جین زی کمزور ترین پاس ورڈز استعمال کرنے والی نسل قرار؛ ماہرین پریشان
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آج کے ڈیجیٹل دور میں جب ہر شخص اپنی نجی معلومات، تصاویر، مالی لین دین اور روزمرہ رابطوں کے لیے آن لائن سسٹمز پر انحصار کرتا ہے، وہاں پاس ورڈ ایک ایسی بنیادی حفاظتی دیوار ہے جس کی مضبوطی پر ہی صارف کی پرائیویسی اور ڈیٹا کی سلامتی قائم ہوتی ہے۔
تازہ تحقیقی رپورٹ نے اس حوالے سے نوجوان نسل کے رویّے پر سنگین سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ اگرچہ عمومی تاثر یہ ہے کہ جین زی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے، مگر رپورٹ نے بتایا کہ یہ نسل پاس ورڈ کے انتخاب میں نہایت لاپروائی کا مظاہرہ کررہی ہے، بلکہ ان کے منتخب کردہ پاس ورڈز اتنے غیر محفوظ ہیں کہ انہیں سیکنڈوں میں توڑا جاسکتا ہے۔
ٹیکنالوجی سے وابستہ اداروں کے مطابق پاس ورڈ مینیجمنٹ ٹولز تیار کرنے والی ایک بڑی کمپنی نے ہزاروں صارفین کے استعمال شدہ پاس ورڈز کا جائزہ لیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان طبقے کی اکثریت اب بھی ’12345‘ یا ’123456‘ جیسے پاس ورڈز استعمال کر رہی ہے۔
حیرت انگیز طور پر جب انہیں مزید ہندسوں کا انتخاب کرنا پڑتا ہے تو وہ بھی سیدھی ترتیب میں ایک سے سات یا ایک سے نو تک کے نمبروں کو ملا کر پاس ورڈ بنالیتے ہیں۔ ماہرین اسے سب سے کمزور اور خطرناک طرزِ عمل قرار دے رہے ہیں، کیونکہ ایسے پاسورڈز عام ہیکنگ سافٹ ویئر کے ذریعے چند لمحوں میں ٹوٹ سکتے ہیں۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ 1997 کے بعد پیدا ہونے والے افراد اپنی یادداشت پر کم بھروسا کرتے ہیں اور اس وجہ سے غیر پیچیدہ، آسان اور یاد رہ جانے والے پاسورڈز کا انتخاب کرتے ہیں جو درحقیقت انہیں ہیکرز کا آسان شکار بنا دیتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سابقہ نسلیں، خصوصاً 1946 سے 1964 کے درمیان پیدا ہونے والے لوگ بھی یہی نمبرز استعمال کرتے تھے، مگر اُس دور میں ٹیکنالوجی کی رفتار، ڈیٹا کی نوعیت اور ہیکنگ کے ہتھکنڈے اتنے پیچیدہ نہیں تھے، اسی لیے ان پاس ورڈز کو اُس وقت نسبتاً محفوظ تصور کیا جاتا تھا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ آگاہی مہمات، میڈیا کمپینز اور مختلف پلیٹ فارمز پر چلائے جانے والے سیکورٹی الرٹس کے باوجود نوجوانوں نے اپنی پاس ورڈ عادات میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی۔ اگرچہ کچھ صارفین نے غیر روایتی ہندسوں، علامات اور بڑے حروف کے امتزاج سے نئے پاس ورڈز تشکیل دینے کی کوشش کی ہے، لیکن ان کی تعداد اب بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
تحقیق میں امریکا، جاپان، جرمنی، فرانس اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ہزاروں افراد کا ڈیٹا شامل تھا جن میں زیادہ تر جین زی شامل تھے، اور ان سب کا رجحان تقریباً ایک جیسا پایا گیا۔
ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ نئے دور کی نوجوان نسل پاس ورڈ کے بجائے بائیومیٹرک سیکورٹی، پاس کیز، فیس آئی ڈی، فنگر پرنٹ اور ٹو فیکٹر آتھنٹیکیشن جیسے جدید حفاظتی طریقے استعمال کر رہی ہے، جس سے ان کے اکاؤنٹس کے براہِ راست ہیک ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، تاہم کمزور پاس ورڈ کا استعمال اب بھی ایک سنگین کمزوری ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بدقسمت ٹائی ٹینک جہاز کے مسافر کی قیمتی گھڑی نیلامی میں فروخت، قیمت ہوش اڑا دے گی
112 سال پہلے ڈوبنے والے بدنصیب جہاز ٹائی ٹینک کا ایک مسافر اپنی جیب میں سونے کی ایک نایاب گھڑی لیے سمندر کی گہرائیوں میں ڈوب گیا تھا۔ آج وہی گھڑی دنیا کی مہنگی ترین یادگار بن گئی ہے۔
برطانیہ میں ہونے والی نیلامی میں پیش کی جانے والی گھڑی ٹائی ٹینک کے امیر ترین مسافر ایسڈور اسٹراس کی تھی، جو باویریا میں پیدا ہونے والے ایک امریکی تاجر، سیاست دان اور نیویارک کے مشہور میسیز ڈیپارٹمنٹ اسٹور کے شریک مالک تھے۔
وہ اپنی اہلیہ آئڈا کے ساتھ 14 اپریل 1912 کو ٹائی ٹینک میں ساﺅتھمپٹن سے نیویارک کے لیے روانہ ہوئے تھے جو ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا
یہ 14 قیراط سونے کی جیبی گھڑی 3.61 ملین آسٹریلوی ڈالر میں فروخت ہوئی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس سے قبل بھی برفیلے سمندر میں غرق ہونے والے ٹائی ٹینک جہاز کی بچ جانے والی متعدد اشیاء نیلامی میں پیش کی گئیں مگر اس گھڑی کی فروخت نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔
یاد رہے کہ فروخت کا پچھلا ریکارڈ بھی ایک گھڑی کا ہی تھا جو اسی جہاز کے بہادر کپتان آرتھر راسٹران کی تھی جنہوں نے ٹائی ٹینک پر سوار 700 مسافروں کی جانیں بچائی تھیِ۔
کپتان آرتھر راسٹران کی یہ گھڑی 3.16 ملین آسٹریلوی ڈالر میں نیلام ہوئی تھی جس کا ریکارڈ ایسڈور جوڑے کی گھڑی نے توڑ دیا ہے۔