بھارتی ’تیجاس‘ طیارے کی خاص بات کیا تھی، اور اب تک کتنے طیارے گر چکے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
دبئی ایئر شو میں جمعے کی دوپہر بھارتی ساختہ لڑاکا طیارہ تیجس پرواز کے مظاہرے کے دوران گر کر تباہ ہو گیا، جس میں پائلٹ ہلاک ہوگیا۔
بھارتی فضائیہ کے مطابق یہ حادثہ طیارے کی 24 سالہ تاریخ میں دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال راجستھان کے جیسلمیر میں ایک ہاسٹل کمپلیکس کے قریب تیجس کا طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا، جس میں بھی ہلاکت کی تصدیق ہوئی تھی۔
تیجاس بھارتی دفاعی صنعت کا مقامی طور پر تیار کردہ لڑاکا طیارہ ہے جو سنگل سیٹر ڈیزائن پر مبنی ہے، جبکہ فضائیہ اور بحریہ اس کا ٹوئن سیٹر ٹرینر ویرینٹ بھی استعمال کرتی ہیں۔
طیارے کا پہلا ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریٹر TD-1 سال 2001 میں آزمائشی پرواز کے لیے تیار ہوا، اور بعد ازاں ابتدائی آپریشنل کلیئرنس (IOC) کے ساتھ دوسرے سیریز پروڈکشن طیارے SP2 کی پہلی پرواز 22 مارچ 2016 کو مکمل کی گئی۔
تیجاس 4,000 کلوگرام تک اسلحہ اور آلات اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے بھارت کی مقامی ایروناٹکس ٹیکنالوجی کی اہم پیش رفت سمجھا جاتا ہے۔
گزشتہ پچاس برس میں بھارتی جنگی طیاروں کے حادثات اور تکنیکی خرابیوں پر مبنی گراؤنڈنگ
گزشتہ پچاس برس کے دوران بھارتی فضائیہ (IAF) کو متعدد جنگی طیاروں کے حادثات اور تکنیکی مسائل کا سامنا رہا ہے، جن کی وجہ سے نہ صرف قیمتی اثاثے ضائع ہوئے بلکہ کئی بار پورے بیڑے کو عارضی طور پر گراؤنڈ بھی کرنا پڑا۔ ان حادثات کی بڑی وجوہات میں تکنیکی خرابی، انسانی غلطی اور پرندوں سے ٹکراؤ جیسے عوامل شامل رہے ہیں، جبکہ کچھ طیارے اپنی پرانی ڈیزائن ٹیکنالوجی کی وجہ سے زیادہ حادثات کا شکار ہوئے۔
MiG-21 کے حادثات اور مسلسل تنقید
بھارتی فضائیہ کا MiG-21 گزشتہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ حادثات میں ملوث جنگی طیارہ رہا ہے۔ 1971 سے 2012 تک سرکاری طور پر 482 MiG طیاروں کے حادثات ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے بڑی تعداد MiG-21 کی تھی۔ تکنیکی نقص، تربیت کی کمی، bird strike اور ڈیزائن کی قدامت اس کے مسلسل حادثات کی بنیادی وجوہات سمجھی جاتی ہیں۔ بارہا یہ طیارہ “flying coffin” کے نام سے تنقید کا نشانہ بنتا رہا اور بالآخر اس کی ریٹائرمنٹ کا عمل شروع کیا گیا۔
MiG-27 کی گراؤنڈنگ اور تکنیکی مسائل
MiG-27 بھی بھارتی فضائیہ کا وہ طیارہ ہے جو کئی حادثات کا شکار ہوا۔ فروری 2010 میں ایک حادثے کے بعد انجن میں خرابی کے شبہے پر تقریباً 100 MiG-27 طیاروں کو فوراً گراؤنڈ کر دیا گیا۔ انجن R-29 کی اوور ہالنگ کے دوران پیدا ہونے والی تکنیکی خرابی کو بڑی وجہ قرار دیا گیا۔ اگرچہ بعد میں کچھ طیاروں کو دوبارہ استعمال میں لایا گیا، لیکن بالآخر MiG-27 کا پورا بیڑہ بھی چند سال قبل ریٹائر کر دیا گیا۔
تیجس (Tejas) کے حادثات
بھارت کے مقامی طور پر تیار کردہ طیارے تیجس کی سروس ہسٹری اگرچہ نسبتاً نئی ہے، مگر اس کے باوجود یہ دو بڑے حادثات سے گزر چکا ہے۔ 2024 میں جیسلمیر میں ہونے والے حادثے کو انجن کے آئل پمپ کی خرابی سے جوڑا گیا، جبکہ حالیہ حادثہ دبئی ایئر شو کے دوران پیش آیا جس میں پائلٹ ہلاک ہوا۔ تیجس کو ملکی دفاعی ٹیکنالوجی میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جاتا ہے، مگر حادثات نے اس کی قابلِ اعتبار کارکردگی پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔
دیگر طیاروں کے حادثات کا مجموعی رجحان
بھارتی فضائیہ کے دیگر لڑاکا طیارے جیسے MiG-23، جیکوار اور Su-30 بھی مختلف ادوار میں حادثات سے متاثر ہوئے، تاہم ان کی تعداد MiG-21 اور MiG-27 کے مقابلے میں کم رہی۔ پارلیمانی رپورٹس کے مطابق گزشتہ کئی برسوں میں ہونے والے متعدد حادثات کا تعلق تربیتی غلطی یا انسانی عوامل سے تھا، جبکہ تکنیکی مسائل بھی ایک نمایاں وجہ رہے۔ فضائیہ نے وقتاً فوقتاً اپنی مینٹیننس، تربیتی نظام اور تکنیکی اپ گریڈ میں بہتری پیدا کرنے کی کوششیں کی ہیں تاکہ حادثات کی شرح کم کی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: طیاروں کے حادثات بھارتی فضائیہ اور تکنیکی حادثات کا کے دوران کی خرابی
پڑھیں:
امریکا کا ایف-35 یا روسی ایس یو-57، دنیا کا خطرناک جنگی طیارہ کون سا ہے؟
واشنگٹن/ ماسکو:دنیا بھر میں جنگی طیاروں کے حوالے سے فضائی جنگ میں برتری پر بحث ہوتی رہتی ہے تاہم امریکا کے ایف-35 لائٹننگ ٹو اور روس کے ایس یو-57 فیلون کے درمیان فضائی جنگ کی نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی ایف-35 لائٹننگ ٹو اور روس کے ایس یو-57 فیلون کی صلاحیت اور ان کے خطرناک وار کے حوالے سے مقابلہ ہے اور اس پر بات کی جارہی ہے کہ آیا ان دونوں میں سے مؤثر کون سا طیارہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایف-35 جنگی طیارہ اور ایس یو-57 دونوں طیارے ففتھ جنریشن اسٹیلتھ فائٹر ہیں جو ایک دوسرے سے برعکس ڈیزائن کیے گئے ہیں، یہاں دونوں جنگی طیاروں کی تفصیلات دی جا رہی ہیں؛
دونوں ممالک کے جنگی طیاروں کے صلاحیت کا موازنہ کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف-35جنگی طیارہ انتہائی کم کراس سیکشن تقریباً 0.001 مربع میٹر کے برابر ہے۔
امریکی طیارے کا اے این/ اے پی جی-81 آئیسا ریڈار، 360 ڈگری ڈسٹریبیوٹڈ اپیرچور سسٹم (ڈی اے ایس) اور طیارے کا جدید سینسر پائلٹ کو غیرمعمولی صورت حال کی آگاہی فراہم کرتا ہے، جس کی بدولت اس کو حد نگاہ سے آگے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ روسی ایس یو-57 بھی اسٹیلتھ ہے لیکن اس کی سطح امریکی طیارے کے برابر نہیں اور اس کی جنگی میدان میں نیٹ ورکنگ تاحال کم میچور تصور کیا جا رہا ہے، ایس یو-57 جنگی طیارے کی میک ٹو کو پیچھے چھوڑنے اور تھری ڈی تھرسٹ ویکٹورنگ کے ذریعے انتہائی مشکل ہدف حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔
روسی ایف-35 کی رفتار میک1.6 کے برابر اور عملی طور پر اس کی صلاحیت سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے مزید فضائی ایروبوٹکس میں مصروف رکھنے میں مدد ملتی ہے، اسی لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی ایف-35 لائٹننگ ٹو بمقالہ روسی ایس یو-57 دونوں جنگی طیارے طاقت کے لحاظ ہم پلہ ہیں۔