لاہور: پنجاب میں موسمِ سرما کے آغاز کے ساتھ ہی فضائی آلودگی کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور حکومتی کوششوں کے باوجود صورتِ حال میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق صوبے کے سب سے بڑے شہر لاہور کی فضا ایک بار پھر انتہائی آلودہ قرار دے دی گئی ہے، جس کے بعد شہریوں کی روزمرہ زندگی، صحت اور آمدورفت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ماحولیاتی اداروں کے مطابق آج صبح لاہور میں آلودگی کی سطح اس حد تک پہنچ گئی کہ شہر کو پنجاب کا سب سے آلودہ شہر قرار  دیا گیا ہے۔

محکمہ ماحولیات پنجاب کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ڈیٹا کے مطابق لاہور میں ائیر پارٹیکولیٹ میٹرز (PM) کی مقدار 414 ریکارڈ کی گئی، جو صحت کے لیے خطرناک حد سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سطح کی آلودگی میں شہریوں کو سانس لینے میں دشواری، آنکھوں میں جلن، گلے میں خراش، دمہ اور دیگر سانس کی بیماریوں کے بگڑنے کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔

ڈاکٹروں کے مطابق بچوں، بزرگوں اور حاملہ خواتین کے لیے اس صورتحال میں باہر نکلنا خصوصاً خطرناک ہے۔

پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی فضائی آلودگی کی شدت میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی۔ محکمہ ماحولیات کے مطابق خانیوال میں ایئر پارٹیکولیٹ میٹرز کی مقدار 412 تک پہنچ گئی، جو لاہور سے بمشکل چند درجے ہی کم ہے۔

فیصل آباد میں یہ شرح 354 جب کہ ملتان میں 342 ریکارڈ ہوئی، جو تمام شہروں میں خطرناک حد کی آلودگی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ آلودگی صرف بڑے شہروں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورا صوبہ سموگ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی لاہور کی صورتحال تشویشناک قرار دی گئی ہے۔ ورلڈ ایئر کوالٹی انڈیکس کی تازہ رپورٹ میں لاہور کو 330 اے کیو آئی کے ساتھ دنیا کا دوسرا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے جب کہ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی 450 پارٹیکولیٹ میٹرز کے ساتھ پہلے نمبر پر موجود ہے۔

پنجاب میں حکومتی سطح پر کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں اینٹوں کے بھٹوں کی بندش، سموگ الرٹ، فیکٹریوں کی نگرانی، دھوئیں والے گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور ماسک کے استعمال کی ہدایات شامل ہیں، تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ آلودگی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسموگ کے مستقل حل کے لیے درکار طویل المدتی پالیسیاں ابھی تک مؤثر طریقے سے نافذ نہیں ہو سکیں، جس کے باعث ہر سال اسموگ کی شدت گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ ہوتی جارہی ہے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل آلودگی کی کے مطابق

پڑھیں:

دنیا بھر میں گردوں کے بڑھتے امراض عالمی بحران  کی شکل اختیار کر گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کے مختلف خطوں میں صحت کے نظام اس وقت ایک ایسے بحران سے گزر رہے ہیں جس کی جانب ماہرین برسوں سے توجہ دلا رہے تھے۔

نئی سائنسی رپورٹ کے مطابق گردوں کے دائمی امراض کی شرح ایک ایسے مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ دنیا بھر میں اموات کا سبب بننے والی بڑی بیماریوں میں مسلسل اوپر جا رہے ہیں۔ اس مشترکہ تحقیق کو امریکا اور برطانیہ کی معروف یونیورسٹیوں اور ہیلتھ میٹرکس کے اداروں نے مل کر تیار کیا ہے، جس میں تین دہائیوں کے اعدادوشمار کا نہایت باریک تجزیہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 کی دہائی میں دنیا بھر میں تقریباً 38 کروڑ افراد گردوں کے امراض کا شکار تھے، مگر آبادی میں اضافے، طرزِ زندگی میں تبدیلیوں اور طبی سہولیات تک عدم رسائی جیسے عوامل کے باعث یہ تعداد 2023 تک بڑھ کر تقریباً اناسی کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ یعنی گزشتہ 30 برس میں گردوں کے مسائل دوگنے سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں اور یہ اضافہ نہ صرف انتہائی تشویشناک ہے بلکہ مستقبل کے لیے ایک بڑے بحران کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق دنیا کی بالغ آبادی کا لگ بھگ 14 فیصد حصہ کسی نہ کسی درجے کے گردوں کے دائمی مرض میں مبتلا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا، کیونکہ گردوں کے بیشتر مسائل ابتدائی مراحل میں کوئی نمایاں علامات ظاہر نہیں کرتے۔

تحقیق کاروں نے بتایا کہ جب تک مریض کو اپنے اندر کچھ غیر معمولی محسوس ہوتا ہے، تب تک بیماری اکثر اس سطح پر پہنچ چکی ہوتی ہے جہاں علاج پیچیدہ تر ہو جاتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ صرف سال 2023 میں گردوں کے امراض کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 15 لاکھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔

تحقیق نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گردوں کی کارکردگی کمزور ہونے سے دل کے مریض بننے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ جسم میں زہریلا مواد جمع ہونا شریانوں اور اعصاب پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے ماہرین اس مرض کو ایک خاموش قاتل قرار دیتے ہیں جو آہستہ آہستہ جسم کے مختلف حصوں کو متاثر کرتا ہے۔

رپورٹ میں عام علامات کی تفصیل بھی دی گئی ہے جنہیں نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً مسلسل تھکاوٹ، نیند میں خلل، جلد پر خارش اور دانوں کا ظاہر ہونا، ہاتھوں، چہرے یا پیروں میں سوجن، مسلز میں کھچاؤ، سانس لینے میں دشواری، سر چکرانا، بھوک میں کمی اور وزن کا تیزی سے گھٹ جانا وہ علامات ہیں جو گردوں کے خراب ہونے کا عندیہ دیتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے 133 ممالک کے طبی ڈیٹا اور 2230 تحقیقی مقالہ جات کا تجزیہ کیا گیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ گردوں کے امراض اب ان مسائل میں شامل ہیں جن کے علاج اور احتیاط دونوں پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے سرطان، دل کے امراض اور ذہنی صحت کے مسائل پر توجہ دی جاتی ہے ویسے ہی گردوں کی صحت کو بھی عالمی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا، ورنہ آنے والے برسوں میں اس بیماری کا بوجھ صحت کے نظام کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں دہشتگرد تنظیموں کے بڑھتے اثر و رسوخ پر روس کی وارننگ
  • حکومتی کوششوں کے باوجود پنجاب کی فضا بدستور خراب، لاہور آج پھر آلودہ ترین شہر
  • میٹرک میں شاندار کارکردگی پر نجی سکول کے طالبعلم کو ایک دن کا وزیر تعلیم بنا دیا گیا
  • پنجاب اور خیبرپختونخوا میں فضائی آلودگی کے ڈیرے برقرار
  • لاہور میں رواں مہینے فضائی معیار میں 30 فیصد بہتری ہوئی، رپورٹ
  • دنیا بھر میں گردوں کے بڑھتے امراض عالمی بحران  کی شکل اختیار کر گئے
  • لاہور میں فضائی آلودگی برقرار، حکومت نے وجہ بھارت سے آنیوالی ہوائیں قرار دے دیں
  • صنعتی آلودگی کیخلاف کارروائیاں، انڈسٹریل ری زوننگ اور ایمیشنز مینجمنٹ سسٹم فعال
  • اسموگ سے سانس کی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، قومی ادارہ صحت کا انتباہ