Express News:
2025-11-17@23:12:13 GMT

جیمس ڈیومے واٹسن کی علمی خدمات

اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT

عالمی سائنس کی تاریخ میں ایک اہم باب کے نگار، جنہیں آج ہم خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، امریکا کے جینیاتیات اور سالماتی حیات کے ممتاز ماہر ڈاکٹر جیمس ڈیومے واٹسن کا 97 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا ہے۔

عالمی سطح پر اس خبر نے نہ صرف سائنس دانوں کو بلکہ معاشرتی، معاشی، اخلاقی اور تحقیقی حلقوں کو بھی گہرے غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ ذیل میں ہم ان کی زندگی و کارنامے، ان کی تحقیق کا پس منظر، سائنس و ٹیکنالوجی کی صورتِ حال، معاشرتی و اقتصادی تناظر، خارجہ و داخلہ سیاست و پالیسی کے زاویے اور آئندہ امکانات کا مفصل تجزیہ فراہم کر رہے ہیں۔

 شخصیت، ابتدائی زندگی اور تحقیقی سفر

جیمس ڈیومے واٹسن 6 اپریل 1928ء کو شکاگو، امریکی ریاست ایلینوِس میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت کم عمر میں علمی رجحان کے حامل تھے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف شکاگو میں داخلہ لیا جب وہ صرف 15 سال کے تھے، اور بعد ازاں انڈیانا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔

وہ ابتدا میں بیکٹیریوفیج سے متعلق تحقیق کر رہے تھے، مگر جلد ہی ان کا جھکاؤ نیوکلک ایسڈ، بالخصوص ڈی این اے کی ساخت کی طرف ہوگیا۔

1951ء میں وہ برطانیہ کے کیوِڈش لیبارٹری پہنچے، جہاں انہوں نے فرانسِس کرک سے ملاقات کی اور دونوں نے مل کر ڈی این اے کے ڈبل ہیلکس ماڈل پر کام شروع کیا۔

1953ء میں ان کی اور فرانسِس کرک کی مشترکہ تحقیق نے چھلانگ لگائی کہ ڈی این اے دو زنجیروں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے کے گرد مڑتی ہیں، یعنی ایک پیچیدہ سلمانی زینہ کی مانند۔

1962ء میں انہیں اور فرانسِس کرک اور مورِس ویلکنز کو نوبل انعام برائے فزیالوجی یا میڈیسن دیا گیا۔

واٹسن نے اس مشہور دریافت کے بعد بھی تحقیق جاری رکھی، علم و تدریس میں حصہ لیا اور اپنا اثر دنیا بھر میں پہنچایا، مگر ان کا کیریئر مکمل طور پر بے تنقید نہ تھا، جیسا کہ ہم بعد میں دیکھیں گے۔

دریافت کا علمی و تحقیقی پس منظر

واٹسن اور کرک کی دریافت صرف ایک ’’نیا ماڈل‘‘ نہیں تھی، بلکہ جینیات، بایولوجی، میڈیسن اور ٹیکنالوجی کے راستے بدل دینے والی تھی۔ اس کی چند اہم جہات درج ذیل ہیں:

ساخت اور فنکشن کا ربط

انہوں نے یہ ثابت کیا کہ ڈی این اے کی ساخت دو زنجیریں، شُکر فاسفیٹ کی بیرونی ’’راسوں‘‘ سے جُڑی ہوئی، اور اندرونی ’’سیڑھیوں‘‘ کی مانند جو بیس جوڑ ہیں خود تکرار کا طریقہ کار فراہم کرتی ہے، جیسا کہ نوبیل ویب سائٹ میں درج ہے:

’’دو لمبی زنجیریں جو مخالف سمت میں چلتی ہیں اور ایک دوسرے کے گرد مڑتی ہیں، اور مطابق بیس جوڑ دیتی ہیں۔‘‘

یہ دریافت یہ سوال حل کرتی تھی کہ ڈی این اے کس طرح سے خود کو نقل کرتا ہے اور جینیاتی معلومات نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔

بایو ٹیکنالوجی، جینیاتی انجینئرنگ اور معاشی اثرات

واٹسن اور کرک کا ماڈل 1953ء میں شائع ہوئی، اور اس کے بعد جینیاتی انجینئرنگ، ریکمبننٹ ڈی این اے ٹیکنالوجی، انسانی جینوم پروجیکٹ، دریافت علاج، فارماسیوٹیکل جدت اور معاشی پیمانے پر بایوٹیک انڈسٹری کو جنم ملا۔ مثلاً، جرائم میں ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کا استعمال، زراعت میں جینیاتی ترمیم، طبی علاج میں ذاتی ادویات یہ سب اس بنیاد پر مبنی ہیں کہ ہم جینیاتی معلومات کو سمجھ گئے تھے۔

علمی بحث اور تاریخِ سائنس

اگرچہ واٹسن-کرک ماڈل نے انقلابی تبدیلی لائی، اس کے پس منظر میں تحقیقاتی اخلاقیات، تعاون اور اعزاز کے سوالات بھی تھے۔ مثال کے طور پر، روزالِنڈ فرنکلن کی ایکسپوزر 51 کی تصویر اور اس کی شراکت کی بحث آج بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں یہ سوال اٹھا کہ کس کا حصہ ہے، کس کا اعزاز ملنا چاہیے، اور کس نے کون سا ڈیٹا فراہم کیا۔ یہ سوالات سائنس کی تاریخ اور علم کی فکری بنیادوں کے لحاظ سے اہم ہیں۔

 معاشی، معاشرتی اور ٹیکنالوجی کے تناظر میں اثرات

واٹسن کی دریافت نے صرف سائنسی دنیا نہیں بلکہ معاشی اور معاشرتی میدانوں میں بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

معاشی اثرات

بایوٹیک انڈسٹری جینیاتی تحقیق، ادویات کی دریافت، کینسر ٹریٹمنٹ، جینیاتی ٹیسٹنگ نے اربہا ڈالر کا بازار تشکیل دیا۔ وہ دور جب ڈی این اے ساخت کا صرف تصور تھا، ختم ہوچکا ہے۔ اب جینیاتی تجزیہ، جینیوم سیکوینسنگ، پرسنَلائزڈ میڈیسن عام ہو چکی ہے۔ واٹسن کی تحقیق اس سمت کی ’’سنگِ میل‘‘ تھی۔

معاشرتی اور اخلاقی اثرات

ڈی این اے کی دریافت نے یہ فہم فراہم کی کہ ہم جینیاتی خامیوں، وراثتی امراض اور انسانی تنوع کی بنیاد پر غور کر سکتے ہیں۔ مثلاً، ’’ہم سب کا ڈی این اے الگ ہے‘‘ اور اس کی بنیاد پر شناخت، نسل، والدین کی معلومات، جینیاتی خواہش اور سماجی پالیسی پر سوال اٹھائے گئے۔ ساتھ ہی، جینیاتی تفریق، نسلی جینیات، ذاتی معلومات کی پرائیویسی، جینیاتی معلومات کے تجارتی استعمال جیسے اخلاقی سوالات بھی سامنے آئے۔ واٹسن کی دریافت نے اس پوری بحث کو جلابخشی ہے۔

ٹیکنالوجی اور تحقیقاتی ماحول

ڈی این اے کی ساخت کا ماڈل ایسے آلات اور تحقیقی شعبے پیدا کرنے کا باعث بنا: جینیوم سیکوینسنگ، جینیاتی انجنیئرنگ، بایوانفارماتکس، کرمنل ڈی این اے ٹریسنگ وغیرہ۔ مثال کے طور پر، تحقیقی لیبارٹریاں اب ڈی این اے کی ترتیب، جینیاتی تغیرات، جینیاتی بیماریوں کی بنیاد، اور ممکنہ علاج پر کام کر رہی ہیں۔ یہ سب اس دریافت کی شاخیں ہیں۔

 عالمی، سیاسی اور خارجہ پالیسی کے تناظر میں جائزہ

واٹسن کی تحقیق اور اس کے بعد کا دور، عالمی سطح پر سائنس و سیاست اور خارجہ و داخلہ پالیسی پر بھی اثرانداز رہا ہے۔

تحقیق اور قومی پالیسی

بڑی سائنس ریاستوں امریکا، برطانیہ، یورپ، چین نے جینیاتی تحقیق کو قومی ترجیح بنائی ہے۔ یہ ’’سپرسائنس‘‘ کاری گر معاشی طاقت، سلامتی اور قومی اقتدار کے ایک عنصر بن چکی ہے۔ واٹسن کی دریافت نے انسانیت کے لیے جینیاتی معلومات کا خزانہ کھولا، جو اب معیشت اور سیاست دونوں کے لیے کارگر ہے۔

جینیاتی معلومات اور معاشی مساوات

علمی ترقی کا یہ نیا موڑ، غربت و ترقی، صحت کی سہولیات، جینیاتی علاج اور ذاتی میڈیسن کے تناظر میں ’سائنس کی رسائی‘ اور ’جینیاتی عدم مساوات‘ کا سوال پیدا کرتا ہے۔ مثلاً، امیر ممالک میں جینیاتی ٹیسٹنگ اور علاج عام ہو رہے ہیں جب کہ غریب ممالک ابھی اس بنیاد پر کھڑے بھی نہیں ہیں۔ یہ ایک نئی عالمی تقسیم بن سکتی ہے۔

خارجہ رابطے اور تعاون

بڑی جینیاتی تحقیق میں بین الاقوامی تعاون ضروری ہے انسانی جینوم پروجیکٹ، معروف لیبارٹریز، ڈیٹا شیئرنگ، اخلاقی اصول۔ واٹسن کے دور سے آج ہم اس سمت میں گام زن ہیں۔ تاہم، قومی تحفظ اور جینیاتی مواد کی ملکیت (انٹلیکچوئل پراپرٹی) کی بحث نے سفارتی سطح پر بھی دل چسپی حاصل کی ہے۔

معاشرتی اثرات اور پالیسی امور

نسلی بنیاد پر جینیاتی تحقیق کے استعمال سے متعلق اخلاقی اور پالیسی تقاضے، رازداری کے حقوق، ڈی این اے ڈیٹا کا حفظ و نشر، جینیاتی تفریق کے خلاف اقدامات یہ سب وہ موضوعات ہیں جن پر سیاست اور معاشرتی پالیسیاں تشکیل پا رہی ہیں۔ واٹسن کی دریافت نے ان موضوعات کو فرش پر لایا۔

واٹسن کا ورثہ۔۔۔۔ جلال اور تنازعہ دونوںواٹسن کی علمی خدمات غیرقابلِ انکار ہیں، مگر ان کی وراثت صرف علمی نہیں بلکہ پیچیدہ، متنازعہ اور متنوع ہے۔

تعریفی پہلو

ان کی دریافت نے سائنس کی بنیادیں بدل دیں، جینیات کو ایک مرکزِ ثقل بنایا، اور بایوٹیکنالوجی کی راہ ہم وار کی۔

انہوں نے تحقیقی ادارے، خصوصاً کولڈ اسپرنگ ہاربر لیبارٹری، کو عالمی سطح پر ممتاز مرکزِ تحقیق بنایا۔

ان کی زندگی نے نوجوان محققین کو یہ سبق دیا کہ تجسس، عزیمت اور ماڈل سازی سائنس میں کس حد تک اہم ہیں۔

تنقیدی پہلو

ان کے بعض نسلی اور جنس کی بنیاد پر کیے گئے بیانات نے شدید تنقید کا نشانہ بنائے اور اخلاقی سوالات اٹھائے گئے۔

علمی تعاون، اعزازات اور اشتراک تحقیق کے حوالے سے بھی ماضی میں سوالات اٹھے ہیں، مثلاً روزالِنڈ فرنکلن کی شراکت کا معاملہ۔

ان کی بزرگ سائنسدان حیثیت کے باوجود یہ بحث جاری رہی کہ عظیم دریافت کے بعد انہیں اور کتنے نئے بڑے نتائج دینے کا موقع ملا، اور سائنس کے اخلاقی پہلوؤں پر ان کی سوچ کس حد تک وسیع تھی۔

لہٰذا، واٹسن کی میراث ’’دو رخی‘‘ ہے ایک طرف سائنسی انقلاب، دوسری طرف اخلاقی، معاشرتی اور تاریخی سوالات۔

معاشی، علمی اور ٹیکنالوجی کی موجودہ صورتحال اور توقعات

واٹسن کے انتقال کے وقت (نومبر 2025ء) ہمیں درج ذیل حقیقتوں کا سامنا ہے، جن کا ان کی دریافت کے بعد براہِ راست تعلق ہے:

سائنس و ٹیکنالوجی کی تیزی

جینیوم سیکوینسنگ کی لاگت ڈرامائی طور پر کم ہوچکی ہے، اور جینیاتی تجزیہ روزمرہ علاج، تشخیص اور ذاتی صحت کے شعبے میں داخل ہو رہا ہے۔

جینیاتی انجنیئرنگ، جینی تھراپی، کرایسپر جیسی ٹیکنالوجیز اب عام سطح کی تحقیقاتی اور تجارتی سرگرمی بن چکی ہیں۔

ڈیٹا سائنس، بایوانفارماتکس اور مصنوعی ذہانت کا استعمال جینیاتی ڈیٹا کی تشریح، علاج کی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لیے بڑھ گیا ہے۔

اقتصادی و معاشرتی چیلینجز

ترقی پذیر ممالک میں جینیاتی تحقیق اور علاج کی رسائی محدود ہے، جس سے ’’جینیاتی تقسیم‘‘ کا خطرہ پیدا ہوا ہے یعنی امیر اور غریب ممالک، یا معاشروں کے اندر امیر و غریب افراد کے درمیان جینیاتی سائنس تک رسائی کا فرق۔

ذاتی ڈی این اے ڈیٹا کی پرائیویسی، انٹلیکچوئل پراپرٹی حقوق، جینیاتی علاج کے اخراجات اور سماجی قبولیت کی بحث زیادہ اہم ہو گئی ہے۔

معاشرتی سطح پر جینیاتی تفریق کے خلاف قوانین اور اخلاقی فریم ورک کی ضرورت بڑھ گئی ہے مثال کے طور پر، نسلی بنیاد پر جینیاتی ’’خیالات‘‘ یا علاج کی ترجیحات پیدا ہو سکتی ہیں۔

آئندہ امکانات اور اندیشے

آئندہ دہائیوں میں جینیاتی علاج اور ذاتی میڈیسن فروغ پائیں گے، لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ سیاسات، اخلاقیات، مالی وسائل اور تکنیکی رسائی میں توازن قائم کیا جائے۔

’’ڈی این اے کوڈ زندگی کا راز‘‘ جاننے کے بعد، اگلا مرحلہ ’’کوڈ کا استعمال‘‘ اور ’’کوڈ کا ترمیم‘‘ کا ہے اس میں سائنسدان اور معاشرہ دونوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

عالمی تعاون کا رجحان بڑھے گا، مگر قومی مفاد اور قومی سلامتی کی بنا پر جینیاتی تحقیق پر کچھ تحفظاتی پالیسیز بھی سامنے آئیں گی۔

اخلاقی تعلیم، عوامی آگاہی اور قانونی ضابطہ بندی کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے تاکہ سائنس کے فوائد سب کو پہنچیں، اور نقصانات یا ناانصافی کا امکان کم ہو۔

ضمنی تناظر: پاکستان اور خطے کا زاویہ

واٹسن کی دریافت کا اثر پاکستان اور برصغیرِ پاک و ہند کے تناظر میں بھی قابلِ غور ہے:

جینیاتی تحقیق، صحت عامہ اور ذاتی علاج کے حوالے سے پاکستان کی سائنس و میڈیسن کا شعبہ اب تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مگر اور زیادہ سرمایہ کاری، تحقیقی بنیادیں، لیبارٹری انفراسٹرکچر، اور عوامی آگاہی درکار ہے تاکہ جینیاتی سائنس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچ سکے۔

معاشرتی اور معاشی طور پر غریب طبقوں کے لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا جینیاتی علاج، ٹیسٹنگ اور ذاتی میڈیسن ان کے لیے بھی ممکن ہوگی یا یہ صرف امیر طبقوں کے لیے محدود رہے گی؟ پاکستان میں اس حوالے سے پالیسی سازی کی اشد ضرورت ہے۔

نسلی اور سماجی تفریق کے منظرِعام پر یہ بحث بھی اہم ہے کہ جینیاتی معلومات کی بنیاد پر کسی فرد یا طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے، اور ڈی این اے ڈیٹا حفاظت اور رازداری کے تحت ہو۔

آئندہ پاکستان میں جینیاتی تحقیق اور بایوٹیک شعبہ کو عالمی مارکیٹ، برآمدی مواقع اور علاج-تجویزاتی مراکز کے اعتبار سے ترقی کا موقع مل سکتا ہے، بشرطِ یہ کہ تعلیم، انفراسٹرکچر اور پالیسی منظرنامہ مستحکم ہو۔

نتیجہ اور حمد و شکر کا پیغام

جیمس واٹسن کا انتقال سائنس کے ایک دور کے اختتام کی علامت ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کی یاددہانی بھی ہے کہ سائنس محض نتائج کا مجموعہ نہیں، بلکہ انسانی فکری، اخلاقی اور معاشرتی سفر ہے۔ ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے اس راز کی کھوج میں حصہ لیا جو ’’زندگی کا کوڈ‘‘ کہلاتا ہے، اور اس کا انویلڈ ہونا آج ہمیں بے شمار امکانات فراہم کرتا ہے علاجی جدت، ذاتی صحت، معاشی ترقی اور تحقیقاتی حوصلے۔

اسی وقت، ہمیں یہ بھی عہد کرنا ہوگا کہ سائنس صرف تکنیکی ترقی کا ذریعہ نہ رہے بلکہ انسانیت کی بھلائی، مساوات اور اخلاقی بنیاد پر عمل پزیر ہو۔ واٹسن کی دریافت کے ذریعے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ تجسس، تحقیق، ماڈل سازی اور جذبہ وہ عوامل ہیں جو انسان کو آگے لے جاتے ہیں، مگر یہ بھی اہم ہے کہ وہ ذمہ داری، انصاف اور اخلاقیات کے ساتھ ہوں۔

جیمس واٹسن کی زندگی اور کارنامے ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں:

’’سچائی کی تلاش، شجاعت اور علمی لگن وہ راستے ہیں جنہوں نے انسان کو نئے افق تک پہنچایا ہے اب ہمیں وہ راستہ آگے بڑھانے کا ہے، بہتر، زیادہ منصفانہ اور زیادہ ذمے دارانہ انداز میں۔‘‘  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جینیاتی معلومات جینیاتی تحقیق جینیاتی علاج ٹیکنالوجی کی کے تناظر میں ڈی این اے کی میں جینیاتی معاشرتی اور کی بنیاد پر اور پالیسی پر جینیاتی اور اخلاقی دریافت کے تحقیق اور اور معاشی کی تحقیق سائنس کی انہوں نے اور ذاتی پیدا ہو یہ سوال اور اس کے لیے میں یہ کے بعد

پڑھیں:

تحقیق کے جدید تقاضوں کے عنوان سے ڈاکٹر رازق حسین میثم کی گفتگو

سیشن کے میزبان جامعہ روحانیت کے شعبہ تحقیق کے معاون، برادر مظلوم ولایتی تھے، جبکہ مہمان گرامی ڈاکٹر رازق حسین میثم (پروفیسر، مسلم یوتھ یونیورسٹی اسلام آباد) تھے۔ اسلام ٹائمز۔ شعبۂ تحقیق، جامعہ روحانیت بلتستان شعبہ قم کی جانب سے تحقیق کی اہمیت و ضرورت اور عصر حاضر کے تقاضے کے عنوان سے ایک آن لائن سیشن کا اہتمام کیا گیا۔ سیشن کے میزبان جامعہ روحانیت کے شعبہ تحقیق کے معاون، مظلوم ولایتی تھے، جبکہ مہمان گرامی مسلم یوتھ یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر رازق حسین میثم تھے۔ ڈاکٹر رازق میثم نے نشست سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں تحقیق کے معنیٰ و مطلب اور اغراض و اہمیت کو صحیح سمجھنا چاہیے کیونکہ یہاں فہم کی غلطی تحقیق کے عمل کو سبوتاژ کر دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام میں تحقیق کو ایک اہم اور مرکزی مقام حاصل ہے، معاد پر اللہ اور حضرت ابراہیم کا مکالمہ اس طرف ایک خوبصورت اور بامعنیٰ اشارہ ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول دعا، رب ارنا حقائق الاشیاء کما ھی" اور "فاتبیینوا" کا قرآنی امر بھی تحقیق کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ریسرچ کو ایک پاکیزہ اور مقدس امر سمجھا جائے، اس کو عبادت خیال کیا جائے، جہاد کے متعلق رہبرِ معظم انقلاب اسلامی کی آراء کی روشنی میں اس کو جہادِ تحقیق قرار دیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مدارس و مراکزِ دینیہ میں جو تحقیقی جمود ہے اس کو توڑنے کی اشد ضرورت ہے، آج مغربی اسکالرز اسلام اور تشیع پر جو تحقیقات کر رہے ہیں وہ ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی ہیں، شاید ہی کوئی دینی موضوع ایسا ہو جس پر مغرب میں بہترین تحقیقات نہ ہوئی ہیں، ہمارے علمی مراکز سے محقیقین پیدا ہونے چاہیں، ان میں ایک جاندار ریسرچ کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جو طلاب میں "لیطمئن قلبی" کی پیاس بیدار کرے، سوشل میڈیا کا دور ہے جہاں حقائق مسخ کیے جاتے ہیں ایسے میں تحقیق سے دوری امت میں علمی گمراہی کی راہ کھول سکتا ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • مشہور مینکور ہرم مصر میں خفیہ راستے کا انکشاف
  • مشہور ہرمِ مصر میں خفیہ راستے کا انکشاف
  • عرفان صدیقی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی‘ یوسف رضا گیلانی
  • تحقیق کے جدید تقاضوں کے عنوان سے ڈاکٹر رازق حسین میثم کی گفتگو
  • تاریک غارمیں دنیا کا سب سے بڑامکڑی کا جال دریافت
  • ڈاکٹر ہلال نقوی، ادبی خدمات کے پچاس سال
  • غیر ملکی ہیکرز کا پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی ڈیٹا پر سائبر حملہ
  • پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ڈیٹا پر غیر ملکی سائبر حملہ ناکام
  • پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی پر سائبر حملے کا دعویٰ؛ پی ایف ایس اے کی تصدیق