اسلام ٹائمز: اگر ہمیں ایک خودمختار، باوقار اور مستحکم ریاست بننا ہے تو ہمیں اپنی بنیادوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یہ محض ایک قانونی یا سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک قومی، نظریاتی اور تاریخی ضرورت ہے۔ قوموں کو بیرونی طاقتوں کی منظوری سے نہیں، اپنی قوم کے اعتماد سے مضبوطی ملتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اصل تاریخ، اپنی اصل قرارداد اور اپنے اصل مقصد کو دوبارہ دریافت کریں۔ یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں آئینی بے یقینی سے نجات دلا سکتا ہے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ

پاکستان کی آئینی تاریخ دنیا کی ان منفرد ریاستی داستانوں میں سے ایک ہے جہاں آئین بار بار تبدیل ہوا، مگر ریاست وہ بنیادی سوال آج تک حل نہ کر سکی جو اسے 1940ء میں قراردادِ پاکستان کے تحت حل کرنا تھا۔ ستہتر برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود سیاسی، ریاستی اور قانونی ڈھانچے میں ایک مستقل بے یقینی موجود ہے۔ کبھی 1956ء کا آئین معطل ہوتا ہے، کبھی 1962ء کا صدارتی نظام متعارف ہوتا ہے، کبھی 1973ء کا آئین قومی اتفاقِ رائے کی علامت بنتا ہے، اور پھر ترمیموں کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ 2025ء تک 27 آئینی ترامیم ہوچکی ہیں۔ وکلا، سول سوسائٹی اور دانشور طبقہ آج جس تشویش کے ساتھ حالیہ ترامیم پر سوالات اٹھا رہا ہے، یہ کوئی نئی صورتحال نہیں۔ یہ اُسی بحران کا تسلسل ہے جو ریاست کی بنیاد میں ہی ایک خلا چھوڑ گیا۔

یہ خلا کیا ہے؟ اس کا جواب ہماری اصل قومی دستاویز، 23 مارچ 1940ء کو منظور ہونے والی قراردادِ لاہور یا قراردادِ پاکستان میں پوشیدہ ہے۔ بہت سے لوگ اسے محض ایک تاریخی تقریر یا علامتی مطالبہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ ایک واضح آئینی معاہدہ تھا۔ اس قرارداد میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی تھی کہ برصغیر کے شمال مشرقی اور شمال مغربی علاقوں میں "خودمختار ریاستیں" قائم ہوں گی، جو باہمی معاہدے سے ایک وفاق بنائیں گی۔ یہ ایک واحد مرکزی ریاست کا تصور نہیں تھا، بلکہ ایک متحدہ ریاستی یونین کا خاکہ تھا۔ اس کا جغرافیہ ہی نہیں، بلکہ معاشی، تہذیبی اور سیاسی ڈھانچہ بھی مشترکہ ہونا تھا۔ یہ ایک بڑی ریاست کا خواب تھا جو برصغیر کے مسلمانوں کو ایک نئی اجتماعی قوت میں تبدیل کر سکتا تھا لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ قائدِاعظم کے انتقال کے فوراً بعد اس سے نہ صرف انحراف کیا گیا بلکہ اسے عملاً تاریخ کے صفحات میں دفن کر دیا گیا۔ اس کے بعد جو پاکستان تعمیر ہونا شروع ہوا، وہ قراردادِ پاکستان کے تصور سے یکسر مختلف تھا۔

بین الاقوامی مفادات اور ریاستی سمت کا انحراف:
اس انحراف کے ذمہ دار صرف پاکستان کے اندرونی طبقات نہیں تھے۔ اس کے پیچھے ایک بڑا بین الاقوامی اسٹریٹجک کھیل بھی موجود تھا۔ یہ سرد جنگ کی ابتدا کا دور تھا۔ امریکہ اور مغربی یورپی طاقتیں ایک ایسے خطے میں ایک بڑی، طاقتور مسلم ریاست کے ابھرنے سے فطری طور پر محتاط تھیں جو وسطی ایشیا، خلیج، ایران، چین اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک اسٹریٹجک پل بن سکتی تھی۔ اگر متحدہ پاکستان کا تصور قائم رہتا تو معاشی اور جغرافیائی طاقت کا ایک ایسا مرکز وجود میں آ سکتا تھا جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سیاست میں بھی نئی صف بندی پیدا کر دیتا۔ 1950ء کی دہائی میں پاکستان کو SEATO اور CENTO جیسے فوجی اتحادوں میں شامل کرنا، ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ تھا تاکہ ملک کو مغربی کیمپ میں مستقل طور پر باندھا جا سکے۔ تاریخی شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان کی ابتدائی ریاستی تعمیر میں غیر معمولی بیرونی مداخلت موجود رہی۔ ریاست کو بتدریج ایک ایسے ملک کی شکل دینے کی کوشش کی گئی جو اپنی بقا کے لیے بیرونی دفاعی اور مالی اتحادوں پر منحصر رہے۔ ایک مضبوط، نظریاتی طور پر متحد پاکستان عالمی طاقتوں کے لیے ایک چیلنج ہوتا، مگر ایک کمزور، اندرونی تضادات کا شکار اور آئینی غیر یقینی میں مبتلا پاکستان، بڑی طاقتوں کے لیے کہیں زیادہ قابلِ انتظام تھا۔

پاکستان کی تاریخ میں تین مکمل آئین نافذ ہوئے اور تینوں کے ساتھ مختلف المیات وابستہ ہیں۔ 1956ء کا آئین نو سال کی مسلسل کوششوں کے بعد منظور ہوا، مگر محض دو سال میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نے اسے معطل کر دیا۔ یہ آئین وفاقی پارلیمانی نظام پر مبنی تھا اور اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کو مساوی نمائندگی دی گئی تھی۔ 1962ء کا آئین صدارتی نظام کے تحت ایوب خان نے خود ہی نافذ کیا۔ یہ ایک مرکزیت پسند دستاویز تھی جس میں پارلیمنٹ کی طاقت محدود اور صدر کو مطلق العنان اختیارات دیے گئے تھے۔ یہ آئین بھی دس سال سے کم عرصے میں ختم ہو گیا۔ 1973ء کا آئین ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے بنا۔ یہ آئین پارلیمانی وفاقی نظام کی بحالی کا اعلان تھا۔ لیکن پھر 1977ء میں مارشل لاء آیا، آئین معطل ہوا، 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے اسے آٹھویں ترمیم کے ساتھ بحال کیا جس نے صدر کو وزیرِاعظم کو برخاست کرنے کا اختیار دے دیا۔

اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم 2010ء میں آئی، جس نے صدر کے اختیارات ختم کیے اور صوبوں کو زیادہ خودمختاری دی۔ لیکن آئینی ترامیم کا یہ سلسلہ کبھی رُکا نہیں۔ ہر نئی حکومت نے آئین کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ 2025ء تک 27 ترامیم ہو چکی ہیں اور نئی ترامیم کی باتیں پھر سے زور پکڑ رہی ہیں۔ 1971ء میں بنگلادیش کا قیام پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ یہ محض ایک سیاسی ناکامی نہیں بلکہ قراردادِ پاکستان کے فلسفے سے ہٹ کر ریاست بنانے کے نتائج کا سب سے واضح اظہار تھا۔ اگر پاکستان اسی مشترکہ اتحاد کے اصول پر قائم رہتا جس کی بنیاد 1940ء میں رکھی گئی تھی، تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔ مشرقی پاکستان سے زبان، ثقافت، اقتصادیات اور سیاست میں امتیازی سلوک کیا گیا۔ ایوب خان کی دس سالہ ترقی مغربی پاکستان میں مرکوز رہی۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ کو واضح اکثریت ملی، لیکن اقتدار کی منتقلی میں تاخیر اور پھر فوجی آپریشن نے علیحدگی کو ناگزیر بنا دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ جب ریاست اپنی بنیادی قرارداد سے ہٹ جاتی ہے تو اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں بھی آئین میں ترامیم ہوتی ہیں، لیکن بنیادی ڈھانچہ نہیں ٹوٹتا۔ امریکہ کے آئین میں 1789ء سے اب تک صرف 27 ترامیم ہوئی ہیں اور اس کی اصل روح برقرار ہے۔ برطانیہ کا غیر تحریری آئین صدیوں سے روایات اور قوانین پر قائم ہے۔ بھارت کے آئین میں 100 سے زیادہ ترامیم ہوئیں لیکن بنیادی ڈھانچے کا عقیدہ (Basic Structure Doctrine) اسے تحفظ دیتا ہے۔ پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ آئین ایک مستحکم قومی معاہدہ نہیں بلکہ اقتدار کی کشمکش کا مرکز بن گیا ہے۔ جب بھی اقتدار تبدیل ہوا، آئین بھی تبدیل ہوا۔ یوں آئین ایک سیاسی تجربہ گاہ بنتا گیا۔ جو ریاست ایک بنیادی قرارداد پر مضبوطی سے قائم نہ ہو، وہاں آئین کی تحریر بھی ہمیشہ لڑکھڑاتی رہتی ہے۔  سپریم کورٹ کی ساخت، ججوں کی تقرری، صدر اور وزیرِاعظم کے اختیارات، صوبائی خودمختاری  یہ سب پھر سے بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ وکلا کی تحریک، بار کونسلز کے احتجاج، دانشوروں کی تشویش۔ یہ سب اسی ایک حقیقت کی علامت ہیں کہ ہماری آئینی بنیادیں ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکیں۔

یہ صورتحال دو اہم سوال اٹھاتی ہے: پہلا، کیا آئین میں مسلسل ترامیم اس بات کی علامت نہیں کہ ہماری ریاستی بنیاد ہی کمزور ہے؟ دوسرا، کیا ہم ابھی تک بیرونی طاقتوں کی توقعات کے مطابق ریاست کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں یا اپنی اصل سمت کی طرف لوٹ سکتے ہیں؟ پہلا راستہ وہی پرانا ہے کہ آئینی تجربے جاری رہیں، بیرونی وابستگیاں برقرار رہیں، اندرونی سیاسی اور فوجی طاقتیں ایک دوسرے سے الجھتی رہیں اور ریاست اپنی اصل سمت سے مزید دور ہوتی جائے۔ یہ راستہ ہمیں مزید کمزوری اور انتشار کی طرف لے جائے گا۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ قراردادِ پاکستان کو دوبارہ ریاستی بنیاد کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو حقیقی معنوں میں مضبوط بنایا جائے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ اور صوبوں کے درمیان توازن بحال کیا جائے۔ خارجہ پالیسی بیرونی منظوری کے بجائے قومی مفاد کے اصول پر مرتب ہو۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ:
قراردادِ پاکستان کو آئینی حیثیت دی جائے اور اسے پریمبل کا حصہ بنایا جائے۔
صوبوں کو مالی اور انتظامی خودمختاری دی جائے لیکن وفاقی وحدت کو مضبوط رکھا جائے۔
عدلیہ کی آزادی اور اس کے احترام کو آئین کی بنیادی روح قرار دیا جائے۔
ریاست کی خارجہ پالیسی اپنے مفاد پر مبنی ہو، نہ کہ کسی عالمی کیمپ کی منظوری پر۔
سیاسی قیادت، فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی  سب اپنے آئینی دائرے میں رہیں۔
قراردادِ پاکستان کوئی مردہ تحریر نہیں، یہ وہ فکری اور سیاسی معاہدہ ہے جسے دوبارہ زندہ کیے بغیر پاکستان کی آئینی تاریخ کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ آئین کی عمارت اُسی وقت مستحکم ہوتی ہے جب اس کی بنیاد مضبوط ہو۔ 78 سال کی بے یقینی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم نے عمارت تو بنانے کی کوشش کی، مگر بنیاد نہیں ڈالی۔ ہر حکومت نے آئین کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، مگر کسی نے بھی یہ سوال نہیں پوچھا کہ ہمیں قراردادِ پاکستان سے کیوں انحراف کیا گیا؟ پاکستان مزید آئینی تجربات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہمیں ایک خودمختار، باوقار اور مستحکم ریاست بننا ہے تو ہمیں اپنی بنیادوں کی طرف لوٹنا ہوگا۔ یہ محض ایک قانونی یا سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک قومی، نظریاتی اور تاریخی ضرورت ہے۔ قوموں کو بیرونی طاقتوں کی منظوری سے نہیں، اپنی قوم کے اعتماد سے مضبوطی ملتی ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اصل تاریخ، اپنی اصل قرارداد اور اپنے اصل مقصد کو دوبارہ دریافت کریں۔ یہی واحد راستہ ہے جو ہمیں آئینی بے یقینی سے نجات دلا سکتا ہے۔ پاکستان کو مستقبل میں زندہ رہنا ہے تو اسے اپنی 1940ء کی بنیاد کی طرف واپس جانا ہوگا۔ کیوں کہ قرارداد پاکستان کوئی مردہ تحریر نہیں، یہ وہ فکری معاہدہ ہے جسے دوبارہ زندہ کیے بغیر پاکستان کی آئینی تاریخ کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پاکستان کی پاکستان کو پاکستان کے کی کوشش کی ترامیم ہو کی بنیاد اپنی اصل نہیں ہو محض ایک کا آئین میں ایک اس بات کی طرف اور اس کے لیے یہ ایک

پڑھیں:

آئین میں مزید ترامیم کی کوشش اس کا تقدس مجروح کرے گی: رضا ربانی

— فائل فوٹو 

سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ آئین میں مزید ترامیم کی کوشش اس کا تقدس مجروح کرے گی۔

اپنے بیان میں رضا ربانی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے نمائندے اور بعض سیاسی جماعتیں آئینی ترامیم پر گفتگو کر رہی ہیں، آئینی ترامیم پر گفتگو ایسے ہو رہی ہے جیسے اتوار بازار میں خریداری کر رہے ہوں۔

اُنہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم سمیت 1973ء کا آئین ایک متفقہ دستاویز ہے، 18ویں ترمیم سمیت 1973ء کے آئین پر صوبوں اور پارلیمنٹ کی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا۔

رضا ربانی نے کہا کہ متفقہ دستاویز کو متنازع ترامیم سے غیر مستحکم کرنے کی کوشش وفاق کے لیے تباہ کن ہو گی، 1973ء کے آئین میں مزید ترامیم کی کوئی بھی کوشش اس دستاویز کا تقدس مجروح کرے گی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ اس سے سیاسی موقع پرستوں کو نیا سیاسی ایجنڈے اٹھانے کا موقع ملے گا۔

رضا ربانی نے یہ بھی کہا کہ سیاسی موقع پرست وفاق کو آئینی عدم استحکام میں دھکیل دیں گے، یہ آئینی عدم استحکام موجودہ سیاسی عدم استحکام سے کہیں زیادہ سنگین ہو گا، آئینی و سیاسی عدم استحکام ملک میں انتشار کا باعث بنیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • آئینی ترامیم کیخلاف گلگت میں یوم سیاہ، ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرہ
  • مدارس کی خدمات اور ریاست کا دباؤ
  • غزہ پر سلامتی کونسل کی قرارداد منظور
  • کوئٹہ، تحریک تحفظ آئین کا اجلاس، جمعہ کو 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاج کا فیصلہ
  • آئین میں مزید ترامیم کی کوشش اس کا تقدس مجروح کرے گی: رضا ربانی
  • 26ویں اور 27ویں آئینی ترمیم عوام کے مفاد میں نہیں ہیں یہ آئین سے متصادم ہے: اسد قیصر
  • فلسطین دشمنی پر مبنی سلامتی کونسل کی قرارداد
  • 27ویں ترمیم کیخلاف پارلیمنٹ ہائوس کے باہراحتجاجی مظاہرہ
  • 27ویں آئینی ترمیم کیخلاف پارلیمنٹ ہائوس کے باہراحتجاجی مظاہرہ