منی لانڈرنگ کے مراکز ملک تعاون نہیں کرتے، بس لیکچر دیتے ہیں: چیئرمین نیب
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
اسلام آباد (عزیز علوی) چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے قومی احتساب بیورو ہیڈکوارٹرز میں وفاقی دارالحکومت کے سینئر صحافیوں کے ساتھ پہلا باقاعدہ سیشن کیا جس میں ڈپٹی چیئرمین نیب جسٹس (ر) سہیل ناصر، ڈی جی نیب اسلام آباد/راولپنڈی وقار احمد چوہان، ڈی جی آپریشنز نیب امجد اولکھ سمیت سینئر حکام ان کے ہمراہ تھے۔ چیئرمین نیب نے بتایا کہ گذشتہ اڑھائی سالوں کے دوران ہم نے نیب کے ایس او پیز بدلے، پارلیمنٹ نے نیب ایکٹ میں دو بڑی ترامیم کی منظوری دی اور نیب کے دائرہ اختیار کو 50 کروڑ روپے کی کرپشن سے کارروائی کا اختیار دیا گیا۔ ہم اس قانون کو بدلنا چاہتے ہیں تاکہ 50 کروڑ کی حد ختم کی جائے جس کیلئے ہم تجاویز پیش کریں گے۔ نذیر احمد بٹ نے کہاکہ نیب میں ہم نے یہ اصول بنایا ہے کسی کی پگڑی نہیں اچھالیں گے نہ ہی دبائو کو خاطر میں لائیں گے۔ ثبوت ہو گا تو کیس آگے چلے گا ورنہ نہیں۔ اب نیب کاروباری برادری کوتنگ نہیں کرتا۔ جعلی یا جھوٹے کیسز فائل کرنے کا معاملہ اصلاحات سے ٹھیک کیا۔ پیشہ ور جھوٹی اور گمنام درخواستیں دینے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ دو سال سات ماہ میں 8 ہزار 397 ارب روپے کی ریکوری کی گئی جبکہ اس سے پہلے نیب کے قیام سے 2023 تک صرف 883 ارب روپے کی ریکوری ہوئی تھی۔ صوبائی اسمبلیوں میں اکاؤنٹیبلٹی فسلیٹیشن سینٹر بنائے گئے ہیں۔ کسی وزیر یا پارلیمنٹیرین کا نام سامنے آنے پر براہ راست طلب کرنے کی بجائے سپیکر آفس کے ذریعے جواب مانگا جاتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، صوبائی چیف سیکرٹریوں کے دفاتر، تمام چیمبرز آف کامرس اور بزنس کمیونٹی کے لیے فیسیلیٹیشن سینٹر بنائے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نذیر احمد بٹ نے کہا کہ احتساب کے معاملے پر سعودی عرب سے باہمی تعاون کا معاہدہ ہوا۔ خلیجی ممالک بھی تعاون کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شفافیت اور اخلاقیات کے علمبردار کئی ملک جو ہمیں لیکچر ضرور دیتے ہیں لیکن ہم سے تعاون نہیں کرتے وہ منی لانڈرنگ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ مغربی ممالک سات سات سال تک ہمیں ریکارڈ دیتے ہیں نہ جواب، صرف لیکچر دیتے ہیں۔ بریفننگ میں اڑھائی سالوں کی ریکوری نیب کے اکتوبر 1999ء کو قیام سے اب تک کے موازنے میں 90 فیصد زیادہ ہے۔ سب سے پہلے سرکاری اداروں واپڈا، ریلوے، بورڈ آف ریونیو، متروکہ املاک کی زمینیں واگزار کروائیں۔ نیب حکام نے بتایا کہ کوہستان سکینڈل میں 25 ارب کی ریکوری ہو چکی باقی کا عمل جاری ہے۔ بی آر ٹی خیبر پختونخوا پر چینی کمپنی کا کیس طے کرا کے عالمی ثالثی میں ملک کو 168 ارب جرمانے سے بچایا۔
.