غزہ کی تباہی، انصاف کا دہرا معیار
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
جی سیون ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت کا اعادہ کیا۔ کینیڈا میں جی سیون ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں غزہ کی صورتحال، یوکرین روس جنگ سمیت دیگر امور پرگفتگو کی گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ جنگ بندی معاہدے کو ’’ انتہائی نازک‘‘ قرار دیتے ہوئے فریقین سے مکمل احترام کی اپیل کی ہے تاکہ امن کی بحالی ممکن ہو سکے۔ ادھر غزہ میں ایک اجتماعی قبر سے 51 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال انسانی تاریخ کے بدترین المیوں میں سے ایک المیہ ہے، مگر افسوس کہ اسے سیاسی بیانیے اور سفارتی مفادات کی نذرکیا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی پالیسیاں اس حد تک دو رخی ہوچکی ہیں کہ ظلم کا شکار ہونے والی قوم اگر فلسطینی ہو تو دنیا کے حساس ترین ادارے بھی خاموشی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ جی سیون ممالک کا حالیہ اجلاس بھی اسی دہرے معیار کی ایک واضح جھلک ہے جہاں غزہ کے حقیقی حقائق پر سنجیدہ بات کرنے کے بجائے امریکی صدر کے اس منصوبے کی اعادہ شدہ حمایت سامنے آئی جس نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے بجائے مزید بے چینی، تقسیم اور کشیدگی کو جنم دیا ہے۔
یہ اجلاس اگرچہ عالمی سفارت کاری کا ایک اہم فورم تھا، مگر اس کی ترجیحات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے بڑے طاقتور ممالک کے نزدیک فلسطینی عوام کی زندگیوں کا کوئی وزن نہیں۔ یرغمالیوں کی واپسی اور ان کی باقیات کی حوالگی پر جو زور مشترکہ اعلامیے میں دیا گیا، وہ بظاہر انسانی ہمدردی کا اظہار ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی گھروں کے ملبے سے نکلی، اجتماعی قبروں کا ذکر نہ ہونا، ایک سنگین ناانصافی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسانی حقوق کا معیار بھی قومیت اور طاقت کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔
غزہ، جو کبھی بچوں کی ہنسی اورگھروں کے صحنوں میں گونجتی زندگیوں سے آباد تھا، آج ملبوں کا شہر بن چکا ہے۔ غزہ کے آسمان پر دھوئیں کی دھاریاں، گلیوں میں چیخیں، اسپتالوں میں بے بسی اور قبرستانوں میں تنگی، یہ سب کچھ ایک عام دن کا حصہ بن گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی نے ثابت کردیا ہے کہ طاقتور ممالک کی سرپرستی میں وہ کسی قانون،کسی معاہدے اورکسی اخلاقی قدر کو خاطر میں نہیں لاتا۔ جب عالمی برادری خاموش ہو، تو ظلم بڑھتا ہے، اور یہی غزہ میں ہو رہا ہے۔
اسرائیلی حملوں کی تازہ لہر نے نہ صرف غزہ سٹی، بیت لاہیا اور خان یونس کو نشانہ بنایا بلکہ مغربی کنارے میں بھی حالات خطرناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ قابض فوج کی گولیوں کا نشانہ بننے والے دو معصوم فلسطینی بچے محض ’’واقعات‘‘ کا حصہ نہیں، بلکہ وہ اس سوال کا جواب ہیں کہ عالمی قوانین کہاں ہیں؟ انسانی حقوق کہاں ہیں؟ بچوں کے تحفظ کی عالمی کونسلیں، ادارے اور تنظیمیں کہاں ہیں؟ دنیا بھر میں بچوں کے حقوق پر لیکچر دینے والے ملک کہاں ہیں؟ جب تک یہ سوالات جواب نہیں پاتے، تب تک عالمی انسانی حقوق ایک کھوکھلا نعرہ ہی رہیں گے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے جنگ بندی معاہدے کو ’’انتہائی نازک‘‘ قرار دیا ہے، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ نازکی طاقتور ممالک کی مصلحتوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ غزہ کے شہری آج بھی کھنڈرات میں خوراک، پانی اور ادویات کی تلاش میں گھومتے پھر رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں، اسکولوں اور اسپتالوں سمیت ہر جگہ تباہی کے آثار ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے بعد ریسکیو مشینری تک پہنچنے میں گھنٹوں نہیں بلکہ دن لگ جاتے ہیں۔ سول ڈیفنس کے کارکنوں کے مطابق درجنوں خاندان ابھی بھی ملبوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں، اور ہر لمحہ ان کی زندگی کا چراغ بجھ سکتا ہے۔ یہ منظر نامہ صرف متاثرہ خاندانوں کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔
اجتماعی قبریں چونکانے والی حقیقت نہیں بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کا ثبوت بن چکی ہیں۔ 51 لاشوں کا ایک ساتھ ملنا، جن میں بچے، عورتیں، بزرگ اور جوان شامل ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ میں کسی کا نقصان ایک فرد کا نہیں، پورے خاندان، پورے محلے اور پورے شہر کا نقصان بن جاتا ہے، لیکن دنیا کے طاقتور ایوان ان قبروں کے سامنے بھی خاموش ہیں۔
حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی لاشوں کی حوالگی کا سلسلہ جاری ہے، جس کے بدلے میں اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کرتا ہے۔ یہ ایک انسانی تبادلے کا عمل ضرور ہے، مگر اس کے ساتھ ایک تلخ سوال جڑا ہوا ہے: فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا معیار یرغمالیوں کی تعداد کیوں؟ کیا فلسطینی قیدی، جن میں بچے، نوجوان اور خواتین شامل ہیں، انسان نہیں؟ کیا ان کے لیے بھی انسانی ہمدردی کا کوئی قانون موجود نہیں؟ یہ المیہ ہے کہ فلسطینی قیدیوں کو دنیا کے اکثر ممالک محض ’’شماریاتی تعداد‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، مگر یرغمالیوں کو عالمی سیاست کا محور بنایا جاتا ہے۔ انصاف کا یہ دہرا معیار نفرتوں کو پروان چڑھاتا ہے، جنگ کو لمبا کرتا ہے اور نفسیاتی خلیج کو وسیع کرتا ہے۔
غزہ کی تباہی صرف موجودہ نسل پر نہیں رکی، اگلی کئی نسلیں اس کے اثرات جھیلتی رہیں گی۔ تباہ شدہ تعلیمی ادارے، اسپتالوں کا انہدام، معیشت کا خاتمہ اور ذہنی و جسمانی صدمات۔ یہ سب کچھ ایسے زخم ہیں جو صرف مرہم نہیں بلکہ انصاف کا تقاضا کرتے ہیں۔ جب تک انصاف نہیں ملتا، تب تک امن کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسرائیل کی جارحیت کو روکنے کے لیے صرف بیانات کافی نہیں، عملی قدم ناگزیر ہیں۔عالمی طاقتیں، خصوصاً امریکا، اگر واقعی غزہ میں امن چاہتے ہیں تو انھیں سب سے پہلے اس پالیس مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہوگا جو اسرائیل کے ہر اقدام کو تحفظ دیتا ہے۔
طاقتور ممالک کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ انسانی جانوں کو سیاسی فیصلوں سے اوپر رکھیں، اگر یوکرین کے مسئلے پر وہ یک جہتی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، تو فلسطین کے لیے خاموش کیوں؟ اگر انسانی حقوق عالمی سطح پر برابر ہیں تو پھر فلسطینی کیوں مستثنیٰ ہیں؟غزہ کے معصوم بچے جب دنیا کی اس بے حسی کو دیکھتے ہیں، تو ان کی آنکھوں میں یہ سوال جھلکتا ہے کہ کیا ان کا وجود کسی عالمی ضابطے کا حصہ نہیں؟ کیا ان کے خواب، ان کی مسکراہٹ اور ان کی زندگی کسی اخلاقی یا قانونی تحفظ کی حقدار نہیں؟ یہ سوالات صرف فلسطینی بچوں کے نہیں، پوری دنیا کے لیے آئینہ ہیں۔
آج دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مستقبل میں کس طرف کھڑی نظر آنا چاہتی ہے، اگر انصاف کی خاطر نہیں، تو کم از کم انسانیت کی خاطر ہی سہی، دنیا کو غزہ کے لیے کھڑا ہونا ہوگا۔ فلسطینیوں کو حقِ خودارادیت دینا، ان کے گھروں پر مسلط جنگ بند کرانا، اور اسرائیل کو اس کی جارحیت کے نتائج سے آگاہ کرنا، یعنی اختیاری نہیں بلکہ ضروری ہے۔
غزہ میں غذائی قلت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ قحط کے آثار واضح طور پر دکھائی دینے لگے ہیں۔ امداد کو روکنا، خوراک اور ادویات کو سیاسی تنازعے کا ہتھیار بنانا، انسانی حقوق کی ایسی پامالی ہے جس کی کوئی تاریخ مثال پیش نہیں کرتی۔ جب ایک پوری آبادی جان بوجھ کر بھوک، پیاس اور بے گھری کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائے، تو یہ نہ صرف جنگی جرم ہے بلکہ تہذیب یافتہ دنیا کے منہ پر طمانچہ ہے۔ عالمی ادارے چیخ چیخ کر انتباہ کر رہے ہیں کہ غزہ کے بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں، لیکن عالمی طاقتوں کی سماعتوں پر جیسے لکیر کھینچ دی گئی ہو۔
ادھر انفرا اسٹرکچر کی تباہی نے صورتحال مزید المناک بنا دی ہے۔ اسپتال زمیں بوس، اسکول ملبے کا ڈھیر، پانی اور بجلی کی عدم فراہمی، صفائی کے نظام کی تباہی اور وباؤں کے بڑھتے ہوئے خدشات—غزہ کے باسیوں کے لیے زندگی ایک نہ ختم ہونے والے کرب میں بدل چکی ہے۔ ایندھن کی بندش نے نہ صرف طبی امداد کو تقریباً ناممکن بنا دیا ہے بلکہ امدادی کارروائیوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ آج غزہ ایک کھلا زخم ہے، اور دنیا تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
غزہ کا درد صرف فلسطینیوں کا نہیں، یہ انسانیت کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کیے رکھی، تو تاریخ اسے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہمیں اپنی آواز بلند کرنا ہوگی، کیونکہ غزہ کے ملبے میں دبی ہوئی نہ صرف انسانی زندگیاں ہیں، بلکہ ہماری اجتماعی اخلاقیات، ہمارا ضمیر اور ہمارا مستقبل بھی۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کا مسئلہ کسی ایک قوم، ملک یا مذہب کا مسئلہ نہیں۔ یہ پوری انسانیت کی آزمائش ہے۔
اگر اقوام متحدہ، عالمی برادری اور طاقتور ممالک واقعی تاریخ میں باعزت ہونا چاہتے ہیں تو انھیں آج، اسی لمحے، ظلم کے سامنے دیوار بننا ہوگا۔ ورنہ آنے والے وقت میں جب تاریخ رقم ہوگی، تو غزہ کے ملبے میں دبی انسانی چیخیں ان کے ضمیر کا ہمیشہ پیچھا کرتی رہیں گی۔ غزہ کی دھرتی انصاف کی طلبگار ہے اور جب تک انصاف نہیں ملتا، امن محض ایک خواب ہی رہے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: طاقتور ممالک نہیں بلکہ کہاں ہیں کی تباہی ہیں بلکہ نے والے دنیا کے غزہ کی غزہ کے کے لیے کہ غزہ دیا ہے
پڑھیں:
4 ووٹ ابھی بھی ہماری جیب میں تھے، 28 ویں ترمیم کیلئے رکھ لئے: فیصل واوڈا
اسلام آباد: (نیوزڈیسک) سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ چارووٹ ابھی بھی ہماری جیب میں تھے، وہ چار ووٹ ہم نے 28 ویں ترمیم کے لیے رکھ لیے ہیں۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا کہ عدالتوں نے بھٹو کو 45 سال بعد انصاف دیا، عدالتوں میں انصاف کیسے ملتا ہے اس کی ایک ہسٹری ہے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ یہ 27 ویں ترمیم اتفاق رائے سے پاس ہوئی، چیئرمین سینیٹ نے تحریک انصاف کو 59 بار بلایا، تحریک انصاف والے سوشل میڈیا پر کچھ اور اندر ڈرامہ کرتے ہیں، تحریک انصاف والوں کو قوم کے ساتھ سچ بولنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے واک آؤٹ کا مقصد رضا مندی ہوتا ہے، اپوزیشن اس حکومت کی ضمانتی ہے، ترامیم نہیں رکیں گی تحریک انصاف کے بندے کم پڑجائیں گے۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ جمہوریت نے کونسا معرکہ مارا ہے، جمہوریت نے سکول، کالج، ہسپتال اور بجلی، گیس نہیں دی، آج سہیل آفریدی نے سب کو بلایا اچھا اقدام کیا۔
انہوں نے کہا کہ میری بات صحیح نکلی وہ 26 نومبر کو چڑھائی نہیں کرنے آ رہے، یہ ایک اچھی بات ہے، سہیل آفریدی کو بانی اور اپنے لیے آسانی پیدا کرنی چاہئے۔