پرامن اہلسنّت کے حقوق کیلیے اتحاد کی ضرورت ہے،عثمان سیالوی
اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(پ ر) جمعیت علماء پاکستان یوتھ ونگ کے مرکزی رہنما محمد عثمان سیالوی ایڈووکیٹ نے پاکستان سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری سے ملاقات کی، جس میں اہم قومی، سیاسی اور مسلکی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات کے دوران رہنماؤں نے زور دیا کہ پرامن اہلسنّت کو دیوار سے لگانا بند کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پرامن عوام، علماء اہلسنّت اور دینی مراکز کے خلاف کاروائیاں اور دباؤ افسوس ناک ہیں، اہلسنّت پاکستان میں سواد اعظم ہیں، لہٰذا حکومت کو فوری طور پر امتیازی اقدامات ختم کرنے چاہئیں۔سانحہ مریدکے کے حوالے سے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ ایک آزادانہ اور غیر جانبدار جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے، جو تمام حقائق عوام کے سامنے لائے اور ذمہ داروں کا تعین کرے، تاکہ اہلسنّت کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد اہلسنّت کے لیے کوششیں جاری ہیں اور امید ہے کہ جلد اہلسنّت ایک پیج پر جمع ہوں گے۔اس موقع پر ثروت اعجاز قادری نے اسلام آباد کچہری میں ہونے والے خودکش حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ معصوم شہریوں، وکلاء اور طلبہ پر حملہ انسانیت کی خلاف ورزی اور اسلام دشمنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کسی بھی صورت قبول نہیں اور اگر بھارت اپنی سازشوں سے باز نہ آیا تو پاکستان بھرپور اور موثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ثروت اعجاز نے سکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی کو بھی سراہا۔عثمان سیالوی ایڈووکیٹ نے کہا کہ 27 ویں ترامیم حکمرانوں نے اپنے سیاہ کردار کو بچانے کے لیے کی ہیں، یہ آئین کے ساتھ مذاق اور عوام کے ساتھ ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دین اسلام کسی بھی حکمران یا جرنیل کے حق میں تاحیات سہولت کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان بنانے والے اہلسنّت کو اپنے حقوق اور آئین کے دفاع کے لیے متحد ہونا ہوگا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ اہلسن ت
پڑھیں:
اسلام میں صدر سمیت کسی کیلیے بھی استثنا کی گنجائش نہیں، تنظیم اسلامی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251115-08-15
حیدرآباد (نمائندہ جسارت) اسلام میں سربراہِ مملکت سمیت کسی شخص کے لیے بھی استثنا کی کوئی گنجائش نہیں۔ تاحیات استثنی تو چوری پر سینہ زوری ہے۔ اگر عدالتیں آزاد نہ ہوں گی تو عوام کے حقوق کا تحفظ کیسے ممکن رہے گا؟ شرعی معاملات کی تشریح اور ان پر فیصلہ کا اختیار جید علما کرام کی اکثریت پر مشتمل وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کیا جائے۔ اِن خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں 27ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی ہے جس میں سربراہِ مملکت کو تاحیات استثنا دے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں ریاست اور مقتدر حلقوں کے سربراہ سمیت کسی کے لیے بھی کسی پہلو سے استثنا کی کوئی گنجائش نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ ہی عوام کے جملہ آئینی اور قانونی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی بھی ریاست میں نظام عدل کا ہر حال میں بول بالا رہنا چاہیے تاکہ عوام کی داد رسی بھی ہو سکے اور ان پر ظلم و جبر کو بھی روکا جا سکے۔ البتہ اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ شرعی معاملات کو طے کرنے اور اس حوالے سے تشریح اور فیصلہ کرنے کا حق صرف وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کیا جائے، جس میں جید علما ء کرام کی اکثریت ہو۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسی تمام آئینی شقوں اور قوانین کا خاتمہ کیا جائے جو شریعت کے منافی ہیں اور آئندہ کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہ کی جائے، اور یہ اصول پاکستان کے آئین میں بھی درج ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں تمام قانون سازی قرآن و سنت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کی جائے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب آئین میں موجود اسلامی شقوں کو باقی تمام شقوں پر عملی طور پر بالادستی حاصل ہوگی۔ لہٰذا حکومت آئین میں موجود غیر شرعی دفعات کے خاتمہ، اسلامی دفعات کی دیگر پر بالادستی اور ملک میں اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی کے نفاذ و قیام کو اپنی اولین ترجیح بنائے تاکہ ہم دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ہوسکیں۔