Jasarat News:
2025-11-26@01:31:46 GMT

عدلیہ کا عروج وزوال

اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251126-03-5
پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ کبھی بھی تابناک اور مثالی نہیں رہی۔ جسٹس منیر احمد سے اس کے زوال کا آغاز ہوا اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا اور جنرل پرویز مشرف کے دستورِ پاکستان کو معطل کر کے اقتدار پر قبضے اور پھر ایمرجنسی لگا کر عدلیہ کو معزول کر کے من پسند جج صاحبان سے پی سی او کا حلف لینے کی مثالیں اس کی روشن دلیل ہیں۔ جسٹس انوار الحق جنرل ضیاء الحق کو اور جسٹس ارشاد حسن خان جنرل پرویز مشرف کو شخصی طور پر آئین میں ترمیم کرنے اور تین سال حکمرانی کا اختیار بھی دے چکے تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معزولی‘ پھر عدالت کے ذریعے بحالی‘ پھر معزولی اور اس کے بعد ایک طویل ’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کے نتیجے میں دوبارہ بحالی کی تاریخ سب کو معلوم ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ’روشن خیالی‘ کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کو لائسنس دیے‘ انہیں امید تھی کہ اْن کے ہاتھ کا کاشت کردہ یہ پودا ہمیشہ اْن کا ہمنوا اور مدح سرا رہے گا۔ لیکن یہی آزاد میڈیا اْن کے خلاف ہو گیا اور عدلیہ بحالی تحریک کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اْس وقت اْن کے طویل ریلیوں اور مختلف بار ایسوسی ایشنوں سے خطابات کو گھنٹوں لائیو کوریج دی جاتی تھی اور فیض احمد فیض کی نظمیں بڑی شان سے سنائی جاتی تھیں‘ جن کے چند اشعار درج ذیل ہیں: ’’جب ارض خدا کے کعبے سے‘ سب بت اٹھوائے جائیں گے؍ ہم اہل ِ صفا مردودِ حرم مَسند پہ بٹھائے جائیں گے ٭ سب تاج اْچھالے جائیں گے‘ سب تخت گرائے جائیں گے؍ ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ٭ بس نام رہے گا اللہ کا‘ جو غائب بھی ہے حاضر بھی‘ جو منظر بھی ہے ناظر بھی ٭ اور راج کرے گی خلق خدا‘ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ٭ ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔

اْس وقت تاثر یہ تھا کہ یہ ایک فطری تحریک ہے‘ طبقہ ٔ وکلا‘ سیاسی جماعتیں‘ سول سوسائٹی‘ الیکٹرونک وپرنٹ میڈیا اور عوام سب یک زبان ہو گئے ہیں اور گویا سب دل وجان سے اس تحریک کے پشتیبان ہیں اور یہ سب کے دل کی آواز ہے۔ طبقہ ٔ وکلا میں سے بیرسٹر اعتزاز احسن اس تحریک کے سرخیل تھے اور عدالت عظمیٰ کے موجودہ مستعفی جج اطہر من اللہ چیف جسٹس کے ترجمان ‘ مگر بعد میں پتا چلا کہ اس کے پیچھے غیبی طاقتیں کارفرما تھیں اور اس تحریک کو جنرل کیانی کی اشیرباد حاصل تھی۔ اس لیے جب اسلام آباد کی طرف نواز شریف کا احتجاجی مارچ گوجرانوالہ پہنچا تو جنرل صاحب کا اعتزاز احسن کو فون آیا کہ آپ کا مطالبہ مان لیا گیا ہے‘ اس لیے تحریک کو موقوف کر دیں اور اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ٹیلی ویژن پر آ کر جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کا اعلان کیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑ گئی اور آخرکار انہیں وردی اُتارنا پڑی اور برّی افواج کی کمان جنرل کیانی کے حوالے کرنا پڑی۔ بعد میں اعتزاز احسن نے اس تحریک سے برآمد نتائج کو دیکھ کر برملا کہا: ’’اس تحریک نے ہمیں متعصب جج اور متشدد وکلا دیے‘‘ اور حال ہی میں انہوں نے کہا ہے: ’’میں عدلیہ سے مایوس ہوں‘‘۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کو پوری قوم کی طرف سے اعزاز ملا تھا‘ مگر اْن کا ظرف چھوٹا تھا اور وہ بہت جلد چھلک گیا‘ لگا کہ معاذ اللہ! انہیں کوئی غیبی منصب مل گیا ہے‘ پھر انہوں نے پورے نظام کو شکنجے میں کَسنا شروع کر دیا‘ سب سے زیادہ زور آزمائی اْس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پر ہوئی اور انجامِ کار سید یوسف رضا گیلانی کو توہین ِ عدالت کا مرتکب قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزول کر دیا۔ اس کے بعد بھی اْن کی اَنا کو تسکین نہیں ملی اور انہوں نے پورے نظام کو لرزہ براندام کر دیا۔ اعتزاز احسن چونکہ افتخار محمد چودھری کی بحالی تحریک کے سرخیل تھے‘ اس لیے انہوں نے برتر اخلاقی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت میں بطورِ وکیل پیش نہیں ہوں گے۔ مگر افتخار محمد چودھری نے انہیں کہا: آپ ضرور میری عدالت میں پیش ہوں‘ پھر وہ سید یوسف رضا گیلانی کے وکیل بن کر پیش ہوئے اور افتخار محمد چودھری نے اپنے فیصلے میں سید یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی انہیں تحفے کے طور پر دی۔ چونکہ افتخار محمد چودھری ہر چیز کی شکست وریخت پر تْلے بیٹھے تھے‘ اس لیے انہوں نے ریکوڈک اور کارکے رینٹل کے بین الاقوامی معاہدوں کو منسوخ کر دیا‘ اس کی بعد بین الاقوامی عدالت میں پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی‘ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے عالی مرتبت جج صاحبان ’’قانونِ بین الاقوام‘‘ سے کس قدر بے بہرہ ہیں۔

اس کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان ثاقب نثار‘ آصف سعید کھوسہ‘ گلزار احمد اور عمر عطا بندیال نے تو ساری حدود پامال کر دیں۔ اس مہم میں بعض جج صاحبان اْن کے آلہ ِ کار تھے۔ بعض جج صاحبان کے اہل ِ خانہ دھرنوں میں شریک ہوتے تھے۔ عوام کے مقدمات پس ِ پشت ڈال دیے جاتے اور سیاسی مقدمات سجا کر ٹِکر چلوائے جاتے تھے۔ بعض فیصلوں کو جج صاحبان کے مقرّب میڈیا نمائندے پہلے ہی منکشف کر دیتے تھے۔

اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ اور عدالت عظمیٰ کے بعض جج صاحبان نے قانونِ توہین عدالت کو اس قدر افراط کے ساتھ استعمال کیا کہ اْن کے نام ’’گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں درج ہونے چاہئیں۔ بات بات پر توہین ِ عدالت کی دھمکی دی جاتی تھی‘ جسٹس ثاقب نثار کا تکیہ ٔ کلام تھا: آرٹیکل 62F تو ہے نا۔ نظام لرزہ براندام رہا‘ دستور کی چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترامیم کو کوئی بھی مثالی قرار نہیں دے گا‘ لیکن جب آپ نظام کو مفلوج کرنے پر تْلے بیٹھے ہوں‘ تو اگر نظام کمزور ہے تو ڈھ جائے گا اور طاقتور ہے تو اس کے بطن سے ایسی ہی آئینی ترامیم برآمد ہوں گی‘ یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے۔ اگر عدالت کچھ توازن

کے ساتھ چلتی تو شاید درمیانی راستہ نکل آتا۔ مقدمات کے فیصلے شخصی ترجیحات کی بنیاد پر آتے رہے‘ ایک فیصلے میں کہا گیا: ارکانِ پارلیمنٹ کو پارٹی سربراہ کی ہدایات کو ماننا ہوگا‘ ورنہ اْن پر ’’خَلف ِ وعد (Floor Crossing)‘‘ کی دفعہ لگے گی۔ دوسری بار جب صورتحال بدل گئی تو فیصلہ بھی بدل گیا اور کہا گیا: ارکانِ پارلیمنٹ کو پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کو ماننا ہوگا‘ ورنہ ان پر فلور کراسنگ یعنی ’’خَلف ِ وَعد‘‘ کی دفعہ لگے گی‘‘۔ الغرض عالی مرتبت جج صاحبان نے بھی آئین کو موم کی ناک بنا دیا‘ تو کہنے والے کہہ سکتے ہیں: ’’ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند‘‘۔ یعنی آئین سے کھلواڑ وہ گناہ ہے جو عدلیہ خود بھی کرتی رہی ہے۔ کیا دنیا کی کسی عدالت نے کوئی ایسی ضمانت دی ہے کہ آئندہ ہونے والے جرائم کے لیے بھی موثر ہو‘ جبکہ ہماری عدالتیں ایسی ضمانتیں بھی منظور کر چکی ہیں‘ لیکن یہ کس قانون کے تحت‘ اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ پس جب عدالتیں خود وزرائے اعظم کو معزول کر رہی تھیں‘ جن کے بارے میں آج پی ٹی آئی کے رہنما اور حامد خان صاحب جیسے وکلا کہہ رہے ہیں کہ وہ غلط تھا‘ تو کیا کسی جج نے اْس وقت احتجاجاً استعفا دیا؟ جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جناب شوکت عزیز صدیقی کو جوڈیشل کمیشن کے ذریعے اْن کو سنے بغیر برطرف کیا جا رہا تھا تو جسٹس اطہر من اللہ نے اس کے خلاف ایک لفظ بھی کہا‘ حالانکہ وہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن میں کھلے عام بیان دے چکے تھے کہ مجھ پر جنرل فیض حمید نے بلا کر دبائو ڈالا اور من پسند فیصلہ کرنے کا حکم دیا اور اس کے نتیجے میں چیف جسٹس بنانے کی بشارت دی۔ لیکن جب انہوں نے اس حکم کو نہ مانا تو انہیں عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے برطرف کرا دیا‘ تب یہ اصول پسند جج کہاں تھے؟ جسٹس طارق محمود جہانگیری جب تک اپنی قانون کی ڈگری کی صحت وصداقت ثابت نہیں کر پاتے‘ کیا اْن کے لیے عدالت کے منصب پر بیٹھنے کا اخلاقی جواز ہے؟ سو ہمارے آج اور کل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پس ملک کو آئین وقانون کے مطابق چلانے کے لیے ایک نئے قومی میثاق کی ضرورت ہے۔

مفتی منیب الرحمن سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سید یوسف رضا گیلانی افتخار محمد چودھری جنرل پرویز مشرف جسٹس افتخار اسلام ا باد دیکھیں گے چودھری کی تحریک کے اس تحریک انہوں نے چیف جسٹس جائیں گے اس لیے اور اس کے لیے کر دیا

پڑھیں:

جسٹس (ر) یار محمد گلگت بلتستان کے نگران وزیر علیٰ مقرر

جسٹس یار محمد کا تعلق ضلع استور کے نصیر آباد سے ہے اور وہ کئی دہائیوں پر مشتمل عدالتی تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے سول جج سے لے کر چیف کورٹ کے جج بننے تک کا سفر طے کیا ہے اور عدالتی امور میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جسٹس (ر) یار محمد کو گلگت بلتستان کا نگران وزیر اعلیٰ مقرر کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کی منظوری کے بعد رات گئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق گلگت بلتستان کی چیف کورٹ کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) یار محمد کو نگران وزیراعلیٰ مقرر کر دیا گیا ہے۔ جسٹس یار محمد کا تعلق ضلع استور کے نصیر آباد سے ہے اور وہ کئی دہائیوں پر مشتمل عدالتی تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے سول جج سے لے کر چیف کورٹ کے جج بننے تک کا سفر طے کیا ہے اور عدالتی امور میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ کی حیثیت سے ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بروقت اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ نگران وزیر اعلیٰ کیلئے بڑے کھلاڑی میدان میں تھے، اسلام آباد کے ایوانوں میں سخت لابنگ چل رہی تھی۔ حیران کن طور پر یار محمد کا نام پہلے سامنے نہیں آیا تھا۔ اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے وزیر اعظم کو بھجوائے گئے ناموں میں یار محمد کا نام شامل نہیں تھا۔ نگران وزیر اعلیٰ کی دوڑ میں سابق نگران وزیر وقار عباس منڈوق، راجہ نظیم الامین، سابق سیکرٹری کشمیر افیئرز شاہد اللہ بیگ، اسلامی تحریک کے رہنما محمد علی قائد، معروف کاروباری شخصیت اور سابق نگران وزیر جوہر علی راکی نمایاں تھے۔ تاہم حیران کن طور پر پیر کے رات گئے یار محمد کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا۔

متعلقہ مضامین

  • وفاقی اور صوبائی اینٹی ریپ قانون میں تضاد کس نے دیکھنا ہے؟ جسٹس عالیہ
  • جسٹس (ر) یار محمد گلگت بلتستان کے نگران وزیر علیٰ مقرر
  • پی ٹی آئی کے دھاندلی الزامات: وفاقی آئینی عدالت کا لارجر بینچ تشکیل
  • دھاندلی کے الزامات کے معاملے پر پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر
  • پی ٹی آئی کے دھاندلی الزامات: وفاقی آئینی عدالت کا لارجر بنچ تشکیل
  • پی ٹی آئی کی دھاندلی کی درخواست پر آئینی عدالت کا سماعت کا شیڈول جاری
  • وفاقی آئینی عدالت نے دھاندلی کے الزامات کے معاملے پر پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کےلیے مقرر کردی
  • وفاقی آئینی عدالت نے دھاندلی کے الزامات کے معاملے پر پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کےلیے مقرر کردی
  • انتخابی دھاندلی کیس: آئینی عدالت کا 5 رکنی لارجر بینچ 25 نومبر کو سماعت کریگا