Jasarat News:
2025-11-26@01:31:46 GMT

ضمنی انتخابات کا سیاسی سبق

اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251126-03-2
پنجاب اور خیبر پختون خوا کے 13 قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران اتحاد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ان 13 نشستوں میں سے 11 نشستوں پر بائیکاٹ کیا تھا جبکہ لاہور اور ہری پور میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کا مقابلہ کیا۔ پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے بعد یہ مقابلہ یکطرفہ تھا اور پہلے سے معلوم تھا کہ مسلم لیگ ن ہی یہ انتخابی معرکہ جیتے گی۔ البتہ ہری پور کی نشست پر پی ٹی آئی کی شکست کافی حیران کن تھی کیونکہ آخری خبریں آنے تک پی ٹی آئی کی وہاں برتری تھی جو رات گئے ختم کر دی گئی اور یہاں بھی پی ٹی آئی کو انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان انتخابات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ووٹروں کی طرف سے بہت زیادہ گرم جوشی دیکھنے کو نہیں ملی اور ٹرن آؤٹ بھی بہت کم رہا۔ لاہور کے انتخابی معرکے میں آخری خبریں آنے تک ٹرن آؤٹ کی شرح 10 فی صد سے بھی کم تھی۔ لیکن رات گئے الیکشن کمیشن کی سیاسی پھرتیوں کی وجہ سے ٹرن آؤٹ میں اضافہ کیا گیا تاکہ الیکشن کا سیاسی جواز پیش کیا جا سکے۔ الیکشن کمیشن کا کردار ہری پور کے انتخابی معرکے میں بھی بہت مایوس کن نظر آیا جہاں رات گئے انتخابی نتائج کی تبدیلی نے ووٹروں کو کافی مایوس کیا ہے۔ ضمنی انتخابات کی یہ کہانی سیاسی اور جمہوری قوتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ لوگ موجودہ سیاست اور نام نہاد جمہوری نظام سمیت انتخابی سیاست سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ عوام کو انتخابی نظام پر کوئی اعتماد نہیں رہا اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات محض ایک ڈراما ہے اصل کھیل پردۂ اسکرین کے پیچھے طے ہو جاتا ہے کہ کس کو جیتانا ہے اور کس کو شکست سے دوچار کرنا ہے۔ اسی لیے ووٹر پولنگ اسٹیشن پہ جانے سے گریز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے اجتماع عام میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ملک سے جعلی انتخابات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اور مینڈیٹ چرانے کا کھیل ختم کر کے ملک میں شفاف انتخابی نظام قائم کیا جائے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سے شفاف انتخابات پر سوالیہ نشان رہے ہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے انتخابات کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس نے اس ملک کی سیاست اور جمہوریت پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور طاقتور طبقات نے طے کر لیا ہے کہ انہیں شفاف انتخابی نظام نہیں چاہیے۔ ان کو ایک ایسا انتخابی نظام درکار ہے جو ان کے مرضی اور منشا کے مطابق انتخابی نتائج پیش کر سکے۔ سیاست پر ان کا کنٹرول باقی رہے۔ الیکشن کمیشن کا طرز عمل کافی تنقید کا نشانہ بن رہا ہے اور اس کی موجودگی میں شفاف انتخابات ایک خواب بن گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو کیسے شفاف بنایا جائے یا اس ادارے کو کیسے خود مختاری دی جائے کہ یہ آئین اور قانون کے تابع ہو، یہ خود سیاسی قوتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور مستقبل میں ہونے والے انتخابات زیادہ شفاف ہوں گے۔ لیکن ہر انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی کارکردگی صفر بٹا صفر ہوتی ہے اور کوئی انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ جب انتخابی نتائج کو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ترتیب دیا جائے گا تو اس سے عوام کا اعتماد کا کمزور ہونا فطری امر ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ المیہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اب محض اقتدار کی سیاست سے چمٹ کر رہ گئی ہیں۔ ان کی سیاست میں اب نہ تو ہمیں جمہوریت نظر آتی ہے اور نہ ہی آئین و قانون کی حکمرانی کا کوئی پہلو دیکھنے کو ملتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ذاتیات پر مبنی سیاست کر رہی ہیں اور ان کا مقصد اپنے کاروبار کو وسعت دینا ہے۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے اب سیاست نظریات اور اصول سے باہر نکل کر کاروبار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اسی لیے لوگ اب سیاست میں دلچسپی کم لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں نہ صرف ووٹروں کو بلکہ اپنے کارکنوں کا استحصال بھی بڑے پیمانے پر کر رہی ہیں۔ اس لیے اگر آج ہمیں سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کمزور نظر آتی ہے تو اس کی وجہ خود سیاسی جماعتوں کا اپنا طرز عمل بھی ہے۔ ملک کی سیاست میں آئین اور قانون کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقصد ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی اور ان کے مفادات کا تحفظ ہے۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان میں گورننس پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے نہ تو معیشت مستحکم ہو رہی ہے اور نہ ہی سیاسی نظام۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کی حکمرانی ہے اور اس مخصوص طبقے نے ملک کے سیاسی اور معاشی نظام کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اس کے برعکس عام آدمی کے مفادات کو کوئی تحفظ نہیں دیا جا رہا اور نہ ہی ان کی کوئی سرپرستی کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان حالات میں لوگ سیاست میں کیوں دلچسپی لیں اور کیوں انتخابی کی سیاست کا حصہ بنیں۔ یاد رکھیں سیاسی اور جمہوری نظام انہی معاشروں میں کامیابی سے چلتا ہے جہاں اس کا براہ راست تعلق عام آدمی کے مفادات اور ان کے مسائل کے حل سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن اگر نظام عام آدمی کے مقابلے میں طاقتور طبقات کی ترجمانی کرے گا تو ایسے میں لوگ جمہوری نظام میں کیوں دلچسپی لیں گے۔ اس لیے پاکستان کے ریاستی اور حکمرانی کے نظام سے جڑے افراد یا فیصلہ ساز قوتوں کو خود اپنی اداؤں اور طرز عمل پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کس قسم کی سیاست کر رہے ہیں۔ اگر سیاست کا یہ طرز عمل اسی طرح جاری رہا تو لوگ انتخابات کیا سیاست سے بھی توبہ کر لیں گے۔ اس وقت پاکستان میں واقعی تبدیلی کی سیاست کی ضرورت ہے اور لوگوں کو ایک انقلابی تبدیلی درکار ہے۔ ایسی تبدیلی جو ملک کی سیاست میں عوام کی ترقی اور خوشحالی کو ممکن بنا سکے اور لوگوں کا ریاست پر اعتماد بحال ہو سکے۔ اس کے لیے ایک بڑی سیاسی جدوجہد کا حصہ بننا پڑے گا۔ کیونکہ لوگوں کو سیاست اور جمہوریت کی طرف واپس لانے کے لیے ہمیں ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی مدد سے آگے بڑھنا ہوگا۔ لیکن اس کے لیے کیا سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت تیار ہے؟ کیا وہ عوامی مفادات پر مبنی جنگ لڑنے کے لیے خود کو بھی تیار رکھیں گی۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگ تبدیلی نہیں چاہتے یا وہ کسی بڑی سیاسی جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں بلکہ انہیں اس وقت اس بات کا پوری طرح احساس ہے کہ انہیں کسی سیاسی جدوجہد کا حصہ بننا چاہیے۔ لیکن وہ اس جنگ کے لیے سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں انہیں سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملتا۔ جماعت اسلامی کی قیادت ایک بڑی جنگ لڑنے کی تیاری کر رہی ہے اور اس نے برملا اعلان کیا ہے کہ وہ پرامن سیاسی جدوجہد کے لیے میدان میں نکل رہی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ جماعت اسلامی سیاست کے اس میدان میں کس حد تک ایک بڑا فیصلہ کن کردار ادا کر سکے گی۔ لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ روایتی سیاست اور روایتی انتخابات کی بنیاد پر معاشروں میں کبھی بڑی تبدیلیاں رونما نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے روایتی سیاست کے کھیل کو ختم کرنا لازمی امر ہوتا ہے۔ یہ جو انتخابات کا کھیل پاکستان میں جاری ہے اس نے سیاست اور جمہوریت کی شکل کو بدنما بنا دیا ہے اور ہمیں اس کھیل سے خود کو جلدی باہر نکالنا ہوگا۔ لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ اس ملک کا مستقبل ایک منصفانہ اور شفاف انتخابی نظام سے جڑا ہوا ہے اور اسی بنیاد پر جمہوریت آگے بڑھ سکتی ہے۔

اداریہ سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انتخابی نتائج سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن جماعت اسلامی انتخابات کا پاکستان میں اور جمہوری سیاست میں پی ٹی ا ئی سیاست اور ہے اور اس کی سیاست ا ہے اور اور ان کی وجہ کے لیے کا حصہ

پڑھیں:

نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی

پاک بھارت جنگی کشیدگی میں ان کی سیاسی اور دفاعی محاذ پر شکست کے بعد ایک عمومی رائے یہ ہی بنی تھی کہ نریندر مودی کی نہ صرف مقبولیت میں کمی ہوئی ہے بلکہ اب وہ ایک بڑے سیاسی بوجھ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

اسی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ وہ اور ان کی جماعت بی جے پی سمیت اتحادی جماعتیں حالیہ بہار کے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے اور ان کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن بہار کے انتخابات او راس کے نتائج نے مودی کے مخالفین کو سخت مایوس کیا ہے اور تمام تر حکمت عملی کے باوجود ان کے مخالفین بہار کے انتخابات میں مودی کی سیاسی برتری کے جادو کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ان انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ نریندر مودی کی پاکستان مخالفت یا جنگی حکمت عملی نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ اس کا اثر ہمیں ان انتخاب کے نتائج میں مودی کے حق میں دیکھنے کا موقع ملا ہے۔یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نریندر مودی کی سیاسی مقبولیت بھی باقی ہے ۔

نریندر مودی نے بہار کے انتخابات میں پاکستان مخالفت کا کارڈ خوب کھیلا اور ہندو سوچ کے ووٹروں کو اس نقطہ پر متحد کیا کہ پاکستان اس کے لیے نہ صرف ایک بڑا خطرہ بلکہ دشمن کی حیثیت رکھتا ہے ۔

نریندر مودی کو اندازہ تھا کہ بھارت کے انتہا پسندی کے مزاج کے ووٹرز میں مسلم یا پاکستان دشمنی کا کارڈ جیت کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی کارڈ میں وہ بہار کے انتخابات کو جیت سکتے ہیں۔بہار کے ان انتخابات کے نتائج نے عملا جہاں مودی کی پاکستان دشمنی کی سیاست میں بڑا سیاسی ریلیف دیا ہے وہیں اس نقطہ کو بھی اجاگر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی کشیدگی کا ایک کارڈ بہار کے انتخابات او ران انتخابات میں سیاسی برتری کا بھی تھا۔یقینا بہار کے انتخابات میں مودی کی سیاست مضبوط ہوئی ہے اور ان کو سیاسی آکسیجن ملا ہے وہیں ان انتخابات کے نتائج کا سیاسی اثر اگلے برس میں مغربی بنگال کے انتخابات کے نتائج پر بھی مودی کی حمایت بدستور برقرار رہے گی۔

نریندر مودی کی حمایت میں ان کا نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یعنی این ڈی اے کی عملا کامیابی خودان کے سیاسی مخالفین کے لیے بھی بڑا سیاسی دھچکہ ہے جو حالیہ صورتحال کا فائدہ اٹھا کر مودی کو سیاسی طور پر پسپائی کی طرف دکھیلنا چاہتے تھے۔نریندر مودی نے بہار کے انتخابات میں ’’ رچے بہار ‘‘ کا نعرہ لگا کر وہاں کے ووٹروں کو نہ صرف اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ ان میں پاکستان دشمنی کا کارڈ بھی خوب کھیلا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نریندر مودی کی پاکستان مخالفت کا کارڈ بہار کے انتخابی نتائج میں کامیابی کے بعد ختم ہوجائے گا اور وہ اس کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے یا ان کی حکمت عملی یہ ہی ہوگی کہ وہ پاکستان کے ساتھ تناو اور کشیدگی کو برقرار رکھ کر پاکستان دشمنی کا کارڈ مغربی بنگال کے انتخابات میں بھی بطور ہتھیار استعمال کریں ۔اصل میں مودی اورآج کی بی جے پی کی عملی سیاست پاکستان اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر کھڑی ہے اور مودی کا طویل عرصے تک اقتدار کی سیاست میں کامیابی سے موجود رہنا ہی ان کی عملا ہندوتا کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔

اس لیے پاکستان دشمنی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تناو،ٹکراو اور بگاڑ سمیت جنگ جنون مودی کی سیاسی حکمت عملیوں کا کل بھی حصہ تھا اور آج بھی وہ اسی حکمت عملی کی بنیاد پر اپنے سیاسی کارڈ کھیل رہے ہیں۔نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی میں یہ نقطہ بھی اہم ہے کہ کیا وہ مغربی بنگال کے انتخابات سے پہلے پاکستان کے خلاف دوبارہ سے کوئی بڑی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر جنگ یا کشیدگی کی صورت میں براہ راست کریںگے۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا کوئی بھی ایجنڈا ان کی سیاسی حکمت عملیوں میں شامل نہیں ہے۔نریندر مودی ایک طرف بھارت کی جانب سے پاکستان مخالفت کا کارڈ بھی کھیلنے کو ترجیح دیں گے تاکہ ان پر بھارت کا دباو برقرار رہے تو دوسری طرف ان کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ وہ افغان طالبان ، حکومت سمیت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے اور پراکسی جنگ کو اپنی مضبوط حکمت عملی کا حصہ بنائے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو بھی مذاکرات ہورہے تھے، اس کی اب تک کی ناکامی یقینی طور پر بھارت کے مفاد میںہے اور وہ ہر صورت افغانستان کو پاکستان مخالف قوت کے طور پر دیکھنا اور کھڑا کرنا چاہتا ہے۔اس لیے ایک طرف پاکستان کا چیلنج بھارت کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اب ہم افغانستان کے ساتھ بھی برے تعلقات کی وجہ سے مسائل پیدا کررہا ہے ۔اگرچہ نریندر مودی کے سیاسی مخالفین مودی کی بہار کے انتخابات میں 90فیصد کامیابی کو مشکوک بنیادوں پر دیکھ رہی ہے اور اسے ایک بڑی سیاسی کامیابی کے بجائے انتظامی حکمت عملی کے طور پر پیش کررہی ہے ۔

ان کے بقول مودی کی اس کامیابی کے پیچھے انتخابی بے ضابطگیاں ہیں جو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہیں۔لیکن اپوزیشن کے لیے سب سے بڑی فکر مندی یہ ہونی چاہیے کہ مودی کی عسکری حکمت عملی کیسے انتخابی نتائج پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے ۔بھارت جو خود کو آج بھی سیکولرسیاست کے طورپر پیش کرتا ہے یا دنیا میں اپنی پہچان سیکولر سیاست کے طور پر ہی رکھنا چاہتا ہے تواس کا سب سے بڑا چیلنج موجودہ حالات میں خود کو ہندواتہ کی سیاست سے علیحدہ کرنے سے ہونا چاہیے۔لیکن بہار کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیںکہ مودی کی ہندواتہ پر مبنی سیاسی کارڈ آج بھی طاقت میں ہے اور اس کو کمزور کرنے میں اس کے مخالفین کو بدستور ناکامی کا سامنا ہے۔

مودی کی موجودہ حکمت عملی کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بھی بہتری کے فوری امکانات کمزور ہیں اور دونوں اطراف میں کشیدگی کا موجود رہنا ظاہرکرتا ہے کہ ہماری علاقائی سیاست کے چیلنجز بڑھ گئے ہیں۔

چین او رامریکا نے پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں کردار ادا کرنے کی بات کی ہے مگر جو کچھ ان کی جانب سے پس پردہ یا پردہ اسکرین پر ہوا ہے اس کے فی الحال کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آسکے ۔اسی طرح بھارت میں نریندر مودی کے سیاسی مخالفین یا کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی مودی مخالفت میں روائتی سیاسی طریقوں سے باہر نکلنا چاہیے کیونکہ مودی کی انتخابی سیاست میں سیاسی اور انتظامی کنٹرول کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ایسے لگتا ہے مودی کے سیاسی مخالفین کے پاس سیاسی نعرے تو ہیں مگر یہ نعرے بھارت کیے ووٹروں کو متاثر نہیں کررہے ۔ایسے میں نریندر مودی کا سیاسی جن کیسے ختم یا کمزور ہوگا وہی اس وقت بھارت کی داخلی سیاست میں مودی مخالفین کے لیے بڑا چیلنج ہے ۔اسی طرح مودی کے سیاسی مخالفین کی سیاسی تقسیم بھی مودی ہی کی سیاست کو فائدہ پہنچارہی ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی
  • نظامِ مصطفیؐ کا نفاذ ہی مسائل کا دیرپا حل ہے‘ شکیل قاسمی
  • سہ روزہ بستی
  • سسٹم کا بحران اور امکانی خدشات
  • عوام نے تخریبی سیاست مسترد کرکے کردیا خوشحالی کو چن لیا، نواز شریف کی ضمنی انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد
  • انتخابی نظام مکمل زوال کا شکار ہے، لیاقت بلوچ
  • انتخابی شیڈول کے اعلان تک ہمارا کوئی امیدوار نہیں: حافظ نعیم  
  • انتخابی شیڈول کے اعلان تک ہمارا کوئی امیدوار نہیں: حافظ نعیم
  • لاہور کے حلقہ این اے 129 میں انتخابی میدان سج گیا، حلقے میں کس برداری کا ووٹ بینک زیادہ ہے؟