ایک بڑی کارروائی اور حزب اللہ کا فیصلہ!
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
اسلام ٹائمز: طباطبائی کا قتل اسوقت ہوا، جب ذرائع کے مطابق حالیہ ہفتوں میں حزب اللہ کے فوجی ادارے اور مجاہدین کے اندر اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ کو بہت مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔ جواب دینا ہے یا نہیں اور ہر انتخاب کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔ اگر اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور یہی سلسلہ جاری رہا تو اسرائیل حزب اللہ کے آخری مجاہد کے قتل تک اس جنگ کو جاری رکھے گا اور موجودہ صورتحال پر رضامندی کا مطلب سوائے کسی تلخ انجام اور رضاکارانہ طور پر شکست قبول کرنے کے کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن دوسری طرف اگر حزب اللہ نے حملوں کا جواب دیا تو یقینی طور پر ایک اور تباہ کن جنگ شروع ہو جائے گی اور اس بار یہ جنگ حزب اللہ کو داخلی محاذ پر بھی پیش آسکتی ہے۔ تحریر: صابر گل عنبری
اسرائیل نے بیروت کے مضافات میں حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈر ہیثم علی طباطبائی کے قتل کا اعلان کیا اور حزب اللہ نے بھی اپنے ایک بیان میں اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ حزب اللہ کے اس کمانڈر کے جلوس جنازہ میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ اسرائیل حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے بعد تقریباً ایک سال سے لبنان پر روزانہ قتل و غارت گری اور حملوں کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، لیکن ہیثم طباطبائی کا قتل کوئی عام قتل نہیں بلکہ اپنی نوعیت کا سب سے اہم قتل ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ یکطرفہ جنگ بندی بنیادی طور پر بے معنی اور عملی طور پر دو طرفہ عہد کے تناظر میں بے مقصد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں کئی محاذوں پر تباہ کن جنگوں اور حملوں کے باوجود اسرائیل کا خیال ہے کہ غزہ سے لے کر تہران اور یہاں تک کہ شام تک کسی بھی محاذ پر کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
اس لئے وہ مختلف انداز سے کبھی شدت اور کبھی ہلکے انداز سے بلکہ مختلف شکلوں کے ساتھ ان سب کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے یہ بتانا کوئی بری بات نہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ کا دوبارہ شروع ہونا بھی زیادہ دور کی بات نہیں ہے اور یہ شاید جلد یا بدیر شروع ہو جائے۔ لیکن بیروت کے مضافات میں اس حملے کے بعد اسرائیل کے شمالی محاذ پر پیش رفت کے حوالے سے، سب کچھ حزب اللہ کے ردعمل پر منحصر ہے۔ چاہے وہ پچھلے سال سے جنگ بندی کی پالیسی کو جاری رکھے یا اس بار فوری اور ضرورت کے تحت جواب دینے کا فیصلہ کرے۔ البتہ سب سے پہلے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سال میں حزب اللہ کی عدم فعالیت ایک خاص نقطہ نظر اور پالیسی پر مرکوز رہی ہے۔ شدید اور وسیع نقصان پہنچنے کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ اس کے پاس اب کوئی فوجی صلاحیت نہیں رہی۔
فی الحال، حزب اللہ کے بیان کا مطلب فوری جواب دینے کی دھمکی نہیں ہے۔ طباطبائی کا قتل اس وقت ہوا، جب ذرائع کے مطابق حالیہ ہفتوں میں حزب اللہ کے فوجی ادارے اور مجاہدین کے اندر اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کی درخواستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ کو بہت مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔ جواب دینا ہے یا نہیں اور ہر انتخاب کے اپنے نتائج ہوتے ہیں۔ اگر اس نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور یہی سلسلہ جاری رہا تو اسرائیل حزب اللہ کے آخری مجاہد کے قتل تک اس جنگ کو جاری رکھے گا اور موجودہ صورت حال پر رضامندی کا مطلب سوائے کسی تلخ انجام اور رضاکارانہ طور پر شکست قبول کرنے کے کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن دوسری طرف اگر حزب اللہ نے حملوں کا جواب دیا تو یقینی طور پر ایک اور تباہ کن جنگ شروع ہو جائے گی اور اس بار یہ جنگ حزب اللہ کو داخلی محاذ پر بھی پیش آسکتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں، اسرائیل جنوبی لبنان میں غزہ کی طرح بے لگام تباہی کے تجربے کو دہرانے کی پوری کوشش کرے گا اور حزب اللہ پر اندرونی دباؤ بڑھانے کے لیے لبنان کے دیگر حصوں میں موجود بنیادی ڈھانچے پر بھی حملہ کرے گا۔ اس صورت حال میں حزب اللہ کو اندرونی مخالف قوتوں کے حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس بار اسے دو محاذوں پر لڑنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اس لحاظ سے حزب اللہ کی صورتحال غزہ میں حماس سے کافی مختلف ہوگی۔ تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ جلد یا بدیر حزب اللہ پہلا آپشن منتخب کرے اور اسرائیلی حملوں کا جواب دینے میں جلدی کرے۔ البتہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اسرائیل خود حزب اللہ کے ردعمل کا بہانہ بنائے بغیر تباہ کن جنگ شروع کر دے۔ ایسی صورت میں حزب اللہ کے پاس اس جنگ میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں حزب اللہ کے حملوں کا جواب تباہ کن جنگ حزب اللہ کو جاری رکھے جواب دینے ہے کہ اس نہیں ہے کے ساتھ اور یہ
پڑھیں:
اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف کون تھے ؟
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں اسرائیل ایک فضائی حملے میں حزب اللہ کے اعلیٰ عسکری رہنما حیثم علی طباطبائی اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے تھے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لبنان کی وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملے میں حزب اللہ کے کمانڈرز سمیت 5 افراد شہید اور 28 زخمی ہوگئے تھے۔
لبنان کی مزاحمت پسند جماعتوں میں جری اور بہادر کہلائے جانے والے حیثم علی طباطبائی کی شہرت سید ابو علی کے نام سے بھی تھی۔
وہ 1968 میں بیروت کے علاقے بشورہ میں پیدا ہوئے اور جنوبی لبنان میں ہی پلے بڑھے۔ 1982 میں حزب اللہ کے قیام کے آغاز میں ہی تنظیم میں شامل ہوئے۔
حیثم طباطبائی نے اپنی عسکری مہارت، جوش و جذبے اور مقصد سے جنون کی حد تک لگاؤ کے باعث حزب اللہ میں اعلیٰ مقام پایا۔
وہ نہ صرف نبطیہ محاذ، خیام محاذ اور 2006 کی جنگ میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے بلکہ حزب اللہ کی ایلیٹ رضوان فورس کے قیام میں اہم کردار بھی ادا کیا۔
انھوں نے شام اور یمن میں رضوان فورس کی قیادت کی اور 2024 کی جنگ میں علی کرکی کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے جنوبی محاذ کے کمانڈر مقرر ہوئے۔
حیثم طباطبائی نے اس دوران اپنے اہداف کو تیزی سے حاصل کیا، دشمن کی تمام رکاوٹوں کو عبور کیا اور دشمن کو پسپائی پر مجبور کیا۔
انہی کامیابیوں کے باعث حیثم علی طباطبائی کو حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف کی اہم ترین ذمہ داری بھی دی گئی تھی اور انھوں نے اپنی قوم کو مایوس نہیں کیا۔
بطور چیف آف اسٹاف حیثم طباطبائی نے اسرائیل کے خلاف متعدد عسکری کارروائیاں کیں اور صیہونی فوج کے کئی مشنز کو خاک میں ملایا۔
یہ حیثم طباطبائی ہی تھے جن کی قیادت میں حزب اللہ اپنے سربراہ اور اعلیٰ ترین رہنماؤں کی شہادت کے باجود نئے عزم اور حوصلے سے کھڑی ہوئی تھی۔
اسرائیل بھی حیثم طباطبائی کو لبنان میں اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا تھا اور مہینوں سے کسی موقع کی تاک میں تھا۔
اسرائیل کو ناکوں چنے چبوانے والے حیثم طباطبائی صیہونی ریاست اور اس کے آقا امریکا کی انٹیلی جنس کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے۔
یہاں تک کہ اسرائیل کے ایک بزدلانہ حملے میں اپنی جان جان آفریں کی سپرد کرکے اپنے مقصد کے حصول کے لیے خون کا آخری قطرہ بہانے کا عہد نبھا گئے۔
ان کی نماز جنازہ میں عوام کا سیلاب امُڈ آیا تھا۔ حزب اللہ کی قیادت اور جنگجوؤں نے اپنے عظیم عسکری کمانڈر کو شایان شان خراج تحسین پیش کیا۔
حزب اللہ نے شہید حیثم کو عظیم شہید مجاہد کمانڈر کا لقب دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور امریکا نے سرخ لائن عبور کی ہے جس کا خمیازہ انھیں بھگتنا ہوگا۔