دہلی دھماکے کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے دسمبر میں ہونے والے بھارت کے دورے کو مؤخر کر دیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے رواں برس تیسری بار دورۂ بھارت مؤخر کر دیا اور نئی تاریخ کا بھی اعلان نہیں کیا گیا۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ فیصلہ نئی دہلی میں دو ہفتے قبل ہونے والے مہلک دہشت گرد حملے کے بعد سامنے آنے والے سنگین سیکیورٹی خدشات کے باعث کیا گیا ہے۔

قبل ازیں نیتن یاہو کو 9 ستمبر کے ایک روزہ دورے پر آنا تھا لیکن 17 ستمبر کو الیکشن کے باعث اسے منسوخ کرنا پڑا تھا۔

اس سے بھی قبل اپریل میں بھی انھوں نے بھارت کا طے شدہ دورہ اچانک معطل کردیا تھا اور مودی سرکار کو شدید سبکی اُٹھانا پڑی تھی۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو آخری بار 2018 میں بھارت گئے تھے تاہم رواں برس تین بار دورے کی تاریخ کا اعلان کیا گیا لیکن ہر بار معطل کرنا پڑا۔

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے دورۂ بھارت کی نئی تاریخ کا اعلان اب ممکنہ طور پر آئندہ برس 2026 میں ہی کیا جا سکے گا۔

یاد رہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 2017 میں اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں اور اسرائیل جانے والے پہلے بھارتی وزیراعظم بنے تھے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو

پڑھیں:

بھارت ، ہندو ریاست بننے کی طرف گامزن

ریاض احمدچودھری

امریکی اخبارنے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت کو آہستہ آہستہ یک جماعتی ریاست کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ مودی جتنے چیلنجز کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فلاحی سکیمیں زیادہ تر وزیر اعظم کے نام پر ہیں جن کی بہت زیادہ تشہیر کی جاتی ہے۔ کچھ ججز، یا سپریم کورٹ کے کچھ ججوں کو حکومت کے ساتھ بہت نرمی برتتے دیکھا گیا۔ ان کے فیصلے یا تو حکومت کے حق میں ہوتے ہیں یا پھر کچھ ججوں کے فیصلوں نے مودی حکومت کو اہم آئینی چیلنجوں سے بچا لیا۔ ایسے ججوں کو پارلیمنٹ میں نشست سے نوازا گیا، جب کہ کچھ کو کمیشن میں عہدہ یا کسی ریاست کا گورنر بنا کر نوازا گیا۔ جنہوں نے تھوڑی سی بھی آزادی دکھانے کی کوشش کی، انہیں تبادلوں اور کیریئر میں جمود کا سامنا کرنا پڑا۔ مودی سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف شکایات درج کی گئیں اور انہیں عدالتی مقدمات میں پھنسایا گیا جو برسوں تک چلے۔ بعض اوقات کچھ شکایتیں کاپی پیسٹ کی نظر آتی ہیں، سب کی ایک ہی شکایت۔ میڈیا بڑی حد تک بزدل ہو چکا ہے۔ سول سوسائٹی سے اختلاف کرنے والوں کو ہراساں یا خاموش کر دیا گیا ہے۔ اہم پالیسیوں پر پارلیمانی بحث ختم ہوچکی ہے۔ تاہم بی جے پی نے بار بار اس بات سے انکار کیا کہ ان کا عدالتی نظام پر کوئی اثر ہے۔
بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ مودی حکومت کے چند سالوں میں مذہبی تفریق اس قدر بڑھ چکی ہے جو پہلے کبھی نہ تھی۔ نیا بھر کے امن پسند ممالک ،تنظیمیں اور دانشور اس بات کا بھر ملا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی صرف اس خطے کیلئے خطرہ نہیں بلکہ اگر اس دہشت گردی اور انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو دنیا کا امن خطرے میں پڑہ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں تو انتہا پسند جماعتوں پر پاپندی لگا کر امن کیلئے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند جماعت بر سر اقتدار ہے اور اسی جماعت کے رہنما جنہیں گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔
ہندو انتہا پسندوں کا حدف صرف مسلمان اور سکھ نہیں نچلی ذات کے ہندو اور مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔ مدھیہ پردیش، کیرالہ، کرناٹکہ، اوڑیسہ، گجرات میں مسیحیوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وشواہندو پریشد کے غنڈے مسیحی آبادیوں پر حملے کر رہے ہیں اور چرچ اور مسیحیوں کی املاک کو تباہ کر رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں۔ 2014 میں عین کرسمس کے دن کھرگون، کھنڈوا اور ہرہانپور کے مسیحیوں پر منظم حملے کئے گئے۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ساری دنیا دیکھ رہی ہے مگر پوری دنیا کے ممالک نے آنکھیں بند کیں ہیں۔نریندر مودی کی حکومت نے قومی و ریاستی سطح پر ایسے قوانین کا اجرا کیا ہے، جن سے انتہاپسندی کو تقویت مل رہی ہے۔ جیسے کہ مویشیوں کی تجارت پرپابندی عائد کردی گئی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ تاج محل” بھارت کی تہذیب و ثقافت ”کی نمائندگی نہیں کرتا، کیوں کہ یہ سترہویں صدی میں ایک مسلمان بادشاہ نے اپنی بیوی کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ بعض اقلیتی اور سیکولر طبقے خوفزدہ ہیں کہ بھارت کی سالمیت خطرے میں ہے۔
مودی کی اس انتہا پسندی پر عدم توجہی کی ایک وجہ وہ دباؤ ہے جو ان پراس بنیاد پرست ہندو تنظیم کی جانب سے ہے جس سے وہ خود تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی ہندو انتہا پسندوں نے پچھلی دہائیوں میں سیکولر طبقے کے خلاف جدوجہد کے ذریعے اپنے آپ کو مستحکم کیا اور انہوں نے مودی کی انتخابی مہم میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اب وہ اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بھارت اس وقت مکمل انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جا چکا ہے اور بھارت کا سیکولرزم کا چہرہ مسخ ہو چکا ہے۔دنیا کا امن اسی صورت قائم رہ سکتا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں بند کیا جائے۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب اور اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں پر اپنی تازہ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت کا موجودہ سیاسی ڈھانچہ ایسے طرزِ عمل کو تقویت دیتا ہے جو مذہبی اقلیتوں کے لیے امتیازی ماحول پیدا کرتا ہے۔
کمیشن کے مطابق حکمراں جماعت بی جے پی اور آر ایس ایس کے باہمی تعلقات نے ایسے قوانین اور حکومتی اقدامات کی راہ ہموار کی ہے جو مذہبی آزادی کو محدود کرتے ہیں۔ قومی اور ریاستی سطح پر نافذ کیے گئے مختلف قوانین اور اقدامات اقلیتوں کے لیے متعدد رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ 2014 میں بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ نوعیت کی پالیسیوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ کمیشن کے مطابق بی جے پی بھارت کو ایک واضح ہندو ریاست بنانے کے ایجنڈے کی طرف بڑھ رہی ہے، جبکہ آر ایس ایس کا بنیادی نظریہ بھی اسی سمت کی ترجمانی کرتا ہے۔ آر ایس ایس نہ صرف نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہے بلکہ بی جے پی کو بڑی تعداد میں رضاکار بھی مہیا کرتی ہے، جن میں وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل رہے ہیں۔ موجودہ پالیسیوں کے نتیجے میں بھارت میں مذہبی آزادی مزید محدود ہوتی جا رہی ہے اور اقلیتوں کے حقوق پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • بھارت ، ہندو ریاست بننے کی طرف گامزن
  • کراچی :وفاقی وزیر تجارت جام کمال ایکسپو سینٹر میں تیسری بین الاقوامی فوڈ اینڈ ایگریکلچر نمائش میں مختلف اسٹالز کا دورہ کررہے ہیں
  • دہلی دھماکے کے بعد نیتن یاہو نے رواں برس تیسری بار دورۂ بھارت مؤخر کر دیا
  • بھارت محفوظ نہیں؛ اسرائیلی وزیراعظم نے تیسری بار دورہ منسوخ کردیا
  • اسرائیلی وزیراعظم کا سیکیورٹی خدشات کے باعث بھارت کا دورہ منسوخ
  • اسرائیلی وزیراعظم نے سکیورٹی خدشات پر اپنا بھارت کا دورہ منسوخ کردیا
  • ٹرمپ کے بائیکاٹ کے باعث مودی نے’محفوظ‘طریقے سے G20 میں شرکت کی، کانگریس کا طنز
  • ایشوریا رائے کا مودی کو طمانچہ