غزہ پر سلامتی کونسل کی قرارداد منظور
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
غزہ میں امن کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے امن معاہدہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ووٹنگ ہو گئی ہے۔ سلامتی کونسل کے تمام ممبران نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ البتہ چین اور روس نے اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ انھوں نے ووٹ کا حق ہی استعمال نہیں کیا ہے۔ پاکستان میں کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ پاکستان نے چین کا ساتھ نہ دے کر چین کے ساتھ غداری کی ہے۔ پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ سلامتی کونسل میں بڑے ممالک اپنا ووٹ اپنے اپنے ملکی مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ روس اور چین اگر چاہتے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کو ویٹو بھی کر سکتے تھے۔ اگر وہ خلاف ووٹ ڈالتے تو یہ قرارداد منظور نہیں ہو سکتی تھی۔ ان دونوں ممالک کے پاس ویٹو ہے۔
ویٹو کا مطلب ہے کہ اگر یہ خلاف ووٹ ڈال دیں تو ووٹنگ کا عمل بے معنی ہو جاتا ہے۔ اس لیے پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ ووٹ کا حق استعمال نہ کر کے بھی ان دونوں ممالک نے بالواسطہ طور پر اس قرارداد کو راستہ فراہم کیا ہے۔ اس کی منظوری کے لیے سہولت کاری کی ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھیں کہ اگر وہ ٹرمپ کے منصوبے کے ساتھ نہیں کھڑے تو اس کے خلاف بھی نہیں کھڑے۔
یہ ضرورہے کہ چونکہ اس منصوبے کے دولہا ٹرمپ ہیں، روس اور چین کا اس میں کوئی اہم کردار نہیں ہے۔ اس لیے وہ اس سے خود کو دور رکھ رہے ہیں۔ ویسے بھی ہم نے دیکھا ہے کہ فلسطین اور غزہ پر یورپ میں زیادہ بات ہوئی ہے۔ روس اور چین نے ایک خاص حکمت عملی کے تحت خود کو اس سے دور ہی رکھا ہے۔ وہ فلسطین کے ساتھ مکمل کھڑے نہیں ہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنی پالیسی کے تحت ہی کام کیا ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ روس اس وقت یوکرین کی جنگ میں پھنسا ہوا ہے،اسے یوکرین میں رعائتیں چاہیے۔ اگر امریکا روس کی مدد کرے تو روس یوکرین میں اپنے اہداف حاصل کر سکتا ہے۔ اس قرارداد کے بعد ہی یوکرین جنگ میں امریکا اور روس کے درمیان جاری تعطل ختم ہوگیا ہے۔ امریکا کا اعلیٰ سطح کا عسکری وفد روس پہنچ گیا ہے۔ ٹرمپ اور پوٹن کی دوبارہ ملاقات کی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ جن دنوں یہ قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث تھی روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیف پر حملوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ روس کی یوکرین پر چڑھائی بڑھ گئی تھی۔ امریکا اب یوکرین کو میزائیل نہیں دے رہا۔ کہیں نہ کہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ روس نے ووٹ نہ دینے کے عوض یوکرین کی جنگ میں امریکا سے رعایت لی ہے۔ اس لیے روس نے کہیں نہ کہیں اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔
اسی طرح چین اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ ہو گیا ہے۔ چین کو ٹریڈ ڈیل مل گئی ۔ ایک وقت میں امریکا اور چین کے درمیان جو ڈیڈ لاک نظر آرہا تھا وہ ختم ہوا۔ چین کے صدر شی اور ٹرمپ کی ملاقات ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوا۔ چین نے بھی اپنے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ابھی تک ٹریڈ ڈیل نہیں ہوئی ہے۔ چین کے لیے بھی فلسطین سے زیادہ اہم اپنی تجارت تھی۔ اس لیے چین نے اپنے مفادات کا تحفظ کر کے ہی اس قرارداد کو راستہ دیا ہے۔ ورنہ چین اس کو ویٹو بھی کر سکتا تھا۔ اس لیے ہمارے وہ دوست جو یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے چین کے ساتھ دھوکا کر دیا ہے، وہ غلط کہہ رہے ہیں۔
جن دوستوں کی یہ رائے ہے کہ ہم نے چین پر امریکا کو ترجیح دے دی ہے، وہ بھی غلط کہہ رہے ہیں۔ عالمی سیاست میں آپ اکٹھے چلتے ہیں لیکن اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے۔ ہم نے چین کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ ہم نے چین کی کہیں مخالفت نہیں کی ہے۔ اس لیے پراپیگنڈا اپنی جگہ، حقیقت اپنی جگہ۔
جہاں تک حماس کا تعلق ہے۔ حماس کے لیے جذبات اپنی جگہ۔ لیکن مسلم ممالک حماس کے ساتھ نہیں ہیں۔ حماس نے تمام مسلم ممالک کا اعتماد کھو دیا ہے۔ آج ایران بھی کھل کر حماس کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آرہا۔ حماس کی اپنی پالیسی بھی غیر واضح ہے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات خود بھی کرتے ہیں، امن معاہدہ بھی کرتے ہیں، یرغمالیوں کے لیے مذاکرات بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں وہ باقی مسلم دنیا کو کیسے روک سکتے ہیں۔ اگر وہ خود اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر نہ بیٹھیں تو تب ہی دوسروں کو منع کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ وہ جنگ ہار بھی گئے ہیں اور انھوں نے ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں بھی گنوا دی ہیں۔ ان کے پاس فلسطینیوں کے لیے کوئی روڈ میپ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں کیا کیا جائے۔
ویسے بھی پاکستان فلسطین اور غزہ کے معاملہ پر مسلم دنیا کے ساتھ مل کر چل رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کا ایک کلیدی کردار نظر آرہا ہے۔ غزہ کے معاملے پر صدر ٹرمپ نے جن سات مسلم ممالک کے ساتھ مشاورت کی تھی پاکستان ان میں شامل تھا۔ ہم مسلم ممالک کے درمیان ٹرمپ معاہدہ کے حوالے سے ہونے والی سفارتکاری میں بہت اہم رہے ہیں۔ حال ہی میں اردن کے بادشاہ آئے۔پاکستان اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ پاکستان اس وقت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ممبر ہے۔ اس لیے ہمارے ووٹ کی بہت اہمیت تھی۔ اس اہمیت نے پاکستان کو سفارتکاری میں ایک مقام دیا۔
اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ پاکستان کی افواج غزہ جائیں گی یا نہیں۔ یہ اہم سوال ہے ۔ سب پوچھ رہے ہیں ۔ ابھی تک کوئی صورتحال واضح نہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی ابھی تک کوئی واضح اعلان نہیں کیا ہے۔ نہ ہم نے کہا ہے کہ ہم فوج بھیجیں گے اور نہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم نہیں بھیجیں گے۔ اردن کے بادشاہ حال ہی میں پاکستان آئے۔ اردن نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں اپنی فوج نہیں بھجوائے گا۔ اس طرح پاکستان ان ممالک کے ساتھ بھی کھڑا نظر آرہا ہے جو غزہ میں فوج نہیں بھیج رہے ہیں۔ دوسری طرف مصر غزہ میں بھیجی جانے والی فوج کا اہم رکن ابھر کر سامنے آیا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے فیلڈ مارشل مصر گئے اور وہاں کی عسکری قیادت سے بھی مل کر آئے۔ اس طرح ہم ان ممالک کے ساتھ بھی کھڑے نظر آرہے ہیں کہ جو غزہ میں فوج بھیج رہے ہیں۔ پاکستان کو جو بھی فیصلہ کرنا ہے، سوچ سمجھ کر کرنا ہے، مسلم ممالک کے ساتھ مل کر کرنا ہے۔ ہمیں کوئی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سعودی عرب ہمارا بڑا اتحادی ہے۔ ہمیں سعودی عرب کے ساتھ مل کر بھی چلنا ہے۔ ہم الگ نہیں رہ سکتے ۔ جو لوگ الگ رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ پاکستان کے مفاد میں بات نہیں کر رہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اپنے مفادات کا تحفظ ممالک کے ساتھ سلامتی کونسل کہہ رہے ہیں پاکستان نے کہ پاکستان مسلم ممالک رہے ہیں کہ پاکستان ا کے درمیان کرتے ہیں ٹرمپ کے اور چین نے چین اس لیے کے لیے چین کے بھی کر دیا ہے کیا ہے
پڑھیں:
فلسطین دشمنی پر مبنی سلامتی کونسل کی قرارداد
اسلام ٹائمز: امریکی قرارداد کی حمایت صرف ایک سفارتی حرکت نہیں، بلکہ ایک اخلاقی بحران ہے۔ یہ مظلوم فلسطینی عوام کی امیدوں، مسلم اتحاد کے تصور اور عالمی عدل کی بنیادوں پر کاری ضرب ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو چاہیئے کہ وہ عالمی دباؤ سے بے نیاز ہو کر ایک غیر مشروط، اصولی اور جرات مندانہ مؤقف اختیار کریں۔ فلسطین کی آزادی صرف ایک قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی عزت، غیرت اور نظریاتی تشخص کا مسئلہ ہے۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین ایک صدی سے زائد عرصہ سے غاصب صیہونی سازشوں کا نشانہ بنتی چلی آرہی ہے۔ ظلم و جبر کی ایسی داستان رقم کی گئی ہے، جس کی تاریخ میں کم ہی مثال ملتی ہے۔ فلسطین کے عوام سیاسی، معاشی اور اخلاقی سمیت ہر طرح کی نا انصافی اور جبر کا مقابلہ اپنے صبر اور استقامت کے ساتھ کرتے آئے ہیں اور آج کی جدید دنیا میں بھی فلسطینیوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کے صبر اور استقامت کے مقابلہ میں دنیا کی سپر طاقتیں بے بس ہوچکی ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ نہ صرف مسلم امہ کے اجتماعی ضمیر کا امتحان ہے بلکہ عالمی سیاسی قوتوں کے کردار کا عکاس بھی ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے جاری اسرائیلی جارحیت، فلسطینیوں کی نسل کشی، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور غزہ کی تباہ کن صورتحال کے باوجود عالمی طاقتیں خصوصاً امریکہ کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کرتی آئی ہیں۔
گذشتہ دو سال کی جنگ میں بھی امریکی حکومت نے کھلم کھلا غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی بھرپور مدد کی ہے اور فلسطینی عوام پر ہونے والی وحشیانہ جارحیت کی آج تک مذمت نہیں کی ہے۔ ایسے ماحول میں کہ جہاں امریکہ نے ایک طرف غزہ میں ہونے والی نسل کشی کی سرپرستی کی ہے، وہاں اب دوسری طرف غزہ پر اپنا مکمل تسلط قائم کرنے کے لئے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد دراصل وہی سیاسی ہتھکنڈہ ہے، جس کے ذریعے اسرائیل کو مزید وقت، جواز اور مدد فراہم کی جائے گی۔ یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین کی مزاحمت کے سامنے امریکہ اور اسرائیل جو کچھ کھلے میدان کی جنگ میں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، اب دنیا کے چند ممالک کی مدد سے یا پھر یہ کہہ لیجئے کہ مسلمان ممالک کی خیانت کاری کی مدد سے غزہ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔
گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد ایسی ہی سازشوں کی کڑی تھی، جن میں غزہ پر امریکی و اسرائیلی تسلط کو یقینی بنانا، غزہ کی مزاحمت کو ختم کرنا، فلسطین سے جبری جلا وطن فلسطینیوں کو واپس وطن نہ آنے دینا اور فلسطین کے مستقبل اور قسمت کا فیصلہ فلسطینیوں کو نہ کرنے دینا ہے۔ یہ امریکی قرارداد اسی طرح کی ناانصافی پر مبنی ہے، جیسا کہ سنہ 1917ء میں بالفور اعلامیہ تھا اور بعد ازاں سنہ1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 181 تھی، جس میں فلسطین کی سرزمین پر غاصب صیہونیوں کو قبضہ کرنے کا گرین سگنل دیا گیا تھا۔ حیرت انگیز اور افسوسناک امر یہ ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد پر پاکستان سمیت چند مسلم ممالک نے کھلم کھلا حمایت کی، کچھ نے خاموشی اختیار کی اور چند اہم ممالک خصوصاً پاکستان نے بھی غیر واضح اور کمزور سفارتی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا۔ یہ رویہ نہ صرف فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، حق واپسی اور حق مزاحمت کے خلاف ہے بلکہ مسلم دنیا کی سیاسی خود مختاری اور نظریاتی بنیادوں کے لیے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے۔
ایک اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ چین اور روس نے اس قرارداد پر نقطہ چینی کی اور قرارداد کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ اگرچہ ان کے غیر حاضر ہونے سے بھی اس قرارداد کو منظور کر لیا گیا، لیکن تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ جہاں چین اور روس نے ویٹو نہیں کیا، وہاں انہوں نے اس قرارداد پر اعتراض لگایا، لیکن مسلمان ممالک کی جانب سے ایسا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، جس نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمان حکمران امریکہ کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔ روسی مندوب نے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد کو غیر متوازن قرار دیا اور سخت نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کی قراردادیں بین الاقوامی قانونی فیصلوں (مثلاً ریاستِ فلسطین کی بین الاقوامی تسلیم شدہ حیثیت) کی روشنی میں ہونی چاہئیں۔ روسی مندوب نے کہا کہ بعض قراردادیں بین الاقوامی قانونی فیصلوں (مثلاً اقوامِ متحدہ کی دوسری قراردادوں) کے منافی ہیں اور انہیں مقبوضہ فلسطینی علاقوں پر مستقل انتظام دینے کا خطرہ ہوسکتا ہے، جو فلسطینی خود ارادیت کی روح سے متصادم ہے۔ روسی مندوب نے غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس (stabilization force) کی تعیناتی پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی امریکی قرارداد بظاہر جنگ بندی یا انسانی امداد جیسے الفاظ پر مبنی ہے، لیکن اس کے پسِ پشت اسرائیلی مفادات اور امریکی اسٹریٹجک مقاصد پوشیدہ ہیں۔ اس قرارداد میں غزہ جنگ بندی سے متعلق جرائم کرنے والے نیتن یاہو کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو اسرائیل کا دفاعی حق قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح فلسطینی مزاحمت جو کہ عالمی قوانین کی رو سے ایک جائز حق ہے، اس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس مزاحمت کو ختم کرنے یا غیر مسلح کرنے کی بات کی گئی ہے، ساتھ ساتھ غزہ میں بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) کے قیام کے لئے مسلمان ممالک کی افواج کو امریکی و برطانوی سرپرستی میں تعینات کرنے کا ذکر ہے، ان افواج کا کام غزہ میں موجود فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بتایا گیا ہے۔ یقینی طور پر ایسی قرارداد کی حمایت کرنا عملاً مظلوم کی بجائے ظالم کے بیانیے کو تقویت دینا ہے۔
دیگر مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان نے بھی امریکہ کے ایسے بیانیہ کی حمایت میں ووٹ دیا ہے، جو فلسطین مخالف ہے اور فلسطینی عوام کےحق کو پامال کرتا ہے۔ اس موقف نے پاکستان کی تاریخی حیثیت اور تاریخی موقف پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ پاکستان تاریخی طور پر فلسطین کا کھلا اور غیر مشروط حمایتی ملک رہا ہے۔ مگر حالیہ برسوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں وہ جرات، وہ استعمار مخالف لہجہ اور وہ قائدانہ کردار کم ہوتا دکھائی دیتا ہے، جو ماضی میں اس کی پہچان تھا۔ اگر پاکستان ایسی قراردادوں پر غیر واضح یا کمزور مؤقف اپناتا رہا تو عالم اسلام میں پاکستان کی مخصوص حیثیت کمزور ہو جائے گی۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے بانیان نے آزادی سے پہلے فلسطین کاز کے لئے ایک ٹھوس اور جاندار موقف اپنایا، جو انصاف کے تقاضوں پر مبنی تھا۔ اسی طرح جب پاکستان آزاد ہوا تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیا اور اٹل فیصلہ دیا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔
پاکستان ہمیشہ قبلہ اول کے دفاع اور فلسطینیوں کے حق کے لئے بین الاقوامی فورمز پر مضبوط دلائل دیتا آیا ہے۔ لیکن اب سلامتی کونسل میں پاکستان نے امریکی مؤقف کی حمایت کرکے ایک ایسی قرارداد کو ووٹ دیا ہے، جس کو خود فلسطینی عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ پاکستان کے اس عمل سے جہاں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو دھچکا پہنچا ہے، وہاں ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی امریکی قرارداد کی حمایت کرنے سے پاکستان نے مسلم دنیا کے اتحاد کے میدان میں بھی اپنا موقف کمزور کر لے گا۔ یہ صرف فلسطین کاز کا نقصان نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان ہے۔ پاکستان امتِ مسلمہ میں ایک نظریاتی اور ایٹمی طاقت کے طور پر اثر رکھتا ہے۔ اس کا کمزور اور لچکدار مؤقف مسلم اتحاد کو مزید کمزور کرے گا۔ سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کی حمایت حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جبکہ پاکستان کے عوام اس پالیسی کے ساتھ نہیں ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی شہری حکومت کے اس فیصلہ کو درست قرار نہیں دے گا، کیونکہ پاکستانی عوام فلسطین کے معاملے پر انتہائی واضح اور جذباتی مؤقف رکھتے ہیں۔
اگر کوئی پاکستان کے حکمرانوں کو یہ بتا رہا ہے کہ فلسطین کاز سے روگردانی کرنے اور اس کے عوض امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے ذریعہ پاکستان کو ترقی حاصل ہوگی اور پاکستان ایک دم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آئے گا تو یقیناً ایسے لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جس جس نے امریکہ کی وفاداری کا دم بھرا ہے، امریکی حکومت نے اس ملک کا بدترین حال کیا ہے۔ گذشتہ چند برسوں میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے ہیں۔ یہ تعلقات اب ان کی خارجہ پالیسی کو فلسطین سے دور کر رہے ہیں۔ لیکن کیا ان عرب ممالک میں بسنے والے لاکھوں کروڑوں عوام کو فلسطین سے دور کیا جا سکا ہے۔؟ دراصل یہ امریکہ نے پاکستان اور مسلم ممالک کے خلاف ایک سنگین سازش کا جال بنایا ہے، جس میں طاقتور افواج رکھنے والے مسلمان ممالک کو کمزور کرنا ہے، تاکہ آئندہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امریکی غلامی کا طوق ان کی گردن میں رہے۔
فلسطینی قومی دھڑوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ سلامتی کونسل کی یہ قرارداد امن کے لئے نہیں بلکہ اسرائیل کو فوائد پہنچانے کے لئے ہے۔ حماس سمیت فلسطین کی تمام سیاسی و مزاحمتی تنظیموں نے اس قرارداد کو غزہ دشمنی سے منسوب کیا ہے اور اسے اسرائیل کے لئے فلسطینیوں کے قتل عام کا نیا لائسنس اور اجازت نامہ قرار دیا ہے۔ یہ فلسطین کی جدوجہد اور قربانیوں کو بدنام کرنے کی سازش ہے، جس پر پاکستان سمیت مسلمان ممالک نے دستخط کئے ہیں۔ اگر واقعی مسلمان ممالک فلسطین کے لئے امن اور انصاف چاہتے ہیں تو پھر آئیں امریکی قرارداد کو مسترد کریں اور اپنی ایک ایسی قرارداد پیش کریں، جس میں غزہ میں مستقل جنگ بندی، اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات، قاتلوں کا احتساب، قاتلوں کی مدد کرنے والے ممالک اور ان کے حکمرانوں کا احتساب، فلسطین کے مسئلہ کا اصولی حل، جو فلسطینی عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔
اسی طرح اسرائیل کے ساتھ قائم کردہ تعلقات کو منسوخ کرنا چاہیئے، غزہ کے لئے انسانی امداد کی فراہمی، فلسطینی مزاحمت کی اخلاقی و سیاسی حمایت جیسے اہم نقاط شامل ہونے چاہئیں۔ ایسی قرارداد کو تمام مسلمان ممالک کو چاہیئے کہ پیش کریں اور منظور کروائیں، نہ کہ امریکہ کی یکطرفہ قرارداد کو تسلیم کرکے تاریخ میں فلسطینی کاز کے مجرم قرار پائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ امریکی قرارداد کی حمایت صرف ایک سفارتی حرکت نہیں، بلکہ ایک اخلاقی بحران ہے۔ یہ مظلوم فلسطینی عوام کی امیدوں، مسلم اتحاد کے تصور اور عالمی عدل کی بنیادوں پر کاری ضرب ہے۔ پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کو چاہیئے کہ وہ عالمی دباؤ سے بے نیاز ہو کر ایک غیر مشروط، اصولی اور جرات مندانہ مؤقف اختیار کریں۔ فلسطین کی آزادی صرف ایک قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی عزت، غیرت اور نظریاتی تشخص کا مسئلہ ہے۔