data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کے مختلف خطوں میں صحت کے نظام اس وقت ایک ایسے بحران سے گزر رہے ہیں جس کی جانب ماہرین برسوں سے توجہ دلا رہے تھے۔

نئی سائنسی رپورٹ کے مطابق گردوں کے دائمی امراض کی شرح ایک ایسے مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں وہ دنیا بھر میں اموات کا سبب بننے والی بڑی بیماریوں میں مسلسل اوپر جا رہے ہیں۔ اس مشترکہ تحقیق کو امریکا اور برطانیہ کی معروف یونیورسٹیوں اور ہیلتھ میٹرکس کے اداروں نے مل کر تیار کیا ہے، جس میں تین دہائیوں کے اعدادوشمار کا نہایت باریک تجزیہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 کی دہائی میں دنیا بھر میں تقریباً 38 کروڑ افراد گردوں کے امراض کا شکار تھے، مگر آبادی میں اضافے، طرزِ زندگی میں تبدیلیوں اور طبی سہولیات تک عدم رسائی جیسے عوامل کے باعث یہ تعداد 2023 تک بڑھ کر تقریباً اناسی کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ یعنی گزشتہ 30 برس میں گردوں کے مسائل دوگنے سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں اور یہ اضافہ نہ صرف انتہائی تشویشناک ہے بلکہ مستقبل کے لیے ایک بڑے بحران کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔

تحقیق کے مطابق دنیا کی بالغ آبادی کا لگ بھگ 14 فیصد حصہ کسی نہ کسی درجے کے گردوں کے دائمی مرض میں مبتلا ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے بڑی تعداد کو اپنی بیماری کا علم ہی نہیں ہوتا، کیونکہ گردوں کے بیشتر مسائل ابتدائی مراحل میں کوئی نمایاں علامات ظاہر نہیں کرتے۔

تحقیق کاروں نے بتایا کہ جب تک مریض کو اپنے اندر کچھ غیر معمولی محسوس ہوتا ہے، تب تک بیماری اکثر اس سطح پر پہنچ چکی ہوتی ہے جہاں علاج پیچیدہ تر ہو جاتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ صرف سال 2023 میں گردوں کے امراض کے باعث دنیا بھر میں تقریباً 15 لاکھ افراد جان کی بازی ہار گئے۔

تحقیق نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گردوں کی کارکردگی کمزور ہونے سے دل کے مریض بننے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ جسم میں زہریلا مواد جمع ہونا شریانوں اور اعصاب پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے ماہرین اس مرض کو ایک خاموش قاتل قرار دیتے ہیں جو آہستہ آہستہ جسم کے مختلف حصوں کو متاثر کرتا ہے۔

رپورٹ میں عام علامات کی تفصیل بھی دی گئی ہے جنہیں نظرانداز کرنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ مثلاً مسلسل تھکاوٹ، نیند میں خلل، جلد پر خارش اور دانوں کا ظاہر ہونا، ہاتھوں، چہرے یا پیروں میں سوجن، مسلز میں کھچاؤ، سانس لینے میں دشواری، سر چکرانا، بھوک میں کمی اور وزن کا تیزی سے گھٹ جانا وہ علامات ہیں جو گردوں کے خراب ہونے کا عندیہ دیتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر سے 133 ممالک کے طبی ڈیٹا اور 2230 تحقیقی مقالہ جات کا تجزیہ کیا گیا، جس سے یہ بات سامنے آئی کہ گردوں کے امراض اب ان مسائل میں شامل ہیں جن کے علاج اور احتیاط دونوں پر بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے سرطان، دل کے امراض اور ذہنی صحت کے مسائل پر توجہ دی جاتی ہے ویسے ہی گردوں کی صحت کو بھی عالمی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا، ورنہ آنے والے برسوں میں اس بیماری کا بوجھ صحت کے نظام کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: دنیا بھر میں گردوں کے کے امراض

پڑھیں:

الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی کثرت، خواتین میں آنتوں کا کینسر بڑھنے کا انکشاف

 

اسلام آباد(نیوزڈیسک) حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ‘الٹرا پروسیسڈ’ غذاؤں کے متواتر استعمال سے خواتین میں آنت کے کینسر کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔

الٹرا پروسیسڈ فوڈز کی اصطلاح تقریباً 15 سال قبل بنائی گئی تھی، اس میں مختلف اقسام شامل ہیں جیسے براؤنڈ بریڈ کے ٹکڑے سے تیار شدہ کھانے، آئس کریم، پاپڑ، چپس، پیکجنگ میں دستیاب دہی اور دودھ جیسی غذائیں، جنہیں صنعتی پروسیسنگ سے تیار کیا جاتا ہے۔

زیادہ تر غذائیں جو فیکٹریوں، صنعتوں، ہوٹلز اور فوڈ چینز میں تیار ہوتی ہیں، انہیں الٹرا پروسیسڈ کہا جاتا ہے، ان کے استعمال کے منفی اثرات سے متعلق پہلے بھی متعدد تحقیقات میں بتایا جا چکا ہے۔

طبی ویب سائٹ پر شائع تحقیق کے مطابق الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کے زیادہ استعمال سے خواتین میں آنت کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر 50 سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق میں تقریباً 29 ہزار خواتین نرسوں کا ڈیٹا 24 سال تک جمع کیا گیا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی خاتون روزانہ تقریباً 10 طرح کی الٹرا پروسیسڈ غذائیں کھاتی ہیں تو ان کی آنت میں کینسر کے ابتدائی پولپس (growths) پیدا ہونے کا خطرہ 45 فیصد زیادہ ہوتا ہے، بنسبت ان خواتین کے جو روزانہ صرف 3 قسم کی ایسی غذائیں کھاتی ہیں۔

یہ پولپس ایڈینوماس کہلاتے ہیں، جو بعض اوقات کینسر میں تبدیل ہو سکتے ہیں، الٹرا پروسیسڈ کھانوں کا زیادہ استعمال اس خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی غذاؤں کا استعمال کم کرنا اور صحت مند متبادل استعمال کرنا آنت کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • رشوت کے بڑھتے ہوئے خطرات ہیں،اے سی سی اے کی نئی رپورٹ
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروسزمتاثر: کلاؤڈ فلیئراور پی ٹی اے کا بیان بھی آگیا
  • دنیا بھر میں انٹرنیٹ کا بریک ڈاؤن؛ متعدد ویب سائٹس بند؛ صارفین کو مشکلات کا سامنا
  • جیمس ڈیومے واٹسن کی علمی خدمات
  • غیر قانونی تارکین وطن دنیا بھر میں سلامتی کے لیے چیلنج، ’دی گارڈین‘ کی رپورٹ میں پاکستانی مؤقف کی تائید
  • پاکستان کی آبی سلامتی کو خطرہ، دنیا مدد کرے: مصدق ملک
  • مریم نواز کا برداشت اور رواداری کے فروغ کے عالمی دن پر پیغام
  • تحقیق کے جدید تقاضوں کے عنوان سے ڈاکٹر رازق حسین میثم کی گفتگو
  • الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی کثرت، خواتین میں آنتوں کا کینسر بڑھنے کا انکشاف