23نومبر کے ضمنی انتخابات اورموروثیت کا عنصر
اشاعت کی تاریخ: 21st, November 2025 GMT
پاکستان میں دولتمندوں اور موروثیت کی سیاست ختم نہیں کی جا سکی ہے ، حالانکہ اِس ضمن میں بڑے بڑے سیاستدانوں نے دعوے اور وعدے تو بہت کیے۔ اب 23نومبر2025 کو پنجاب اورخیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جنہیں ٹکٹ دیے گئے ہیں، وہ موروثی اور مقتدرانہ سیاست ہی کا ایک سلسلہ لامتناہی ہے ۔ کسی سیاسی پارٹی نے اپنے کسی مخلص اور غریب سیاسی کارکن کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔
گویا سیاسی کارکن بیچارے ساری حیاتی بس مقتدر اور دولتمند سیاستدانوں کے حُقے بھرنے کے لیے ہی رہ جاتے ہیں ۔ اِس ضمن میں پی پی پی، پی ٹی آئی اور نون لیگ بھی برابر کی ذمے دار ہیں۔ 23نومبر کے ضمنی انتخابات کے لیے نون لیگی قیادت نے جن افراد کو ٹکٹ جاری کیے ہیں، وہ موروثی سیاست ہی کا بڑھاوا ہے۔مثال کے طور پر: فیصل آباد کے علاقے میں ضمنی انتخابات کے لیے جن اصحاب(بلال بدر چوہدری ، رانا احمد شہر یار اور راجہ دانیال) کو نون لیگ نے ٹکٹ جاری کیے ہیں، وہ نون لیگ کے مقتدر سیاستدانوں کے مقربین ہیں ۔
بلال بدر چوہدری ، وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ ، طلال چوہدری، کے برادرِ خورد ہیں۔ رانا احمد شہر یار ، سابق وفاقی وزیر اور اب وزیر اعظم ، شہباز شریف ، کے مشیرِ سیاسی امور، رانا ثناء اللہ، کے داماد ، جب کہ راجہ دانیال ، سابق وفاقی وزیر، راجہ ریاض، کے صاحبزادے ہیں۔ سرگودھا سے نون لیگ کا ٹکٹ جس صاحب ( سلطان علی رانجھا) کو عطا کیا گیا ہے ، وہ سابق وزیر میاں مناظر رانجھا کے لختِ جگر ہیں۔ اِسی طرح ساہیوال سے جن جٹ برادران ( چوہدری طفیل جٹ اور چوہدری حنیف جٹ) کو نون لیگی ٹکٹ جاری کیا گیا ہے ، دونوں بھائی ہیں ۔
اب یہ خبر ضرور آئی ہے کہ پنجاب کی نون لیگ نے صوبائی حلقہ269( مظفر گڑھ) کے ضمنی الیکشن میں اپنے اُمیدوار (اقبال خان پتافی)کو پیپلز پارٹی کے اُمیدوار (علمدار قریشی)کے حق میں دستبردار کرا دیا ہے۔ علمدار عباس قریشی نون لیگ میں بھی رہ چکے ہیں اور پی ٹی آئی میں بھی ۔ پہلے بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں ۔ فروری2024کے عام انتخابات میں بھی وہ ایم پی اے منتخب ہو گئے تھے ، مگر اُن کے ووٹوں کو چیلنج کر دیا گیا۔ اور جب دوبارہ گنتی کا حکم دیا گیا تو علمدار قریشی بوجوہ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے ۔
اُنہیں چیلنج بھی اقبال پتافی ہی نے کیا تھا۔ اقبال پتافی کو اب دستبردار کرانے میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور ایم این اے ، علی قاسم گیلانی، نے مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ یاد رہے علی گیلانی سابق وزیر اعظم اور حالیہ سینیٹ کے چیئرمین، سید یوسف رضا گیلانی، کے صاحبزادے ہیں ۔ گیلانی صاحب کے اپنے گھر میں نصف درجن کے قریب قومی و صوبائی اسمبلی کی کئی منتخب سیٹیں ’’پڑی ‘‘ ہیں۔ یہ بھی موروثی سیاست کا ایک زندہ شاہکار ہے ۔
23نومبر2025 کو ہری پور (خیبرپختونخوا) کی ایک سیٹ کے لیے ضمنی انتخابات کے لیے اگرچہ نصف درجن سے زائداُمیدوار کھڑے ہیں، مگر یہاں بھی موروثی سیاست غالب ہے۔ہری پور کے این اے18میں مسلم لیگ نون، پی ٹی آئی کے حمائت یافتہ آزاد اُمیدوار ،پی پی پی،ہزارہ قومی محاذ،پاکستان نظریاتی پارٹی اور 4آزاد اُمیدوار ( جن میں 2خواتین بھی شامل ہیں)قسمت آزمائی کے لیے سامنے ہیں۔مگر سب واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اصل مقابلہ پی ٹی آئی کی حمائت یافتہ اور نون لیگ کے ٹکٹ ہولڈر میں ہے۔ ہری پور میں موروثیت کا کردار پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی کے ایک معروف لیڈر ادا کررہے ہیں ۔ اور یہ صاحب ہیں: عمر ایوب خان ۔ خود بھی کئی بار (دوسری سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے) وفاقی وزیر رہ چکے ہیں ۔
اُن کے والد صاحب (گوہر ایوب خان مرحوم) بھی وفاقی وزیر رہے ہیں اور تین عشروں سے زائد بار قومی اسمبلی کے رکن۔ اور اُن کے دادا جان کو تو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل ہے کہ اُنھوں نے پہلی بار پاکستان میں مارشل لا نافذ کیا۔ عدالت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے پانچ سال کے لیے نااہل ہونے سے قبل موصوف قومی اسمبلی میں ، پی ٹی آئی کی جانب سے، قائدِ حزبِ اختلاف تھے ۔ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر(فروری 2023کے انتخابات میں) این اے18 سے ایم این اے منتخب ہُوئے تھے ۔ 9مئی کے ’’ معروفِ عالم‘‘ احتجاجات کے ’’الزامات ‘‘ میں مگر وہ بھی دَھر لیے گئے ۔ عدالت کی جانب سے نااہلی کا ٹھپہ عمر ایوب خان نے، پہلے پہل، تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اُنھوں نے عدالت کے دروازے پر دستک بھی دی ، مگر پھر حالات کے آگے سرِ تسلیم خم کر لیا ۔
عمر ایوب خان کے سیاسی خاندان کا جائزہ لیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں اُن کے خاندان کو Tareens of Haripurکہا جاتا ہے ؛ چنانچہ اِسی سیاسی و مقتدر وراثت کے پسِ منظر میں عمر ایوب خان نے این اے18 (ہری پور) میں ضمنی انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ اپنی اہلیہ محترمہ ( شہر ناز ایوب خان) کو دلوایا ہے۔یہ بھی موروثی سیاست کی ایک ’’اعلی‘‘ اور ’’ارفعیٰ‘‘ مثال ہے ۔ اور اِس موروثی سیاست کو بانی پی ٹی آئی نے بھی آگے بڑھایا ہے کہ محترمہ شہر ناز کو ٹکٹ جاری کرنے میں اُن کی بھی اشیرواد حاصل ہے ۔
اگر ضمنی انتخاب کا یہ ٹکٹ ہری پور میں پی ٹی آئی کے کسی محنتی اور قابل سیاسی ورکر کو دیا جاتا تو ملک بھر میں پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کے نام کا ڈنکا بجتا ۔ مگر پی ٹی آئی میں بھی عام سیاسی کارکن کو بھلا کون پوچھتا ہے؟ عام اور غریب سیاسی کارکن تو رہ جاتے ہیں بس نعرہ زنی کے لیے، جیلوں میں جانے کے لیے ، پولیس کے ڈنڈے اور لاٹھیاں کھانے کے لیے۔ سیاست اور مقتدر سیاستدانوں سے محبت کا یہ چسکا مگر ایسا شدید ہے کہ واضح محرومیوں کے باوصف یہ سیاسی کارکن بھی پیچھے نہیں ہٹتے ۔
کہا جارہا تھا کہ عمر ایوب خان کے فرسٹ کزن(یوسف ایوب خان)کو بھی این اے 18کے ضمنی انتخاب کے لیے ٹکٹ دیا جا سکتا تھا ۔ یوسف ایوب خان (جن کے دو چھوٹے بھائی، ارشد ایوب اور اکبر ایوب، ہری پور ، خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے ارکان صوبائی اسمبلی ہیں) نہائت تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔ اُنہیں ہری پور کی تینوں تحصیلوں میںمقبولیت حاصل ہے۔ وہ خیبر پختونخوا میں تین وزرائے اعلی( آفتاب خان شیر پاؤ، مہتاب احمد خان ، پرویز خٹک) کی حکومتوں میں صوبائی وزیر رہے ہیں ۔ہری پور میں اُن کا خاصا سیاسی و سماجی اثرورسوخ ہے ، لیکن اِس کے باوجود این اے 18کے ضمنی انتخاب کے لیے ٹکٹ یوسف ایوب خان کی بجائے عمر ایوب خان نے اپنی اہلیہ محترمہ کو دلوایا ۔ یہی تو اصل سیاسی موروثیت ہے جس سے کوئی بھی سیاسی جماعت اور سیاستدان جان نہیں چھڑا پارہا ۔ وجوہات سب کے علم میں ہیں ۔نون لیگ نے بھی تو این اے 18میں ٹکٹ جاری کرکے اقربا نوازی اور سیاسی موروثیت کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ اب NA 18میں (23نومبر کو) محترمہ شہر ناز ایوب خان اور جناب نواز خان آمنے سامنے ہوں گے ۔
بعض سنجیدہ اور فہمیدہ تجزیہ نگاروں اور ہری پور کی سیاست کے واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ محترمہ شہر ناز ایوب خان کو میدان سیاست وانتخاب میں اُتار کر ’’ہری پور کے ترینوں‘‘ نے رِسک ہی لیا ہے ۔ مسز عمر ایوب خان کو40سالہ بابر نواز خان کو ہرانے کے لیے غیر معمولی توانائی اور محنت کی ضرورت ہے ۔ اور بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ مسز عمر ایوب خان لکی مروت کے ایک معروف و مشہور سیاسی خاندان سے بھی تعلق رکھتی ، اس لیے یہ تعلق اور ناتہ بھی اُن کی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے ۔لکی مروت کے طاقتور خاندان اور ’’ہری پور کے ترینوں‘‘ کے سیاسی اثرورسوخ کا نتیجہ 23نومبر ہی کو ہم دیکھیں گے ۔
دریں اثنا نون لیگ میںموروثی سیاست کی ایک اور مثال یوں بھی سامنے آئی ہے کہ وزیر آباد /گوجرانوالہ (این اے66) میں 23 نومبر2025کے ضمنی انتخاب میں نون لیگی وفاقی وزیراطلاعات( عطا ء اللہ تارڑ) کے بھائی (بلال تارڑ) بِلا مقابلہ جیت گئے ہیں ۔ اسلام آباد میں متعین امریکی ناظم الامور (نیٹلی بیکر) نے عطاء اللہ تارڑ کو مبارکباد بھی دے دی ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ضمنی انتخابات کے لیے موروثی سیاست پی ٹی ا ئی کے عمر ایوب خان سیاسی کارکن وفاقی وزیر ا میدوار ٹکٹ جاری نون لیگ میں بھی ہری پور کے ضمنی رہے ہیں ا ہے کہ ئی اور میں پی خان کو
پڑھیں:
جنھیں جرم عشق پر ناز تھا …
مبشر اسلم اس دنیا سے چلے گئے مگر جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک کی داستان چھوڑگئے۔ مبشر اسلم 70کی دہائی میں کراچی کے ان نو عمر نوجوانوں میں شامل تھے جو استعماریت کے خاتمے کے لیے عظیم فلسفی کارل مارکس کے نظریے سے متاثر ہوئے۔ مبشر اسلم کا تعلق ایک روشن خیال متوسط طبقے کے خاندان سے تھا۔ گھر میں اخبارات اورکتابیں تہذیب کا حصہ تھیں۔ پہلے مبشر اسلم بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے پھر ان کے بھائی نجیب قدوائی نے ان کی پیروی کی۔
60 کا آغاز جنرل ایوب خان کے مارشل لاء سے ہوا تھا۔ ایوب حکومت نے سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کی تھیں مگرکمیونسٹ پارٹی اور اس کی ملحقہ مزدور اور طلبہ فرنٹ اس کا خاص نشانہ تھیں۔ حکومت کی خفیہ ایجنسیاں ترقی پسند کارکنوں کا پیچھا کرتی تھیں، جو آواز اٹھاتا یا کسی تنظیم کے منظم کرنے کے عمل میں شامل ہوتا تو اسے گرفتارکر لیا جاتا تھا۔کمیونسٹ پارٹی کے رکن حسن ناصرکو لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کردیا گیا تھا۔ ایوب خان کی حکومت امریکا کے ساتھ معاہدوں میں شامل ہوگئی تھی۔ پشاور کے قریب بڈا پیر کا اڈا امریکا کے حوالے کردیا گیا تھا۔
اس عالمی تناظر میں حکومت کی ذمے داری ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کی سرکشی کو کچلنا تھی۔ اسی دور میں صرف بائیں بازوکی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے کراچی کو ایوب آمریت کے خلاف تحریک کا مرکز بنایا تھا۔ این ایس ایف کے رہنما فتحیاب علی خان، معراج محمد خان، حسین نقی، جوہر حسن اور واحد بشیر وغیرہ نے یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تحریک کو عوامی تحریک بنا دیا تھا۔ اس جرم کی پاداش میں ان رہنماؤں کو کراچی بدرکردیا گیا تھا۔ بعد ازاں این ایس ایف کے کارکنوں نے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے خلاف پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اگرچہ محترمہ فاطمہ جناح کو ایک منظم دھاندلی کے ذریعے انتخابات میں ہرا دیا گیا تھا مگر کراچی کے عوام میں آمریت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا آتش فشاں پک رہا تھا۔
مبشر اسلم بنیادی طور پر ایک ذہین طالب علم تھے۔ ان کے والدین کا خواب تھا کہ وہ انجینئر بنیں۔ مبشر اسلم نے اس آدرش کے ساتھ نارتھ ناظم آباد کے جناح کالج کے شعبہ پری انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ جناح کالج این ایس ایف کا مرکز تھا۔ جناح کالج میں این ایس ایف کے اہم کارکن میکری کرامت اور بصیر نوید وغیرہ پہلے سے موجود تھے، یوں مبشر این ایس ایف کی تحریک کا حصہ بن گئے۔ انھیں این ایس ایف نے طلبہ یونین کے صدر کے لیے نامزد کیا اور مبشر اپنی ذہانت کی بناء پر انتخابات میں کامیاب ہوگئے۔
1968میں ایوب خان کی حکومت کے 10 سال مکمل ہوئے۔ ایوب حکومت کے کسی دانا دانشور نے مشورہ دیا کہ حکومت کو اپنا 10 سالہ جشن منانا چاہیے، یوں پورے ملک میں تقریبات کا اہتمام کیا جانے لگا۔ ملک بھر میں تمام افسران حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کر تقریبات کا اہتمام کرنے لگے۔ اس زمانے میں بختیار صاحب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ بورڈ کے سربراہ تھے، وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوئے۔
صوبائی وزیر احمد سعید کرمانی کو ایک تقریب میں مدعو کر لیا گیا۔ این ایس ایف کے کارکن اس تقریب میں پہنچ گئے۔ کارکنوں نے ایوب خان کی حکومت کے خلاف نعرے لگانے شروع کر دیے، یوں یہ تقریب تتر بتر ہوگئی اورکراچی سے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ تحریک پھر ملک کے دونوں صوبوں تک پھیل گئی۔ طلبہ تنظیموں کے ساتھ اساتذہ، مزدور،کسان اور سیاسی جماعتیں بھی اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔ حکومت نے این ایس ایف کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔ یکم ستمبر 1968 کے دن مبشر اسلم، بصیر نوید، سہیل ہمایوں، حفیظ اطہر طارق، فتح محمد، احمد راشدی وغیرہ کو گرفتار کر لیا گیا۔
این ایس ایف کی سرگرمیوں میں جناح کالج ایک طالب علم رہنما ضیا اللہ کی صدارت کے دور میں ابھرکر آیا، ان کی صدارت کے بعد این ایس ایف میں مسئلہ درپیش تھا کہ اس کی جگہ کون لے گا؟ خیر مبشر اسلم نے وہ جگہ لی اور بھرپور طریقے سے اس جگہ کو پرکیا، وہ صدارت کا امیدوار تھا، چونکہ مبشر کیلکولیشن میں ماہر تھا، اس لیے وہ آسانی سے الیکشن جیت گیا۔
اس کی صدارت کے دور میں جناح کالج سے ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوئی جو کامیاب رہی۔ بصیرکہتے ہیں کہ وہ اور مبشر یکم اکتوبر 1968 کو پھرگرفتار ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا جب ایوب خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں اور طالب علموں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔ ان کے علاوہ دیگر دوست سہیل ہمایوں، سبط حسن، طارق فتح، محمد احمد اور راشد تقی وغیرہ بھی گرفتار ہوئے۔ مبشر پر پولیس نے زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ ہم سے علیحدہ ہوجائے۔ مبشر ہم سب سے چھوٹا تھا مگر وہ ثابت قدم رہا۔
پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں جب سندھ میں سندھی زبان کا بل پیش کیا گیا تو بصیر اور مبشرکو دوبارہ گرفتارکر لیا گیا۔ بصیر لکھتے ہیں کہ ہم تو سندھی زبان کے بل کے حق میں تھے پھر بھی ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انجینیئر بننے کا آدرش ان کے سامنے تھا۔ انھوں نے انٹر پری انجنیئرنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور میرٹ کی بنیاد پر وہ این ای ڈی انجنیئرنگ کالج کے طالب علم ہوئے۔ این ای ڈی انجنیئرنگ کالج میں محمد نعمان ان کے سینئر تھے جو بعد میں این ای ڈی میں پروفیسر بنے۔ اس وقت دائیں بازو کی طلبہ تنظیم کا این ای ڈی پر غلبہ تھا۔ اس تنظیم کے نامزد کردہ امیدوار طلبہ یونین کے انتخاب میں کامیاب ہوتے تھے۔
بائیں بازو کے طلبہ کے مختلف گروپ این ای ڈی میں متحرک تھے مگر ووٹوں کی تقسیم کی بناء پر انتخابات میں کامیاب نہیں ہوتے تھے۔ محمد نعمان اور مبشر اسلم نے بائیں بازو کے تمام کارکنوں کو ایک متحدہ محاذ بنانے پر تیارکیا، یوں پروگریسو فرنٹ وجود میں آیا۔ پروگریسو فرنٹ نے محمد نعمان کو طلبہ یونین کی صدارت کے لیے نامزد کیا۔ محمد نعمان کی کامیابی کے خاصے امکانات تھے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت نے سابقہ مشرقی پاکستان سے آنے والے طلبہ کے ایک گروپ کو این ای ڈی میں داخلے کی اجازت دی، یوں محمد نعمان چند ووٹوں سے انتخاب ہارگئے مگر مبشر اسلم نے ذہین طلبہ کو جمع کیا اور معروضی حقائق کا تجزیہ کیا۔ پھر اگلے سال مبشر اسلم کو پروگریسو فرنٹ کی جانب سے طلبہ یونین کی صدارت کے لیے نامزد کیا گیا۔ مبشر اسلم اکثریتی ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔ مبشر اسلم کا منشور تھا کہ این ای ڈی کالج کو مکمل یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے اورکراچی یونیورسٹی سے متصل قطعہ اراضی پر نیا کیمپس تعمیر کیا جائے۔
اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت میں پیار علی آلانہ وزیر تعلیم تھے۔ انھوں نے این ای ڈی کو یونیورسٹی بنانے کے پروجیکٹ میں خصوصی دلچسپی لی۔ جنرل ضیاء الحق کا دور ایک جبرکا دور تھا، سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں تھیں۔ مبشر اسلم مجبورا روزگار کے لیے سعودی عرب چلے گئے، وہاں سے کینیڈا منتقل ہوئے۔ مبشر دنیا سے تو چلے گئے مگر اس ملک کے حالات واپس اسی نہج پر پہنچ گئے جیسے ایوب خان کے دور میں تھے۔ اگرچہ جنرل ایوب خان کے دور میں بنیادی حقوق معطل تھے اور عدلیہ کے لیے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ مشکل تھا، اخبارات کو پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کے ذریعے ریگولیٹ کیا جاتا تھا اور سول سوسائٹی کا سائز مختصر تھا مگر ملک کے اکثریتی صوبے سابقہ مشرقی پاکستان میں متوسط اور نچلا متوسط طبقہ سیاسی شعور سے آراستہ تھا۔ مزدور اورکسان،طلبہ، دانشوروں اور صحافیوں کی تنظیمیں متحرک تھیں۔
خیبر پختون خوا میں خدائی خدمت گار تحریک کی انگریز سرکار کے خلاف تاریخی جدوجہد کی روایت موجود تھی۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کی جدوجہد تھی۔ سندھ میں ہاری تحریک ون یونٹ کے خلاف مزاحمتی تحریک، پنجاب میں کسانوں، مزدوروں اور دانشوروں کی تنظیموں کے علاوہ پورے ملک کے مظلوم عوام کے حقوق کی جدوجہد کے نام پر قائم ہونے والی سیکولر جماعت نیشنل عوامی پارٹی موجود تھی۔ یہ تحریک اتنی مضبوط تھی کہ جماعت اسلامی نے ایک مرد ایوب خان کے مقابلے میں ایک عورت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی۔
یہی وہ Variables تھے کہ جن کی وجہ سے 1968 میں کراچی میں این ایس ایف کی شروع کردہ ایوب آمریت کے خلاف چھوٹی سے تحریک جو بظاہر ایک چنگاری تھی، پورے ملک میں پھیل گئی۔ 1968کی تحریک ایک مکمل طور پر سیکولر تحریک تھی۔ اس تحریک میں تمام جماعتیں شریک تھیں۔ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ ایوب حکومت کو اگرتلہ سازش کیس کو ختم کرنا پڑا تھا اور شیخ مجیب الرحمن سمیت تمام سیاسی قیدی رہا ہوئے تھے۔ اگر 1971میں اس وقت مغربی پاکستان کے سیاست دان بصیرت کا ثبوت دیتے تو یہ ملک منقسم نہ ہوتا، منتخب حکومتیں برطرف نہ ہوتیں اورآج عوام کو معاشی بدحالی کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی نہ دیکھنی پڑتی۔ یہ اشعار مبشر کی جدوجہد کی عکاسی کرتے ہیں۔
نہ رہا رخ جنون وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنھیں جرم عشق پر ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے