی خاص بحث یا غور جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ن لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے، صہیب بھرتھ کا ندیم افضل چن کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ

سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حکومت کی تشکیل کے وقت ایسا کوئی فارمولا طے پایا گیا تھا، اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ شہباز شریف کی جگہ بلاول وزیراعظم ہوں گے، تو کیا اس صورت میں آصف زرداری ہی صدر رہیں گے، بلوچستان کا وزیر اعلیٰ PPP کا ہی رہے گا، یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینٹ ہی رہیں گے؟ اگر ایسا فیصلہ ہوا تھا تو اس بارے میں پہلے بات کیوں نہیں ہوئی؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی

ان کا کہنا تھا کہ میرا نہیں خیال کہ اتنا بڑا اہم معاہدے ہوا ہو اور ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد اس پر ایک رہنما نے گفتگو کی ہو جبکہ میڈیا یا سینیئر صحافیوں سے معاہدہ اتنا عرصے تک خفیہ رکھا گیا ہو۔

یہ بھی پڑھیں:پیپلز پارٹی قابلِ اعتماد اتحادی، سیاست مکالمے سے آگے بڑھتی ہے، عطا اللہ تارڑ

سینیئر تجزیہ کار احمد ولید نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بڑی بریکنگ خبر ہوگی کہ اگر دونوں پارٹیوں کے درمیان ہاف ٹرم مدت کا معاہدہ طے پایا تھا اب اگر یوسف رضا گیلانی کہہ رہی ہیں کہ ایسا معاہدہ ہوا تھا تو اب تک تو اس کی تیاریاں نظر آنا شروع ہو جاتی لیکن ابھی ایسا کوئی چانس نہیں لگ رہا، اب تو مسلم لیگ ن کو قومی اسمبلی میں بھی اتحادیوں کے ساتھ اور پیپلز پارٹی کے بغیر سادہ اکثریت حاصل ہو چکی ہے تو پیپلز پارٹی کے لیے اب اپنی بات منوانا کافی مشکل ہوگا۔

سینیئر تجزیہ کار احمد ولید

ان کے مطابق اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مانتے ہیں کہ ملک میں ہائبرڈ نظام چل رہا ہے اور ہائبرڈ نظام کے پیچھے جو طاقتیں ہیں ان کی بھی کوئی اس پاور شیئرنگ فارمولے پر رائے ہوگی جو کہ ابھی سامنے نہیں آرہی ہے، ابھی موجودہ حکومت ہے اس میں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا کہ یہ حکومت جانے والی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ معیشت بڑے مشکلوں سے سنبھلی ہے اور کچھ سرمایہ کاری بیرون ملک سے ائی ہے اگر اس وقت حکومت تبدیل ہو جاتی ہے تو سرمایہ داروں کا اعتماد بھی متاثر ہوگا تو اس لیے میرے خیال میں کوئی ایسی تبدیلی یا پاور شیرنگ والے فارمولے پر عمل نہیں ہونے والا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احمد ولید انصار عباسی پیپلز پارٹی قمر الزمان قائرہ مسلم لیگ ن

متعلقہ مضامین

  • گورنر سندھ کی تعیناتی پر پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کر رہے ہیں: رانا ثناء اللّٰہ
  • پیپلز پارٹی کی منفرد پالیسی
  • ملتان، غلام رضا خان ایم ڈبلیو ایم تحصیل جلالپور پیروالا کے صدر منتخب، آصف رضا ایڈووکیٹ نے حلف لیا 
  • سیاسی رہنماؤں کا مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان
  • پیپلز پارٹی کی سندھ میں بلدیاتی قانون میں بڑی تبدیلیاں کرنے کی تیاری
  • پیپلز پارٹی کی سندھ میں بلدیاتی قانون  میں بڑی تبدیلیاں کرنے کی تیاری
  • عدالت عظمیٰ نے قوم کو متعدد بار مایوس کیا، نثار کھوڑو
  • پیپلز پارٹی کے امیدوار کے تحفظات پر تشویش ہے، راجہ پرویز اشرف
  • ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان آدھی مدت کے اقتدار کے معاہدے کی حقیقت کیا ہے؟