حزب اللہ کے پاس صہیونی حملوں کا جواب دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں، سید رضا صدر الحسینی
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1701 کے باوجود اسرائیل نے مسلسل جنگ بندی توڑی ہے، لہٰذا لبنان کو حق حاصل ہے کہ اسرائیلی فوجی اور غیر فوجی اہداف کے خلاف کارروائی کرے۔ اسلام ٹائمز۔ مغربی ایشیا کے امور کے ایرانی ماہر سید رضا صدر الحسینی کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے پاس اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں کا جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اور یہ جواب عسکری ہو گا، اس حوالے سے فقط سیکورٹی نوعیت کی کارروائی کا امکان کم ہے۔ بین الاقوامی خبر ایجنسی تسنیم سے گفتگو میں سید رضا صدر الحسینی نے ایک سال سے زیادہ عرصے قبل لبنان اور اسرائیلی رجیم کے درمیان طے پانیوالی جنگ بندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ معتبر علاقائی اور بین الاقوامی شواہد کے مطابق اس مدت میں اسرائیل نے جنگ بندی کی ایک ہزار سے زائد خلاف ورزیاں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ سمیت وہ ممالک جو جنگ بندی کے ضامن تھے، انہوں نے نہ ان خلاف ورزیوں پر کوئی اقدام کیا، نہ لبنان کے رہائشی علاقوں پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کی، بلکہ ان کے سکوت نے صہیونی رجیم کی عملی حمایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملوں میں متعدد لبنانی شہری شہید ہوئے ہیں، لیکن اقوامِ متحدہ جیسے عالمی اداروں نے ان جرائم کے مقابلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اقوامِ متحدہ نے صرف جنگ بندی کی خلاف ورزی سے متعلق فقط ایک رپورٹ پیش کی۔ صدرالحسینی نے لبنان کی صورتحال کو افسوسناک قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حالات صہیونی رجیم نے لبنان کی حکومت، عوام اور سرکاری و نجی اداروں پر مسلط کیے ہیں، اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ خطے میں مقاومت صہیونی حکومت کے خلاف عملی اقدام کرے، حالیہ حملوں میں حزب اللہ کے اہم اور مؤثر افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن میں حال ہی میں شہید ہونے والی شخصیت ہَیثَم علی طباطبائی (ابوعلی) بھی شامل ہیں، جو حزب اللہ کے اعلیٰ کمانڈرز میں سے تھے۔، صہیونی رجیم صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، یہ رجیم طاقت کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتی، اس کے خلاف سخت، عسکری اور جوابی کارروائی ہی واحد راستہ ہے۔
ان کے مطابق بیروت کی حکومت بھی اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ وہ صہیونی فوجی حملوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، اس لیے لبنانی شہریوں کی حفاظت کا واحد طریقہ یہی ہے کہ حزب اللہ ان حملوں کا جواب دے اور جوابی کارروائیوں کا منصوبہ بنائے، حزب اللہ کی عسکری کارروائیاں قابلِ پیش گوئی ہیں، اقوامِ متحدہ کی قرارداد 1701 کے باوجود اسرائیل نے مسلسل جنگ بندی توڑی ہے، لہٰذا لبنان کو حق حاصل ہے کہ اسرائیلی فوجی اور غیر فوجی اہداف کے خلاف کارروائی کرے، لیکن بڑے سیکیورٹی آپریشن یا خفیہ کارروائی کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کی ممکنہ کارروائیوں کی سطح اور نوعیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ مؤثر ثابت ہوں، لیکن لبنان میں یہ بھی بحث جاری رہے گی کہ غیر معمولی کارروائیوں کی صورت میں اسرائیل غیر متوقع اور شدید جرائم کا ارتکاب کر سکتا ہے، اس لیے جوابی کارروائی کا منصوبہ لبنانی عسکری و سیکیورٹی اداروں میں انتہائی محتاط طریقے سے زیرِ غور لایا جانا ضروری ہے، مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں نہ مقاومت، نہ اسرائیلی رجیم اور نہ ہی اس کے حامی، کسی کو بھی خطے میں بڑی جنگ بھڑکانے میں دلچسپی نہیں، امریکہ، جو یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا ضامن ہے، بھی جنگ کو وسعت نہیں دینا چاہتا، کیونکہ جنگ ان کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی، اور جنگ بندی کے ضامن ممالک کی سیاسی و قانونی ساکھ مزید متأثر ہوگی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حزب اللہ کے حملوں کا کے خلاف کا کہنا
پڑھیں:
اسرائیلی خلاف ورزیوں پر مانیٹرنگ اداروں نے آنکھیں بند کرلیں ہیں، نبیہ بیری
اپنے ایک بیان میں لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر کا کہنا تھا کہ اسرائیل، لبنان کی اندرونی کمزوریوں اور سیاسی تقسیم سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ اپنے حملوں کو جاری رکھ سکے۔ صیہونی خطرے سے نمٹنے کیلیے ملی یکجہتی سب سے موثر ہتھیار ہے۔ اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر "نبیہ بیری" نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیلی اشتعال اسی طرح بڑھتا رہا تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "حاره حریک" پر حالیہ اسرائیلی حملہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل نے جنوبی علاقوں اور بیروت کو دوبارہ سے اپنی جارحیت کا ہدف قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے اس تبدیلی کو بہت خطرناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام بیروت اور اس کے مضافات کی حفاظت خطرے میں ڈالنے کے متراف ہے۔ نبیہ بیری نے زور دے کر کہا کہ لبنان کی مقاومت اسلامی، معاندانہ اقدامات کے خاتمے کے لیے سیز فائر کی پوری طرح پابندی کر رہی ہے تاہم اسرائیل، جنگ بندی کے معاہدے کو پامال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ جانے نہیں دیتا اور مسلسل لبنان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لبنان کے خلاف تازہ ترین اسرائیلی جارحیت پر عالمی مانیٹرنگ اداروں کی جانب سے خاموشی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مستقبل قریب میں اسرائیل کے ساتھ تناؤ کے بڑھنے اور پھیلنے کا امکان ہے۔
لبنانی سپیکر نے بعض ملکی جماعتوں کے مؤقف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسرائیل، لبنان کی اندرونی کمزوریوں اور سیاسی تقسیم سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ اپنے حملوں کو جاری رکھ سکے۔ نبیہ بیری نے کہا کہ صیہونی خطرے سے نمٹنے کے لیے ملی یکجہتی سب سے موثر ہتھیار ہے۔ اسرائیل اپنے مفادات کے حصول کے لیے تقسیم کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جبکہ لبنانیوں کی باہمی یکجہتی سے ہر قسم کے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے لبنانی فوج کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اسے صحیح قرار دیا اور کہا کہ فوج نے خود کو خانہ جنگی میں نہیں گھسیٹا۔ نبیہ بیری نے موجودہ تناؤ کے دوران، اندرونی استحکام برقرار رکھنے کے لیے فوجی ادارے کی اس استقامت کو بنیادی عنصر قرار دیا۔ یاد رہے کہ 23 نومبر 2025ء کو بیروت کے جنوبی مضافات میں واقع "حاره حریک" پر اسرائیل نے فضائی حملہ کر دیا، جس میں لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے کمانڈر اور چیف آف اسٹاف "ہیثم علی طباطبائی" سمیت چار دیگر مجاہدین شہید ہو گئے۔