پنجاب کے 13 حلقوں میں ضمنی انتخابات، مہم آج رات ختم ہو جائے گی
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
لاہور:
پنجاب میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے 13 حلقوں میں انتخابی مہم آج رات ختم ہوگی جبکہ پولنگ 23 نومبر کو ہوگی۔
الیکشن کمیشن کے مطابق قومی اسمبلی کی 6 اور صوبائی اسمبلی کی 7 نشستوں پر ووٹنگ ہوگی۔
قومی اسبملی کے حلقوں میں ہری پور این اے 18، فیصل آباد کے دو حلقے این اے 104 وار 96، این اے 129 لاہور، این اے 143 سرگودھا اور این اے 185 ڈی جی خان کے حلقے شامل ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے 7 حلقوں میں پی پی ساہیوال 203 اور مظفر گڑھ 269 شامل ہیں جبکہ سرگودھا پی پی 73، میانوالی پی پی 87 اور فیصل آباد کے تین حلقے 15، 98 اور 116 شامل ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی تیاری مکمل ہیں، بیلٹ پیپرز اور دیگر سامان کل صبح ریٹرننگ افسران کے دفاتر سے پولنگ اسٹیشنز منتقل کیا جائے گا۔
سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں جس کے لیے فوج، رینجرز اور ایف سی کو انتخابی ڈیوٹی پر طلب کر لیا گیا ہے۔ پولنگ اسٹیشنز کے باہر سیکیورٹی اہلکار جبکہ پولنگ رومز پر خصوصی نفری تعینات ہوگی۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو کوڈ آف کنڈکٹ کی پابندی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہم آج رات 12 بجے ختم ہو جائے گی، جس کے بعد کسی قسم کی انتخابی سرگرمی کی اجازت نہیں ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
23نومبر کے ضمنی انتخابات اورموروثیت کا عنصر
پاکستان میں دولتمندوں اور موروثیت کی سیاست ختم نہیں کی جا سکی ہے ، حالانکہ اِس ضمن میں بڑے بڑے سیاستدانوں نے دعوے اور وعدے تو بہت کیے۔ اب 23نومبر2025 کو پنجاب اورخیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنہیں ٹکٹ دیے گئے ہیں، وہ موروثی اور مقتدرانہ سیاست ہی کا ایک سلسلہ لامتناہی ہے ۔ کسی سیاسی پارٹی نے اپنے کسی مخلص اور غریب سیاسی کارکن کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔
گویا سیاسی کارکن بیچارے ساری حیاتی بس مقتدر اور دولتمند سیاستدانوں کے حُقے بھرنے کے لیے ہی رہ جاتے ہیں ۔ اِس ضمن میں پی پی پی، پی ٹی آئی اور نون لیگ بھی برابر کی ذمے دار ہیں۔ 23نومبر کے ضمنی انتخابات کے لیے نون لیگی قیادت نے جن افراد کو ٹکٹ جاری کیے ہیں، وہ موروثی سیاست ہی کا بڑھاوا ہے۔مثال کے طور پر: فیصل آباد کے علاقے میں ضمنی انتخابات کے لیے جن اصحاب(بلال بدر چوہدری ، رانا احمد شہر یار اور راجہ دانیال) کو نون لیگ نے ٹکٹ جاری کیے ہیں، وہ نون لیگ کے مقتدر سیاستدانوں کے مقربین ہیں ۔
بلال بدر چوہدری ، وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ ، طلال چوہدری، کے برادرِ خورد ہیں۔ رانا احمد شہر یار ، سابق وفاقی وزیر اور اب وزیر اعظم ، شہباز شریف ، کے مشیرِ سیاسی امور، رانا ثناء اللہ، کے داماد ، جب کہ راجہ دانیال ، سابق وفاقی وزیر، راجہ ریاض، کے صاحبزادے ہیں۔ سرگودھا سے نون لیگ کا ٹکٹ جس صاحب ( سلطان علی رانجھا) کو عطا کیا گیا ہے ، وہ سابق وزیر میاں مناظر رانجھا کے لختِ جگر ہیں۔ اِسی طرح ساہیوال سے جن جٹ برادران ( چوہدری طفیل جٹ اور چوہدری حنیف جٹ) کو نون لیگی ٹکٹ جاری کیا گیا ہے ، دونوں بھائی ہیں ۔
اب یہ خبر ضرور آئی ہے کہ پنجاب کی نون لیگ نے صوبائی حلقہ269( مظفر گڑھ) کے ضمنی الیکشن میں اپنے اُمیدوار (اقبال خان پتافی)کو پیپلز پارٹی کے اُمیدوار (علمدار قریشی)کے حق میں دستبردار کرا دیا ہے۔ علمدار عباس قریشی نون لیگ میں بھی رہ چکے ہیں اور پی ٹی آئی میں بھی ۔ پہلے بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں ۔ فروری2024کے عام انتخابات میں بھی وہ ایم پی اے منتخب ہو گئے تھے ، مگر اُن کے ووٹوں کو چیلنج کر دیا گیا۔ اور جب دوبارہ گنتی کا حکم دیا گیا تو علمدار قریشی بوجوہ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے ۔
اُنہیں چیلنج بھی اقبال پتافی ہی نے کیا تھا۔ اقبال پتافی کو اب دستبردار کرانے میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور ایم این اے ، علی قاسم گیلانی، نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ یاد رہے علی گیلانی سابق وزیر اعظم اور حالیہ سینیٹ کے چیئرمین، سید یوسف رضا گیلانی، کے صاحبزادے ہیں ۔ گیلانی صاحب کے اپنے گھر میں نصف درجن کے قریب قومی و صوبائی اسمبلی کی کئی منتخب سیٹیں ’’پڑی ‘‘ ہیں۔ یہ بھی موروثی سیاست کا ایک زندہ شاہکار ہے ۔
23نومبر2025 کو ہری پور (خیبرپختونخوا) کی ایک سیٹ کے لیے ضمنی انتخابات کے لیے اگرچہ نصف درجن سے زائداُمیدوار کھڑے ہیں، مگر یہاں بھی موروثی سیاست غالب ہے۔ہری پور کے این اے18میں مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی کے حمائت یافتہ آزاد اُمیدوار ،پی پی پی،ہزارہ قومی محاذ،پاکستان نظریاتی پارٹی اور 4آزاد اُمیدوار ( جن میں 2خواتین بھی شامل ہیں)قسمت آزمائی کے لیے سامنے ہیں۔مگر سب واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اصل مقابلہ پی ٹی آئی کی حمائت یافتہ اور نون لیگ کے ٹکٹ ہولڈر میں ہے۔ ہری پور میں موروثیت کا کردار پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے ایک معروف لیڈر ادا کررہے ہیں ۔ اور یہ صاحب ہیں: عمر ایوب خان ۔ خود بھی کئی بار (دوسری سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے) وفاقی وزیر رہ چکے ہیں ۔
اُن کے والد صاحب (گوہر ایوب خان مرحوم) بھی وفاقی وزیر رہے ہیں اور تین عشروں سے زائد بار قومی اسمبلی کے رکن۔ اور اُن کے دادا جان کو تو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ اُنھوں نے پہلی بار پاکستان میں مارشل لا نافذ کیا۔ عدالت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پانچ سال کے لیے نااہل ہونے سے قبل موصوف قومی اسمبلی میں ، پی ٹی آئی کی جانب سے، قائدِ حزبِ اختلاف تھے ۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر(فروری 2023کے انتخابات میں) این اے18 سے ایم این اے منتخب ہُوئے تھے ۔ 9مئی کے ’’ معروفِ عالم‘‘ احتجاجات کے ’’الزامات ‘‘ میں مگر وہ بھی دَھر لیے گئے ۔ عدالت کی جانب سے نااہلی کا ٹھپہ عمر ایوب خان نے، پہلے پہل، تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اُنھوں نے عدالت کے دروازے پر دستک بھی دی ، مگر پھر حالات کے آگے سرِ تسلیم خم کر لیا ۔
عمر ایوب خان کے سیاسی خاندان کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں اُن کے خاندان کو Tareens of Haripurکہا جاتا ہے ؛ چنانچہ اِسی سیاسی و مقتدر وراثت کے پسِ منظر میں عمر ایوب خان نے این اے18 (ہری پور) میں ضمنی انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ اپنی اہلیہ محترمہ ( شہر ناز ایوب خان) کو دلوایا ہے۔یہ بھی موروثی سیاست کی ایک ’’اعلی‘‘ اور ’’ارفعیٰ‘‘ مثال ہے ۔ اور اِس موروثی سیاست کو بانی پی ٹی آئی نے بھی آگے بڑھایا ہے کہ محترمہ شہر ناز کو ٹکٹ جاری کرنے میں اُن کی بھی اشیرواد حاصل ہے ۔
اگر ضمنی انتخاب کا یہ ٹکٹ ہری پور میں پی ٹی آئی کے کسی محنتی اور قابل سیاسی ورکر کو دیا جاتا تو ملک بھر میں پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے نام کا ڈنکا بجتا ۔ مگر پی ٹی آئی میں بھی عام سیاسی کارکن کو بھلا کون پوچھتا ہے؟ عام اور غریب سیاسی کارکن تو رہ جاتے ہیں بس نعرہ زنی کے لیے، جیلوں میں جانے کے لیے ، پولیس کے ڈنڈے اور لاٹھیاں کھانے کے لیے۔ سیاست اور مقتدر سیاستدانوں سے محبت کا یہ چسکا مگر ایسا شدید ہے کہ واضح محرومیوں کے باوصف یہ سیاسی کارکن بھی پیچھے نہیں ہٹتے ۔
کہا جارہا تھا کہ عمر ایوب خان کے فرسٹ کزن(یوسف ایوب خان)کو بھی این اے 18کے ضمنی انتخاب کے لیے ٹکٹ دیا جا سکتا تھا ۔ یوسف ایوب خان (جن کے دو چھوٹے بھائی، ارشد ایوب اور اکبر ایوب، ہری پور ، خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی ہیں) نہائت تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔ اُنہیں ہری پور کی تینوں تحصیلوں میںمقبولیت حاصل ہے۔ وہ خیبر پختونخوا میں تین وزرائے اعلی( آفتاب خان شیر پاؤ، مہتاب احمد خان ، پرویز خٹک) کی حکومتوں میں صوبائی وزیر رہے ہیں ۔ہری پور میں اُن کا خاصا سیاسی و سماجی اثرورسوخ ہے ، لیکن اِس کے باوجود این اے 18کے ضمنی انتخاب کے لیے ٹکٹ یوسف ایوب خان کی بجائے عمر ایوب خان نے اپنی اہلیہ محترمہ کو دلوایا ۔ یہی تو اصل سیاسی موروثیت ہے جس سے کوئی بھی سیاسی جماعت اور سیاستدان جان نہیں چھڑا پارہا ۔ وجوہات سب کے علم میں ہیں ۔نون لیگ نے بھی تو این اے 18میں ٹکٹ جاری کرکے اقربا نوازی اور سیاسی موروثیت کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ اب NA 18میں (23نومبر کو) محترمہ شہر ناز ایوب خان اور جناب نواز خان آمنے سامنے ہوں گے ۔
بعض سنجیدہ اور فہمیدہ تجزیہ نگاروں اور ہری پور کی سیاست کے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ محترمہ شہر ناز ایوب خان کو میدان سیاست وانتخاب میں اُتار کر ’’ہری پور کے ترینوں‘‘ نے رِسک ہی لیا ہے ۔ مسز عمر ایوب خان کو40سالہ بابر نواز خان کو ہرانے کے لیے غیر معمولی توانائی اور محنت کی ضرورت ہے ۔ اور بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ مسز عمر ایوب خان لکی مروت کے ایک معروف و مشہور سیاسی خاندان سے بھی تعلق رکھتی ، اس لیے یہ تعلق اور ناتہ بھی اُن کی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے ۔لکی مروت کے طاقتور خاندان اور ’’ہری پور کے ترینوں‘‘ کے سیاسی اثرورسوخ کا نتیجہ 23نومبر ہی کو ہم دیکھیں گے ۔
دریں اثنا نون لیگ میںموروثی سیاست کی ایک اور مثال یوں بھی سامنے آئی ہے کہ وزیر آباد /گوجرانوالہ (این اے66) میں 23 نومبر2025کے ضمنی انتخاب میں نون لیگی وفاقی وزیراطلاعات( عطا ء اللہ تارڑ) کے بھائی (بلال تارڑ) بِلا مقابلہ جیت گئے ہیں ۔ اسلام آباد میں متعین امریکی ناظم الامور (نیٹلی بیکر) نے عطاء اللہ تارڑ کو مبارکباد بھی دے دی ہے ۔