فوجی کارروائی ختم نہیں ہوئی، بڑے سکیورٹی چیلنجز باقی ہیں، نیتن یاہو کی ڈھٹائی برقرار
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ ہمارے کچھ دشمن دوبارہ منظم ہو کر ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم اس پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے تیار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جنگی جنون میں مبتلا اسرائیلی وزیراعظم کی ڈھٹائی برقرار ہے۔ جنگ بندی کے باوجود نیتن یاہو نے بیان دیا کہ غزہ میں فوجی کارروائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو اب بھی بڑے سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے کچھ دشمن دوبارہ منظم ہو کر ہم پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم اس پر مکمل طور پر قابو پانے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ اسرائیلی فوج نے جہاں بھی لڑائی کی، اس میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ کامیابیوں کے بعد اسرائیل کے لیے نئے مواقع بھی پیدا ہوئے ہیں اور اگر قوم متحد ہو کر کام کرے تو وہ چیلنجز پر قابو پاسکتی ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
غزہ جنگ بندی نیتن یاہو کی سیاسی موت ثابت ہوگی، سروے
یہ نتائج انتہائی دائیں بازو کے ووٹر بیس میں گہری ناراضگی اور مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں، جو جنگ بندی کے معاہدے کو اپنے نظریات کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بین گویراور اسموٹریچ، جنہوں نے ہمیشہ حماس کے مکمل طور پر تباہ ہونے اور تمام قیدیوں کی واپسی تک فوجی آپریشن جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے، اب انہیں سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر ہٹائے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ فلسطین میں کیےگئےسروے سے حاصل ہونیوالے اعدادوشمار اور نتائج کے مطابق 48 فیصد جواب دہندگان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ مکمل ہونے کے بعد عام انتخابات چاہتے ہیں،اس سے موجودہ اسرائیلی کابینہ پر گہرے عدم اعتماد اور تبدیلی کی خواہش کی نشاندہی ہوتی ہے۔ انسانی اور جغرافیائی سیاسی نتائج سے قطع نظر غزہ جنگ بندی معاہدے نے مقبوضہ علاقوں میں ایک سیاسی زلزلہ برپا کر دیا ہے۔
تازہ ترین سروےسے پتہ چلتا ہے کہ معاہدے نے بنجمن نیتن یاہو کی اتحادی کابینہ کو پہلے سے کہیں زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔ صہیونی اخبار معاریو میں شائع ہونے والے ایک سروے میں حکمران اتحاد کی نازک سیاسی حالت کی واضح تصویر پیش کی گئی ہے: حزب اختلاف نے 59 نشستوں کے ساتھ نیتن یاہو کے اتحاد (51 نشستوں) کو 8 نشستوں سے پیچھے چھوڑ دیا ہے، یہ خلا اسرائیل کے سیاسی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کے امکانات کو ظاہر کرتا ہے۔
زیادہ حیران کن نیتن یاہو کی کابینہ میں موجود انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی کمزور حالت ہے۔ جیوش پاور پارٹی، جس کی قیادت موجودہ وزیر داخلہ اتمار بین گویر کے پاس ہے، اس کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کے ساتھ، صرف چھ نشستوں پر بچیں گئیں۔ دریں اثناء، مذہبی صہیونی جماعت، جس کی قیادت وزیر خزانہ، اسموٹریج کر رہے ہیں، اگر قبل از وقت انتخابات کرائے جاتے ہیں تو ایک بھی نشست نہیں جیت پائے گی۔
یہ نتائج انتہائی دائیں بازو کے ووٹر بیس میں گہری ناراضگی اور مایوسی کی عکاسی کرتے ہیں، جو جنگ بندی کے معاہدے کو اپنے نظریات کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بین گویراور اسموٹریچ، جنہوں نے ہمیشہ حماس کے مکمل طور پر تباہ ہونے اور تمام قیدیوں کی واپسی تک فوجی آپریشن جاری رکھنے پر اصرار کیا ہے، اب انہیں سیاسی منظر نامے سے مکمل طور پر ہٹائے جانے کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس صورتحال نے نیتن یاہو کو مخمصے میں ڈال دیا ہے۔
ایک طرف، انتہائی دائیں بازو کے ساتھ اتحاد جاری رکھنے کا مطلب جنگ کے خاتمے اور استحکام کی طرف بڑھنے کے عوامی مطالبے کو نظر انداز کرنا ہے۔ دوسری طرف، اپوزیشن پر فتح حاصل کرنے اور وسیع تر اتحاد بنانے کی کوششیں بین گویراور اسموٹریچ کی کابینہ سے علیحدگی اور حکومت کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غزہ کی جنگ بندی نے نہ صرف وقتی طور پر جنگ کی آگ کو بجھا دیا ہے بلکہ نیتن یاہو کے اتحاد کی راکھ کے نیچے موجود چنگاری کا کام کرتے ہوئے ایک ایسی آگ بھی جلائی ہے جو کسی بھی لمحے بھڑک سکتی ہے اور اسرائیل کے سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کر سکتی ہے۔
بن گویر اور اسموٹریج بھی مکمل طور پرایک مشکل تعطل میں پھنس گئے ہیں، ان کی کابینہ سے علیحدگی اور نیتن یاہو کے اتحاد کے خاتمے کا نتیجہ ان تمام افراد کی سیاسی زندگیوں کا خاتمہ ہو گا (نیتن یاہو، بین گویراور اسموٹریچ)، اور ان کے اتحاد کی طرف سے غزہ جنگ میں باضابطہ شکست بھی ان کی سیاسی زندگی کا خاتمہ شمار ہوگی۔غزہ کے ان جلادوں کے لیے کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔